تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     22-06-2023

ایک بھولا بسرا سفر … (3)

میرا جسم ٹھنڈا اور بے جان تھا لیکن میں کسی طرح خشک پتھر پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ کنارے پر کھڑے ساتھیوں کی طرف ہاتھ بھی ہلایا کہ انہیں تسلی ہو جائے۔ کچھ دیر سانس بحال کرنے اور توانائی جمع کرنے میں لگی۔ پھر آہستہ آہستہ پتھروں پر قدم جماتا کنارے پر پہنچ گیا۔ میرے کنار ے پر پہنچنے کے بعد سب ساتھیوں کی جان میں بھی جان آئی‘ چچا رفیع سخت پریشان تھے۔ کچھ مقامی لوگ بھی یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کا بہت شکر ہے کہ آپ کی جان بچ گئی‘ ورنہ اسی نالے میں کئی جانیں جا چکی ہیں۔ وہ میرا اس نوعیت کا زندگی میں پہلا واقعہ تھا۔ بعد میں بھی چند ایسے ہی واقعات رونما ہوئے لیکن مالک کا کرم کہ اس نے ہمیشہ محفوظ رکھا۔
اس سفرکے کچھ اور واقعات بھی قابلِ ذکر ہیں۔ بحرین بازار میں کالام کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوں تو بائیں طرف پہاڑوں میں ایک نسبتاً کم بلند پہاڑ ہے۔ ہمیں یہ چوٹی سر کرنے کی سوجھی جس کا نام دلگن تھا۔ چچا جان سے اجازت لینے گئے۔ وہ خود بہت گھومنے پھرنے کے شوقین‘ مہم جو طبیعت کے مالک تھے لیکن ہمیں اجازت دینے میں انہیں بہت تامل تھا۔ ہم نے بہرحال بہت اصرار کرکے کسی طرح اجازت لے ہی لی۔ انہوں نے بہت سی ہدایات دیں جن میں ایک قیمتی بات یہ بھی تھی کہ جو پہاڑ دیکھنے میں بہت قریب لگتا ہے‘ اس کی طرف جانے پر وہ دور ہوتا جاتا ہے۔ یہ بات زندگی بھر پہاڑوں کے معاملے میں بھی درست نکلی اور کئی منزلوں اور انسانوں کے معاملے میں بھی۔
ایک چمکیلی صبح ہم تینوں تیاری کرکے پیدل نکلے۔ تیاری؟ کوئی ایسی ویسی تیاری؟ تین پِٹھو تیار کیے۔ دن بھر کیلئے کھانے پینے کی خشک چیزیں تو خیر تھیں ہی لیکن ذرا داد دیجئے کہ ابلے ہوئے انڈے بھی رکھے گئے۔ مزید داد دیجئے کہ راستے سے ایک تربوز بھی خرید لیا۔ کسی کوہ پیما نے کبھی یہ سوچا بھی ہوگا؟ پانی ساتھ نہیں رکھا گیا کہ ہماراخیال تھا‘ پہاڑ پر ہر جگہ چشمے بہتے ہوں گے۔ مقامی لوگوں سے پوچھتے پاچھتے ہم ایک ڈیڑھ گھنٹے میں دلگن کے دامن میں پہنچ گئے جہاں چوڑی سیڑھیوں کی طرح درجہ بدرجہ کھیت پہاڑ کے اوپر چڑھتے جاتے تھے۔ انہی کے بیچ میں ایک اریبی پگڈنڈی پہاڑ کی کمر سے پٹکے کی طرح لپٹی ہوئی تھی۔ کھیتوں کے بیچ یہاں وہاں سیب اور اخروٹوں کے بلند درختوں نے سایہ بچھایا ہوا تھا اور اس سائے میں مٹی سے لپے ہوئے اکا دکا کچے گھر تھے۔ ہم اس راستے پر چڑھتے اور پہاڑ کی کمر کے گرد گھومتے گئے۔ ذرا بلند ہوئے تو رک کر نیچے دیکھا۔ تاحد نظر ہریالی بچھی ہوئی تھی۔ سبز بھی ہر قسم کا۔ میں نے ایک نظم (منظر دل کے اندر کے) میں یہ مصرعے تو بعد میں چترال میں لکھے لیکن یہ اس منظر پر بھی صادق آتے تھے؛
ہریالی کے اتنے رنگ ہیں جتنے رنگ سمندر کے
روز گجر دم اس وادی میں باغیچوں کا اک غالیچہ کھلتا ہے
کاہی سے انگوری تک کے تیز اور ہلکے رنگ لغت میں اس وادی سے پہنچے ہیں۔
دور‘ ایک دو رنگہ لکیر کی طرح سفید اور سبز دریائے سوات ایک من موجی مسافر کی طرح لہراتا جاتا تھا۔ دریا پار قدرے چھدرے پہاڑ تھے جن میں زرد کھردری چٹانیں سرکشی سے بلند تھیں۔ پگڈنڈی پرکبھی کبھی کوئی لکڑہارا لکڑیوں کا گٹھر پیٹھ پر سنبھالے اترتا دکھائی دیتا تھا یا کوئی بکر وال لمبے بالوں والے چھوٹے چھوٹے بکروں کا اپنا ریوڑ لیے پاس سے گزرتا تھا۔ لیکن مسائل جلد ہی شروع ہوگئے۔ دھوپ تیز تھی‘ پیاس لگنے لگی اور ہمارے تصور میں بہتے چشمے کہیں دور دور نظر نہیں آتے تھے۔ بحرین سے نظر آنے والی دلگن چوٹی اب کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ کمری پِٹھو ہر موڑ پر ایک دو کلو مزید وزنی ہونے لگے۔ نیم ابلے انڈوں کے پھِسنے اور پچکنے کے بعد ہماری بھوک کی زردی بھی بہہ گئی تھی۔ ایک بڑا مسئلہ اس بھاری تربوز کا تھا جو میری ہی تجویز پر خریدا گیا تھا؛ چنانچہ اب اس کا بوجھ میری ہی ذمہ داری تھا۔ میرا دل چاہنے لگا کہ اپنے یا کسی کے سر پر یہ تربوز مار کر دونوں پھوڑ دوں۔ کئی گھنٹے ایسے ہی چلے۔ ایک جگہ پانی ملا تو سائے میں ٹھہرے۔ کچھ کھایا پیا۔ معلوم ہوا کہ چوٹی تک ابھی کم از کم دو تین گھنٹے کا راستہ ہے۔ اندازہ کیجئے اس وقت جب سورج ڈھلان اتر رہا تھا‘ ابھی ہمیں تین گھنٹے چڑھائی کرنی تھی۔ اب ہم نے عقل مندی کے دو کام کیے۔ ایک تو یہ کہ تربوز ایک دیہاتی لڑکے کو زبردستی عطا کردیا جو اسے لینے سے صاف انکاری تھا۔ دوسرا یہ کہ طے کیا کہ اندھیر ے میں سفر ناممکن ہوگا‘ اس لیے واپسی کر لی جائے۔ دانائی کے ان دونوں کاموں نے ہمیں خاصا ہلکا پھلکا کردیا۔ پہاڑ اترتے اور ہوٹل پہنچتے اندھیرا ہو چکا تھا۔ ہم نے بہرحال سب کو یہی تاثر دیا کہ ہم چوٹی سر کرکے آئے ہیں۔ اس رات تھکن سے چور نیند آئی اور یہ ضروری بھی تھا کیوں کہ اگلے دن ہم تینوں کو کالام‘ اتروڑ‘ اشو اور گبرال جانا تھا۔
کالام کے لیے ویگن کی اگلی نشست پر بیٹھے‘ دریا کنارے چلتے وہ مبہوت کن خوب صورتی دیکھنے کو ملی جو چار دہائیوں کے بعد بھی آنکھوں سے نکل نہیں سکی۔ سڑک چھوٹی لیکن پختہ تھی۔ ہر موڑ پر دریا اس طرح اپنے رنگ اور روپ بدلتا تھا جیسے ایک ہی حسینہ باری باری مختلف لباسوں میں جلوہ آرا ہورہی ہے۔ چنار اور چیڑ کے لمبے اونچے درخت‘ شفاف دریا کا کبھی سڑک کی سطح پر اور کبھی کافی گہرائی میں اٹھلاتے چلنا‘ ہوا کا بتدریج خنک سے سرد تر ہوتے جانا‘ دل میں بسا ہوا ہے۔ کالام کا راستہ بھی اب فطرت سے قریب نہیں رہا اور خود کالام تو اب ایک گلی کا نام ہے جس میں دریا کی جھلک دکھائی دینا بھی مشکل ہے۔ اس وقت سیاحت بنیادی ذریعۂ معاش نہیں تھا۔ اس کالام سے اب کوئی نسبت ہی نہیں۔ تب کے چھوٹے اور سادہ کالام میں منکیال اور فلک سیر کے برف پوش پہاڑ ہر طرف سے نظر آتے تھے۔ اگر آپ اس بڑی سطح مرتفع پر چلے جائیں تو اور بھی حسین اور قریب۔ کالام کا گھنا اور بلند قامت جنگل بھی یاد ہے اور وہ تنہا‘ نوجوان‘ خوش شکل‘ گم سم گڈریا بھی جس نے موتیوں کی مالائیں پہنی ہوئی تھیں۔ برسوں بعد جب میں نے خبر پڑھی کہ کالام کے جنگلوں میں ایک گڈریے کو کئی من وزنی قدیم سونے کا ہار ملا ہے تو میرے ذہن میں وہی شکل گھومنے لگی۔ کالام سے آگے اشو اور اتروڑ کا راستہ حسین تر تھا۔ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے مردان کے ایک صاحب نے بتایا کہ اتروڑ میں آلو کے بہت کھیت ہیں اور یہاں بہترین فصل ملتی ہے۔ آخری منزل گبرال تھی۔ یہاں ایک پہاڑ وادیٔ سوات بند کر دیتا ہے۔ میں گبرال اس کے بعد کبھی نہیں جا سکا لیکن جب جی چاہے میں وہ فلم چلا کر وہاں پہنچ جاتا ہوں۔ بلند پہاڑوں میں گھری چھوٹی سی ایک حسین وادی۔ وادی میں ہر طرف سبزے کے قالین جو چنار کے بلند درختوں کے سائے میں بچھے تھے۔ ان قالینی ٹکڑوں کے بیچ انہی کی سطح پر پانی کے چھوٹے چھوٹے تیز دھارے جو ہر طرف گھومتے اور مڑتے تھے۔ ان دھاروں پر ادھر ادھر پیڑوں سے پل بنے ہوئے۔ کسی تعمیر یا گھر کا نام و نشان نہیں۔ انسانی شکل خال خال۔ ٹھنڈک پانی سے اٹھتی‘ پہاڑوں سے اترتی اور سبزے سے پھوٹتی تھی۔ ٹھنڈی ہوا درختوں کی شاخوں سے سرگوشیاں کرتی‘ انہیں ہلکورے دیتی جاتی تھی۔ بھیگے لباس سے سرد جھونکا گزرتا تو بدن جھرجھری لیتا تھا اور ہوا چھیڑتی اور کھلکھلاتی تھی۔ میں درختوں کے ایک پل پر کھڑا ہوں۔ پل کے نیچے سے تیز پانی گزر رہا ہے۔ میرے سامنے اترتی شام کے ساتھ دھند شمالی پہاڑ کی گھاٹی سے نمودار ہوکر پھیلتی اور خواب کی طرح لپیٹ میں لیتی ہے۔ نیلگوں دھند میں جابجا شگاف ہیں اور انہی شگافوں میں ایک سے مجھے میرے ساتھی واپسی کا اشارہ کر رہے ہیں۔ ہماری واپسی کا وقت ہو چکا ہے۔
میں آج بھی درختوں کے اس پل پر کھڑا ہوں۔ اسی خوابناک کیفیت میں۔ لیکن یہ بھی جانتا ہوں کہ پل کے نیچے بہت پانی بہہ چکا ہے۔ (ختم)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved