تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     23-06-2023

پرچم کی دُہائی

مملکتِ خداداد کو چشمِ تصور سے دیکھنے والے مصورِ پاکستان ہوں یا ان کے خواب کو تعبیر سے ہمکنار کرنے والے بانیٔ پاکستان‘ دونوں کی روحیں خلدِ بریں میں بے چین اور پریشان ہوں گی کہ یہ خطہ کن کے ہتھے چڑھ چکا ہے۔ پون صدی کا خلاصہ یہ ہے کہ قیام کے بعد تیسری دہائی شروع ہوتے ہی اقتدار کی چھینا جھپٹی میں آدھا ملک ہی گنوا ڈالا‘ اس المناک سانحے سے سبق سیکھنے کے بجائے چھینا جھپٹی کو ہی نصب العین بنا لیا۔ کوئی اقتدار پہ جھپٹ رہا ہے تو کوئی ملکی وسائل اور خزانے کو بھنبھوڑے چلا جا رہا ہے‘ کوئی قانون اور ضابطوں کو تابع کیے ہوئے ہے تو کوئی آئین اور حلف سے منحرف ہے‘ کوئی سماجی و اخلاقی قدروں پر حملہ آور ہے تو کوئی غیرتِ قومی کو تار تار کیے جا رہا ہے۔ گویا:
زمیں کے اندر آرام گاہوں میں
سونے والے مصوروں کو کہاں خبر تھی
کہ بعد ان کے تمام منظر‘ سبھی تصور
ادھورے ہوں گے
قارئین! آج قومی پرچم کی دُہائی سمیت چند منتخب خبریں کالم میں شامل کرنے جا رہا ہوں۔ ہمارے ہاں سانحات اور المیوں کو حادثہ قرار دینے کی بدعت نجانے کب سے دوام پکڑتی چلی آرہی ہے حالانکہ دلخراش واقعات ہوں یا ناخوشگوار‘ سبھی کی پرورش کرنے والے حکمران اور انتظامی فیصلہ ساز اپنی نالائقیوں اور نااہلیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے کیسے کیسے ڈھونگ اور جواز پیش کرتے چلے آرہے ہیں۔ چند روز قبل یونان میں سمندری حیات کا رزق بننے والے جیتے جاگتے سینکڑوں پاکستانیوں کی دردناک ہلاکت‘ قومی پرچم سرنگوں کرنے کے بجائے اپنا سر جھکا کر گریبانوں میں اگر جھانک لیں تو آئندہ قومی پرچم کو سرنگوں کرنے کی شاید ضرورت پیش نہ آئے۔ اب تو قومی پرچم بھی سراپا احتجاج اور یقینا دہائی دیتا ہوگا کہ تمہارے کرتوتوں اور طرزِ حکمرانی کے نتائج ہر بار مجھے ہی کیوں بھگتنا پڑتے ہیں۔ ان 75 برسوں میں مجھے تواتر سے سرنگوں کیا گیا ہے۔ مسلسل سرنگوں رہنے سے سر بھی اسی پوزیشن کا عادی ہو چکا ہے‘ وہ اٹھنا بھی چاہے تو اس پر شاید غشی طاری ہو جاتی ہے۔ تاہم سرکاری تقریبات اور قومی ایام کے دوران مجھے لہرانے اور سربلند کرنے کیلئے خاصے جتن اور سرکاری وسائل بھی استعمال کرنا پڑتے ہیں۔ اس مخصوص دورانیے میں مجھے لہراتا دیکھ کر ہرگز یہ نہ سمجھا جائے کہ میں سر بلند ہو گیا ہوں۔ کئی بار سر اٹھانے کی کوشش اس لیے نہیں کرتا کہ نجانے کب دوبارہ سرنگوں ہونے کا فرمان جاری ہو جائے‘ اسی لیے سرنگوں رہنا ہی بہتر ہے۔ جو چہرے شرمسار اور سرنگوں ہونے چاہئیں وہ اترائے اور نازاں پھرتے ہیں۔ قوم سے یکجہتی کا ڈھونگ اور پرچم سرنگوں کرنے کا اعلان کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انہیں ملک و قوم کا جتنا درد ہے اس کا اظہار وہ پرچم سرنگوں کر کے کر رہے ہیں۔
یونان میں ڈوبنے والے پاکستانیوں کا سوگ اور ناختم ہونیوالی بحث کے دوران وہ 52پاکستانی بھی گرفتار ہو چکے ہیں جن پر یورپ جانے کا جنون تاحال سوار تھا جبکہ تارکینِ وطن کی ایک اور کشتی سپین کے گہرے پانیوں میں بھی الٹ گئی جس کے نتیجے میں 34افراد سمندر میں لاپتا جبکہ 2لاشیں بازیاب ہو چکی ہیں۔ ایک طرف خلقِ خدا روزگار اور سنہرے مستقبل کیلئے جان جوکھوں میں ڈال کر غیرمحفوظ اور غیرقانونی سمندری سفر کرنے پر مجبور ہے تو دوسری طرف 100سال قبل سمندر کی اَتھاہ گہرائیوں میں غرق ٹائٹینک کا ملبہ دیکھنے کے شوقین پاکستانی تاجر اپنے لختِ جگر کیساتھ جس آبدوز پر روانہ ہوئے تھے وہ تاحال لاپتا ہے۔ امریکہ‘ کینیڈا اور فرانس کے کوسٹ گارڈز پر مشتمل ٹیموں نے 19ہزار فٹ گہرائی تک سرچ کرنیوالے آلات پہنچانے کے علاوہ 26ہزار سکوائر کلومیٹر تک سمندر بھی چھان مارا لیکن بھاری معاوضے پر حاصل کی گئی آبدوز پر سوار پائلٹ اور معاون پائلٹ سمیت پانچ افراد کا سراغ لگانے میں ناکام ہیں جبکہ آبدوز میں موجود آکسیجن بھی ختم ہو گئی ہے۔ کالم کی اشاعت تک زندگی یا موت کا فیصلہ شاید ہو چکا ہو‘ خدا کوئی معجزہ رونما کرے اور یہ شائقین زندہ سلامت بازیاب ہو جائیں۔ ایک طرف مجبوریوں کے کوہِ ہمالیہ ہیں تو دوسری طرف شوق کی کوئی قیمت اور انتہا ہی نہیں‘ بقول شاعر:
غریبِ شہر تو فاقے سے مر گیا عارفؔ
امیرِ شہر نے ہیرے سے خودکشی کر لی
کوئی روٹی سے مجبور ہے تو کسی پر ڈائٹنگ کا جنون سوار ہے‘ کسی کا ایک وقت کا پلیٹوں میں چھوڑا ہوا کھانا نجانے کتنے بھوکوں کے پیٹ کی آگ بجھا سکتا ہے‘ یہ کیسا گورکھ دھندا ہے؟ کسی کو خرچ کرنے کیلئے بہانے درکار ہیں تو کسی کیلئے آمدن کے ذرائع ناپید ہیں‘ کسی کے پالتوں کتوں اور دیگر جانوروں کی درآمدی خوراک پر اٹھنے والا خرچ کئی خاندانوں کے بجٹ سے زیادہ ہے تو کوئی کوڑے کرکٹ اور گندگی سے زرق تلاش کر رہا ہے‘ کوئی نعمتوں کے انبار کے باوجود کھانے سے قاصر ہے تو کوئی جان جوکھوں میں ڈال کر بھی کمانے میں ناکام ہے۔ دنیا کے کیسے کیسے رنگ ہیں‘ جب کسی کے پاس ضرورت سے کہیں زیادہ آنا شروع ہوتا ہے تو نجانے کتنے بنیادی ضرورتوں سے محروم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ وسائل اور مواقع کی غیر منصفانہ تقسیم اور سماجی ناانصافی غریب کو زندہ درگور اور اَمیر کو ہوشربا ترقی سے ہمکنار کر رہی ہے۔ طبقاتی تقسیم‘ تقسیم در تقسیم کا باعث ہے۔ محروم طبقہ اکثریت میں ہونے کے باوجود نسل در نسل محروم ہے جبکہ ان کی محرومیوں کے ذمہ داروں کی اگلی کئی نسلیں سنور چکی ہیں۔
جب تک طرزِ حکمرانی پرچم سرنگوں کرنے کا باعث بنتی رہے گی المیے‘ سانحات اور حادثات انڈے بچے دیتے رہیں گے۔ جن قوموں کے پرچم آئے روز سرنگوں رہتے ہیں وہاں اکثریت کیلئے زمین تنگ اور آسمان غضبناک ہی رہتا ہے۔ اقلیت پر مشتمل اشرافیہ عوام پر ٹوٹنے والے عذابوں اور قیامتوں کے بینی فشری بن کر کبھی بلواسطہ تو کبھی بلاواسطہ حکمرانی کے مزے اور وسائل کے بٹوارے کرتے چلے آئے ہیں اور اسی طرح آتے جاتے اور باریاں لگاتے رہیں گے۔ باریاں لگانے سے یاد آیا کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے قوم کو خوشخبری دی ہے کہ اچھے دن آنیوالے ہیں‘ اب خدمت کی باری میری ہے۔ سندھ میں گزشتہ 15سال سے مسلسل خدمت پہلے ہی جاری ہے جبکہ پیپلز پارٹی وفاق میں بھی 5سال خدمت کے چمتکار دِکھا چکی ہے اور آئندہ 5سال خدمت کیلئے پھر پرعزم ہے۔ سندھ کے کونے کونے میں بھٹو آج بھی زندہ ہے۔ اب وفاق کے علاوہ تختِ پنجاب کو بھی ہدف بنائے پیپلز پارٹی سیاسی داؤ پیچ اور حکمتِ عملی بنا رہی ہے۔ آنیوالے دنوں میں وفاق سے علیحدگی یا اختلافات کا بڑھتا ہوا امکان بھی آئندہ انتخابی حکمتِ عملی اور بیانیہ سازی کے حوالے سے اہم چال ہوگی‘ رہی بات اچھے دنوں کی وہ بھی ضرور آکر رہیں گے‘ جس طرح ماضی میں اچھے دنوں نے کیسے کیسوں کے دن پھیرے اور ان کی نسلیں سنواری ہیں‘ آئندہ انتخابات کے بعد بھی کئی اضافوں کیساتھ دن پھیرے اور نسلیں سنواری جاتی رہیں گی لیکن یاد رہے! اچھے دن بھی انہی حکمرانوں کے آئیں گے اور نسلیں بھی انہی کی سنورتی رہیں گی‘ عوام کے اچھے دن نہیں آئیں گے اور نسلیں سنورنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved