ہوا میں تیر چلانا کیا ہوتا ہے؟ سوچے سمجھے بغیر کی جانے والی ہر سعی کو ہوا میں تیر چلانا کہتے ہیں۔ ذرا عوامی بولی میں کہیے تو تُکّا لگانا۔ کوئی بھی انسان ہوا میں تیر کب چلاتا ہے؟ صرف اُس وقت جب وہ یا تو سنجیدہ نہیں ہوتا یا پھر معقول تیاری کے بغیر کوشش کرتا ہے اور سوچ یہ ہوتی ہے کہ کام ہو جائے تو ٹھیک‘ ورنہ جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ کیا زندگی اِس طور گزاری جاسکتی ہے؟ آپ سوچیں گے اِس طور تو کسی طور نہیں! بالکل ٹھیک۔ زندگی اتنی بڑی نعمت ہے کہ اِسے ہوا میں تیر چلانے جیسے معاملات کی نذر نہیں کیا جاسکتا۔ زندگی قدم قدم پر ہم سے سنجیدگی اور دانائی کا تقاضا کرتی ہے۔ دانائی سے کام نہ لیا جائے تو بات بات پر زندگی کا تیا پانچا ہونے لگے۔ بہت سوں کی زندگی میں ایسا ہوتا ہی ہے کیونکہ وہ معاملات کو کماحقہٗ سمجھنے اور پھر غور و فکر کے ذریعے موزوں لائحۂ عمل ترتیب دینے پر متوجہ نہیں ہوتے۔ اُن کی فکری ساخت میں یہ بات کیل کی طرح گڑ چکی ہوتی ہے کہ زندگی کسی نہ کسی طور گزر ہی جاتی ہے تو پھر سوچنے اور منصوبہ سازی کے مرحلے سے گزرنے کی ضرورت کیا ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کبھی کبھی کوئی کامیاب ہو کر بھی ناکام رہتا ہے؟ کامیاب ہوتے ہوئے بھی ناکام؟ یہ تو بہت عجیب بات ہوئی۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی کامیاب بھی ہو جائے اور ناکامی سے بھی نہ بچ سکے؟ یہ بات بہت عجیب لگتی ہے مگر معاملہ یہ ہے کہ بہت سوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ وہ بہت کچھ چاہتے ہیں اور بہت کچھ ملتا بھی ہے مگر پھر بھی اُنہیں ایسا محسوس ہوتا رہتا ہے کہ کچھ خاص ملا ہی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب انسان ذہن سے کام لینے سے گریز کرے، معقولیت کیساتھ عمل کی راہ پر گامزن نہ ہو اور معاملات کو انتہائی بے ذہنی اور بے دلی کے ساتھ نمٹانے پر یقین رکھے تو (محض حالات کی مہربانی یا اتفاق سے ہاتھ آجانے والی) اچھی خاصی کامیابی بھی ناکامی میں تبدیل ہو رہتی ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی نے کامیابی کے لیے تیاری بھی کی ہوتی ہے اور محنت بھی بہت کی ہوتی ہے۔ ایسے میں حاصل ہونے والی کامیابی اُس کے لیے راحت کا سامان کرے‘ یہ لازم ہے مگر ایسا ہوتا نہیں کیونکہ وہ اپنی کامیابی کو قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے!
اب پھر ذہن کے پردے پر سوال ابھر سکتا ہے کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ کسی کو تیاری اور محنت کے نتیجے میں کامیابی ملے اور وہ اُسے قبول کرنے سے انکاری ہو۔ یہ دنیا ہے اور یہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اور ہو کیا سکتا ہے، ہوتا ہی ہے۔ ہر معاملہ نسبتی ہے‘ یہی تو نظریۂ اضافت ہے۔ ہم کسی بھی معاملے کو مجرد حیثیت میں نہیں دیکھ سکتے۔ ایسی صورت میں وہ سمجھا ہی نہیں جاسکتا۔ ہر معاملہ اپنے تناظر میں دیکھا جاتا ہے، نسبت سے جانچا، پرکھا اور تولا جاتا ہے۔ کوئی بھی انسان اپنی کامیابی سے کس حد تک مستفید ہوسکتا ہے اِس کا مدار بنیادی طور پر اس بات سے ہے کہ اُس کے خواب کتنے بڑے ہیں، اہداف کتنے حقیقت پسندانہ ہیں۔ زندگی کے ہر معاملے میں حقیقت بنیادی قدر کا درجہ رکھتی ہے۔ معقول رویہ حقیقت پسندی کا مظہر ہوتا ہے۔
حقیقت پسندی کیا ہے؟ صرف یہ کہ انسان اپنے تمام اوصاف سے بخوبی واقف ہو، اپنی سکت جانتا ہو اور اپنے اہداف کی اہمیت سے بھی غافل نہ ہو۔ جب کوئی اپنے آپ کو اچھی طرح جانتا اور سمجھتا ہے تب کچھ بھی ایسا نہیں کرتا جو پورے وجود کو خواہ مخواہ آزمائش میں ڈالے۔ اہداف کا تعین حقیقت پسندی کے دائرے میں رہتے ہوئے کرنا ہوتا ہے۔ ہر وہ انسان اپنا بھرپور دشمن ہے جو سوچے سمجھے بغیر بہت بلند اہداف مقرر کرتا ہے، اپنے آپ کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور کامیاب ہونے پر بھی مطمئن نہیں ہو پاتا اور دل و دماغ میں ہر وقت یہی بات کیل کی طرح گڑی رہتی ہے کہ زندگی نے کچھ خاص دیا ہی نہیں۔
کسی بھی انسان کے لیے کامیابی اُس وقت ناکامی بننے میں دیر نہیں لگاتی جب اہداف نامعقول ہوں۔ معقولیت کی حد سے بہت دور رہتے ہوئے متعین کیے جانے والے اہداف انسان کو کسی جواز کے بغیر بہت زیادہ سعی پر مجبور کرتے ہیں اور ایسے میں کامیابی ملنے پر بھی وہ لطف محسوس نہیں ہوتا جو ہونا چاہیے۔ آپ نے ایسے بہت سے لوگ دیکھے ہوں گے جو کسی بھی معاملے میں ایسے اہداف متعین کرتے ہیں جن کی پشت پر کوئی منطق نہیں ہوتی۔ کسی بھی شعبے میں کامیابی کے لیے متعین کیا جانے والا ہدف معقول ہونا چاہیے کیونکہ ایسا نہ ہو تو انسان ڈھنگ سے کچھ بھی نہیں کر پاتا۔
جیمز کیمرون نے بہت پتے کی بات کہی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ''اگر آپ مضحکہ خیز حد تک بلند اہداف متعین کریں گے تو ناکام ہونے کی صورت میں عجیب ہی صورتِ حال کا سامنا ہوگا یعنی ہوگا یہ کہ آپ کی ناکامی بہت سوں کی کامیابی پر سے گزر جائے گی!‘‘۔ آپ کی ناکامی کا کسی کی کامیابی پر سے گزر جانا؟ بات کچھ یوں ہے کہ انسان اگر طے کرلے کہ اُسے ایک خاص حد تک کامیاب ہونا ہی چاہیے تو اُس سے تھوڑی سی کم کامیابی ملے تو مزہ نہیں آتا۔ یوں مزہ نہ آنے کا کوئی عقلی جواز نہیں ہوتا۔ یہ محض جذباتیت کا معاملہ ہے۔ کسی بھی انسان کو کتنی کامیابی ملنی چاہیے اِس کا مدار اصلاً اس بات پر ہے کہ اُس میں صلاحیت و مہارت کتنی ہے اور کتنی محنت کرسکتا ہے۔ مزید بہت کچھ بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ جس شعبے میں کامیابی کا ہدف مقرر کیا گیا ہے اُس میں آگے بڑھنے کی گنجائش ہے بھی یا نہیں۔ سوال محض صلاحیت و سکت کا نہیں، متعلقہ شعبے کے حالات اور امکانات کا بھی تو ہے۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ اپنے شعبے کے معاملات کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسے اہداف متعین کرتے ہیں جن کی پشت پر کوئی منطق نہیں ہوتی۔ ایسے اہداف کے لیے کی جانے والی محنت وہ لطف نہیں دے پاتی جو ملنا چاہیے۔ ہم میں سے بیشتر کا یہ حال ہے کہ زندگی بھر محنت کرتے ہیں اور بہت کچھ پاتے ہیں مگر پھر بھی دل سکون نہیں پاتا، ذہن ٹھہرتا نہیں۔ جو کچھ مل گیا ہے اُنہیں دیکھنے اور مطمئن ہونے کے بجائے آنکھیں وہ سب کچھ ڈھونڈتی رہتی ہیں جو مل نہیں پایا۔ ایسے میں ذہنی سکون بھی ناپید رہتا ہے۔
نئی نسل جب عملی زندگی میں قدم رکھتی ہے تو اُس کی آنکھوں میں بہت سے خواب ہوتے ہیں۔ چند خواب غیر حقیقت پسندانہ بھی ہوتے ہیں۔ بہت کچھ بننے کی خواہش فطری امر ہے مگر یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مطلوب صلاحیت و سکت بھی ہے یا نہیں۔ اگر ہزاروں نوجوان یہ سوچ لیں کہ ملک کا صدر بننا ہے تو؟ سبھی تگڑم لڑائیں گے، دن رات ایک کردیں گے مگر ہوگا کیا؟ اِن میں سے کوئی ایک ہی ملک کا صدر بن پائے گا کیونکہ صدر تو ایک ہی ہوتا ہے اور وہ بھی پانچ سال کے لیے۔ جو صدر بن جائے گا وہ تو دنیا کو ہنس ہنس کر، بھرپور اعتماد کے ساتھ بتائے گا کہ اُسے اپنے وجود پر پورا یقین تھا کہ ایک دن ملک کے صدر کا منصب مل کر رہے گا اور ایسا ہی ہوا۔ اب سوال یہ ہے کہ باقی تمام امیدوار کیا بتائیں گے؟ کیا اُنہیں اندازہ نہ تھا کہ جو کچھ بھی سوچا ہے اُس میں کامیابی تو کسی ایک ہی کو ملے گی؟ اور ایسا ہی ہوا۔
اگر کوئی نوجوان کسی شعبے میں قدم رکھتے ہی سوچ لے کہ کسی کمپنی کا سربراہ بننا ہے تو؟ پھر یہ ہوگا کہ کامیابی ملتی جائے گی مگر مطمئن نہیں کر پائے گی۔ کامیابی کے نتیجے میں زندگی کا استحکام بھی دکھائی دینا چاہیے۔ جن کے خواب بڑے ہوتے ہیں وہ اپنے مطلب کی کامیابی کے حصول تک کسی بھی بات سے خوش ہوتے ہیں نہ مطمئن۔ شخصی ارتقا کے موضوعات پر لکھنے اور بولنے والے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انسان کو خواب بڑے دیکھنے چاہئیں۔ اچھی بات ہے کہ خواب بڑے ہوں مگر نامعقول نہ ہوں۔ جب انسان کسی معقول ہدف کا تعاقب کرتا ہے تب راستے میں ملنے والی چھوٹی چھوٹی کامیابیوں سے خوب لطف کشید کرتا ہے، دل و نظر کو مستحکم کرنے میں بھی کامیاب ہوتا ہے۔ ہوا میں تیر چلانے والوں کو یہ اطمینان نصیب نہیں ہو پاتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved