تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     22-06-2023

مستقبل کے جھوٹے خواب !!

سمندر کی شور مچاتی بلند بانگ لہروں میں سفر کرتے ہوئے یہ پانچواں دن تھا۔ 40‘40 فٹ اوپر جاتی لہروں کیساتھ جب یہ کشتی ہچکولے کھاتی تو دل ڈوب ساجاتا تھا۔ ایسے میں گہرے نیلے پانیوں میں ہمیشہ کیلئے گم ہو جانے کا ڈر چہروں پر اداسی لاتا تو ایک دوسرے کو تسلی دیتے کہ چند دنوں کی بات ہے‘ پھر ایک اچھا مستقبل ہمیں یہ سخت دن یاد تک نہیں آنے دے گا۔ لیکن سفر تھا کہ کٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ کبھی ایجنٹ کی طرف سے کیے گئے اچھے سفر کے وعدے یاد آتے تو کبھی سفر پر روانہ ہونے سے پہلے ماں کی طرف سے پیشانی پر دیا گیا بوسہ۔ کبھی نم آنکھوں کیساتھ رخصت کرتے ہوئے بیوی اور بچے یاد آتے تھے تو کبھی بوڑھے ماں باپ لیکن اس سب میں بس ایک چیز ہمیں حوصلہ اور ہمت دے رہی تھی‘ وہ تھی اپنا اور اپنے اہلِ خانہ کا اچھا مستقبل۔ کشتی دو دن تک تو ٹھیک چلتی رہی لیکن تیسرے دن انجن خراب ہوگیا۔ جو کچھ دیر میں ٹھیک کر لیا گیا لیکن اس کے بعد کشتی صرف پہلے گیئر میں ہی چلتی‘ دوسرا گیئر لگاتے ہی بند ہو جاتی۔ کشتی رات میں پھر خراب ہو گئی اورپھر سے ٹھیک کر لی گئی جس کے بعد انجن بالکل ٹھیک ہو گیا۔ چوتھے دن کشتی چلانے والا راستہ بھول گیا۔ نہ ہمیں روٹی دی گئی نہ پانی۔ بھوک سے پسلیاں دکھ رہی تھیں تو پیاس سے حلق خشک تھا۔ کشتی کے سب سے نچلے حصے میں جو لوگ موجود تھے‘ ان میں سے دو لوگ پہلے ہی حبس اور گرمی کی وجہ سے جاں بحق ہو چکے تھے۔ چوتھے روز بھی کوئی مدد کو نہیں آیا۔ پانچویں دن ایک رسیور آیا پھر ایک بہت بڑا جہاز ہماری مدد کو آیا جس نے ہمیں پانی دیا۔ کھانے کو بروسٹ دیا۔ اس جہاز میں سوار لوگوں نے ہم سے کہا کہ ہم نے ریسکیو کیلئے کال کردی ہے۔ اتنے میں ہری لائٹ جلی‘ ایک نئی کشتی آئی اور اس میں سوار لوگوں نے کہا کہ ہم اٹلی والے ہیں اور آپ کی مدد کو آئے ہیں۔ ہم ان کے پیچھے لگ گئے‘ کچھ دیر بعد کشتی پھر خراب ہو گئی۔ اتنے میں ایک کشتی اور آئی اور دونوں کشتیاں ایک ساتھ کھڑی ہو گئیں۔ ان کشتیوں میں سے رسی ہماری کشتی کی طرف پھینکی گئی اور انہوں نے کھینچ کر رسی سے جھٹکا دیا جس کے بعد ہماری کشتی الٹی اور سمندر میں ڈوب گئی۔ ہم باہر تھے اس لیے کشتی سے چھلانگ لگانے میں کامیاب رہے لیکن ہمارے جو ساتھی کشتی کے نچلے حصے میں تھے‘ انہیں باہر نکلنے کا موقع ہی نہ ملا ۔اس سارے عمل میں ہماری کشتی میں سے صرف اسی‘ نوے لوگ اپنی جان بچا پائے۔
چند روز پہلے یونان میں ہونے والے کشتی حادثے میں زندہ بچ جانے والے چودھری ناصر کی یہ داستان دل کو دہلا دینے والی ایک ایسی کہانی ہے جو پڑھنے اور سننے والے کے رونگٹے کھڑے کر دے۔ ناصر اپنے علاقے میں ویلڈنگ کا کام کرتا تھا اور اپنے گھر والوں کی خواہشوں کو پورا کرنے کے جتن میں تھا۔ اس کے ہمسائے میں کچھ لوگ یورپ پہنچنے میں کامیاب ہوئے تو چودھری ناصر کے ذہن میں بھی یہ خیال آیا کہ وہ بھی اس کٹھن راستے سے گزر کر یورپ پہنچ گیا تو اس کی اور اس کی اہل خانہ کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا ہو جائیں گی۔ پھر کیا تھا‘ اس نے شارٹ کٹ کی تلاش شروع کردی۔ جیسے تیسے کرکے اس نے دوستوں سے ادھار لیا اور ایک ایجنٹ کو پیسے دے دیے۔ وہ تقریباً دو مہینے قبل یورپ جانے کیلئے نکلا تھا۔ قسمت کا کھیل دیکھئے کہ اس کے گھر سے نکلنے کے کچھ ہفتوں بعد اس کے پانچ سالہ بیٹے کی وفات ہو گئی۔ دونوں باپ بیٹا ایک دوسرے کیساتھ بے انتہا محبت کرتے تھے۔ شاید بیٹا باپ کی جدائی کو برداشت نہیں کر سکا۔ جب بیٹے کی وفات ہوئی تو اس وقت ناصر لیبیا میں تھا اور چاہتا تھا کہ وطن واپس آ جائے مگر اس کا پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات ایجنٹ کے پاس تھے۔ ناصر کے علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ اس کی یورپ جانے سے دو دن پہلے اپنے رشتہ داروں سے بات ہوئی تھی مگر اب وہ لاپتا ہے۔
یونان میں کشتی حادثے میں ضلع کوٹلی کے گاؤں بنڈلی کے تقریباً 28 نوجوان سوار تھے۔ ان میں سے صرف دو کے بچ جانے کی اطلاعات ہیں۔ کچھ ماہ پہلے اٹلی میں بھی ایسا ہی کشتی حادثہ پیش آیا تھا۔ بدقسمت کشتی میں سوار افراد بہتر مستقبل کا خواب لیے ابدی نیند سو گئے۔ جو لوگ غیرقانونی طریقے سے یورپ جا رہے تھے اور حادثے کا شکار ہوئے‘ ان کے لواحقین پر کیا قیامت گزر رہی ہو گی؟ان انسانی سمگلروں‘ جو لوگوں کو باہر لے جانے کا خواب دکھاتے ہیں‘عبرت کا نشان بنانا چاہیے تاکہ یہ گھناؤنا دھندا بند ہو سکے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کشتی الٹنے کے واقعے کی انکوائری کی ہدایات کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف گھیرا تنگ کیا جائے گا۔ انکوائری کمیٹی بیٹھ گئی ہے اور ایف آئی اے نے ایجنٹوں کے گرد گھیرا تنگ کر لیا ہے۔ انسانی سمگلروں کو پکڑنے کیلئے ٹیمیں تشکیل دے دیں گئی ہیں۔ ایف آئی اے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل گجرات نے بڑی کارروائی کرتے ہوئے اس حادثے میں ملوث اہم سرغنہ گرفتارکر لیا ہے۔ ایف آئی اے کے بقول گوجرانوالہ میں انسانی سمگلروں کے نیٹ ورک میں شامل ایجنٹوں نے نوجوانوں کو باہر بھجوانے کے غرض سے 24‘ 24لاکھ تک وصول کیے۔ جو لوگ ایجنٹوں کو اتنے پیسے دیتے ہیں اور اپنی جان بھی خطرے میں ڈالتے ہیں‘ انہیں چاہیے کہ وہ اتنے پیسوں سے اپنے ملک میں ہی کوئی کاروبار کر لیں۔ برطانوی اخبار دی گارجین کی رپورٹ میں زندہ بچ جانے والوں کی شہادتوں کا حوالہ دیا گیا ہے‘ جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کشتی کے اندر 150افراد کی گنجائش تھی لیکن اس کشتی میں 750افراد کو بٹھایا گیا۔ 400کا تعلق پاکستان‘ 200 کا مصر اور 150 کا شام سے تھا۔ کشتی کا کنٹرول مصریوں کے پاس تھا۔ اسی لیے وہ اپنے لوگوں کو ترجیح دے رہے تھے اور پاکستانی جو کشتی کے نچلے حصے میں سوار تھے‘ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں تھا‘جب وہ پانی مانگتے یا فرار ہونے کی کوشش کرتے تھے تو عملے کے ارکان ان کو بدسلوکی کا نشانہ بناتے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ زندہ بچ جانے والوں کے بیانات سے پتا چلتا ہے کہ خواتین اور بچوں کو مردوں سے بھرے جہاز میں محفوظ رکھنے کیلئے بحری جہاز کے نچلے حصے میں سفر کرنے پر مجبور کیا گیا تھا اور ان میں سے کسی کے بچنے کی اطلاع نہیں ہے۔
جب کشتی یونان پہنچی تو سگنل نہ ملنے کی وجہ سے وہ سمندر کے درمیان ہی پھنس گئی۔ یونانی حکام کو جب کشتی کا پتا چلا تو انہوں نے بے حسی کا مظاہرہ کیا‘ وہ کشتی کے آگے پیچھے گھومتے رہے لیکن آکر مدد نہیں کی۔ شاید وہ چاہتے تھے کہ کشتی ڈوب جائے اور بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوں تاکہ باقی لوگ اس سے عبرت حاصل کریں۔ جب کشتی ڈوب گئی اور بہت اموات ہو چکیں‘ پھر یونانی حکام مدد کو آئے اور 104لوگوں کو بچایا۔ اب یہ سوال بھی اہم ہے کہ بیرونِ ملک جانے کا رحجان کیوں بڑھ رہا ہے؟ ماہرین اس کی وجہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری بتاتے ہیں۔ ادارۂ شماریات کے مطابق گزشتہ برس آٹھ لاکھ سے زائد بیرونِ ملک منتقل ہوئے۔ملک سے برین ڈرین کے رجحان کو ختم یا کم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ یہاں اتنے وسائل پیدا کیے جائیں کہ لوگ باہر جانے کا خیال اپنے دل سے نکال دیں ۔ ریاست روزگار کی فراہمی میں ان کی مدد کرے۔ پاکستانیوں کو ضرور باہر جانا چاہیے‘ اپنے خاندان اور اپنے بہتر مستقبل کی تلاش ہر کسی کا حق ہے لیکن اس کیلئے قانونی راستہ اپنانا چاہیے۔ ڈپریشن کی حالت میں کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے جو آپ کے لواحقین کیلئے تکلیف کا باعث بنے۔ کیا فائدہ ایسا راستہ اپنانے کا جو آپ کو بہتر مستقبل کے بجائے ہمیشہ کیلئے موت کی نیند میں لے جائے۔ اور اپنے جن پیاروں کیلئے آپ یہ سب کر رہے ہیں‘ ان سے پھر کبھی مل ہی نہ پائیں۔ ایسا رسک لینے سے بہتر ہے کہ انسان کم کما لے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved