تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     23-06-2023

چلتے پھرتے کتب خانے

مطالعہ انسان کو بہت کچھ سکھاتا ہے۔ ہم زندگی بھر بہت کچھ دیکھتے اور سُنتے ہیں مگر جو بات پڑھنے میں ہے وہ کسی بھی اور معاملے میں نہیں۔ فی زمانہ کچھ بھی کہنا اور اُسے پھیلانا بہت آسان ہے اور لوگ وہی کام زیادہ کرتے ہیں جو آسان ہوں۔ کیمرے کے سامنے بیٹھیے، کچھ دیر بولیے اور وڈیو فائل اپنی ویب سائٹ یا کسی مفت پورٹل پر اَپ لوڈ کردیجیے۔ یہی معاملہ آڈیو فائل کا بھی ہے۔ یہ سب کچھ بہت آسان ہے۔ لکھنا بہت مشکل کام ہے۔ لکھنے کے دوران انسان کے لیے ذہن کو متحرک رکھنا لازم ہوتا ہے۔ بولنے میں ذہن کی کارفرمائی زیادہ نہیں ہوتی۔ ہم سوشل میڈیا پورٹلز پر آج جو کچھ دیکھ اور سُن رہے ہیں وہ اپنی اصل میں محض فضول ہے۔ لوگ کسی بھی معاملے میں کوئی رائے دیتے ہیں اور اُسے اَپ لوڈ کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ زیادہ سے زیادہ لچرپن دکھانے کو کامیابی کے زینے پر قدم رکھنا سمجھ لیا گیا ہے۔ عام آدمی بالکل عامیانہ باتوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتا ہے۔ وہ اِس نکتے پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ کچھ سیکھنا ہو تو مطالعہ ناگزیر ہے۔ ڈھائی‘ تین ہزار برس کی مدت میں انسانی ذہن نے جو کچھ سوچا ہے وہ کتب کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ آج ہم گھر بیٹھے، انٹرنیٹ کے ذریعے، کوئی بھی بڑی کتاب بہت آسانی سے حاصل کرلیتے ہیں۔ مطالعے کے لیے کتب کا ہونا بنیادی شرط ہے۔ یہ سہولت مل گئی ہے مگر مطالعے کی توفیق؟ یہ تو اب تک ٹیڑھی کھیر ہے۔
لوگ مطالعے سے کیوں بھاگتے ہیں؟ اِس کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ زندگی کی ہماہمی انسان کو اِتنا وقت نہیں دیتی کہ وہ ڈھنگ سے پڑھ سکے۔ خیر‘ یہ محض بہانہ ہی ہے۔ اگر کسی کو واقعی مطالعہ کرنا ہو تو وقت کسی نہ کسی طور نکل ہی آتا ہے۔ فرصت کے لمحات ہر انسان کو میسر ہوتے ہیں۔ ہاں‘ اُنہیں ڈھنگ سے بروئے کار لانے کی توفیق کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ توفیق کا معاملہ اُن کے لیے ہے جو کسی معاملے میں پورے خلوص کے ساتھ سنجیدہ ہوں۔ مطالعے سے گریز بالعموم اِس لیے کیا جاتا ہے کہ کوئی بھی کتاب پڑھتے وقت زیادہ متوجہ ہونا پڑتا ہے۔ وڈیو اور آڈیو فائلز کا مواد چونکہ قدرے پست ذہنی سطح کا ہوتا ہے اِس لیے عام آدمی اُسے سمجھنے میں زیادہ دشواری محسوس نہیں کرتا۔ کلاسک کا درجہ رکھنے والی کتابیں چونکہ بہت محنت سے لکھی جاتی ہیں اور خاصی دقیق ہوتی ہیں اس لیے اُن کا مطالعہ انسان کو تھوڑی بہت ذہنی مشقت سے بھی دوچار کرتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ عام آدمی سنجیدہ موضوعات پر مطالعے کی طرف کم ہی آتا ہے۔
مطالعہ انسان کی بصیرت کا گراف بلند کرتا ہے۔ مطالعے ہی کی مدد سے انسان ڈھنگ سے سوچنے کے قابل ہو پاتا ہے۔ ہمیں بہت سے معاملات میں کھرے اور کھوٹے کا فرق معلوم کرنا ہوتا ہے۔ مطالعہ انسان میں اس حوالے سے مہارت پیدا کرتا ہے۔ غیر معمولی مطالعہ انسان کو غیر معمولی بننے میں مدد دیتا ہے۔ ذہن کی بالیدگی اُسی وقت ممکن ہو پاتی ہے جب اعلیٰ معیار کی تحریروں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ ہر دور میں اہلِ دانش نے دنیا کو بہت کچھ دیا ہے۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ دنیا بھر کی دانش ہمارے سامنے اُسی طرح موجود ہے جس طرح دستر خوان پر مختلف ذائقوں والے پکوان دھرے ہوتے ہیں۔ ہم جو کچھ بھی پڑھنا چاہتے ہیں وہ انٹرنیٹ کی مدد سے اور آسانی سے میسر ہے۔ اگر کسی کو مطالعہ کرنے میں دشواری کا سامنا ہو تو کتب کی آڈیو فائلز بھی موجود ہیں۔ اگر کتاب ہاتھ میں لے کر پڑھنا ممکن نہ ہو تو کمپیوٹر کی سکرین پر بھی پڑھی جاسکتی ہے۔
کتب بینی انسان کو ایک ایسی دنیا میں لے جاتی ہے جس میں ہر طرف علم و حکمت کے موتی بکھرے ہوئے ہیں۔ یہ موتی چُن کر انسان اپنے شب و روز کو زیادہ بامقصد بناسکتا ہے۔ مطالعہ انسان کو زندگی کی مقصدیت کے بارے میں سوچنے اور اپنے معمولات میں معنویت پیدا کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ اعلیٰ درجے کی ہر تحریر انسان کو کسی نہ کسی حد تک جھنجھوڑتی ہے، سوچنے کی تحریک دیتی ہے، طرزِ فکر و عمل میں جدت لانے کی ترغیب دیتی ہے۔ یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوتا۔ انسان جب باقاعدگی سے کتب بینی کرتا ہے تب اُس کی سوچ میں تبدیلی رونما ہونے لگتی ہے۔ محض دو چار کتب کا مطالعہ انسان کو غیر معمولی تبدیلیوں کی طرف نہیں لے جاسکتا۔ کوئی بھی کتاب انسان کو متاثر تو کرسکتی ہے مگر اِس قدر نہیں کہ وہ بالکل بدل جائے۔ اِس کے لیے ناگزیر ہے کہ باقاعدگی سے وسیع اور وقیع مطالعہ کیا جائے۔
مطالعے کے حوالے سے ایک اہم اور قابلِ غور بات یہ ہے کہ یہ انسان کو باقی دنیا سے، ماحول سے الگ کردیتا ہے۔ جو شخص باقاعدگی سے اور اعلیٰ درجے کا مطالعہ کرتا ہے وہ اپنے قریب ترین ماحول میں اس قدر بلند ہو جاتا ہے کہ یہ بات سبھی محسوس کرنے لگتے ہیں۔ مطالعے کے ذریعے فکر کی بلندی ناگزیر ہے۔ فکر میں مثبت تبدیلی رونما ہو تو انسان بدل جاتا ہے۔ مطالعے کے ذریعے کسی کا تبدیل ہو جانا فطری امر ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اِس کے نتیجے میں وہ حقیقی تبدیلی رونما نہیں ہوتی جو ہونی چاہیے۔
اعلیٰ درجے کا مطالعہ انسان کو نئی دنیاؤں کی سیر کراتا ہے اور وہ اپنے ہی ماحول میں اچھا خاصا اجنبی ہوکر رہ جاتا ہے۔ یہ اجنبیت کبھی کبھی خرابی بھی پیدا کرتی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ مطالعے کے حوالے سے اعلیٰ ذوق رکھنے والے بہت سے افراد جو کچھ پڑھتے ہیں اُس کی بنیاد پر اُس طرح تبدیل نہیں ہوتے جس طرح ہونا چاہیے۔ مطالعے کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ انسان اپنے علم کی سطح بلند کرے، سوچنے کی تحریک پائے اور اپنی زندگی کو زیادہ بامعنی و بامقصد بنائے۔ مطالعہ بنیادی طور پر اس لیے ہوتا ہے کہ انسان محض اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے ماحول کے لیے بھی زیادہ بارآور ثابت ہو۔ اگر کسی نے مطالعہ کیا اور اُسے بروئے کار لانے سے گریز کیا تو سمجھ لیجیے اُس نے مطالعے سے کچھ بھی نہیں پایا۔ مطالعے کے ذریعے انسان اپنی شخصیت کی توسیع میں کامیاب ہوتا ہے۔ شخصیت میں توسیع محض اس لیے ہوتی ہے کہ لوگ مستفید ہوں۔ اگر کسی نے اپنے مطالعے کے نتائج سے کسی کو مستفید نہ کیا تو پڑھنا نہ پڑھنا برابر ہوا۔ آپ نے بیک شیلف تو دیکھے ہوں گے جو کتابوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ بک شیلف کتابیں رکھنے کے لیے ہوتے ہیں۔ اُن کتابوں کا حامل ہونے کی بنیاد پر بک شیلف کو عالم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کوئی بھی بک شیلف کبھی کسی کو کچھ نہیں بتاتا۔ اُس کا مقصدِ تخلیق یہ ہے ہی نہیں۔ کچھ بتانا اور سکھانا تو اُسے ہے جو مطالعے کے ذریعے اپنے ذہن کو وسعت سے ہم کنار کرنے میں کامیاب ہو۔
جو لوگ بھرپور مطالعہ کرتے ہیں مگر اپنے مطالعے کے نتائج کو اپنی ذات تک محدود رکھتے ہیں، کسی سے کسی بھی موضوع پر کھل کر گفتگو یا بحث نہیں کرتے اور کسی کو کچھ سکھانے کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہوتے وہ بھی تو بک شیلف ہی ہوتے ہیں! بک شیلف میں رکھی ہوئی کتاب خود کچھ نہیں کہتی۔ بک شیلف بھی کچھ نہیں کہتا۔ اس حوالے سے فیصلہ کن کردار انسان کو ادا کرنا ہوتا ہے۔ اگر کسی نے ہزاروں کتابیں پڑھ رکھی ہوں اور اُن کے حوالے سے کبھی کچھ لکھا ہو نہ کسی سے جامع اور سیر حاصل بحث کی ہو تو ایسے انسان کو ہم چلتا پھرتا کتب خانہ ہی کہہ سکتے ہیں۔ آپ نے اب تک ایسے بہت سے چلتے پھرتے کتب خانے دیکھے ہوں گے جو یومیہ بنیاد پر یعنی باقاعدگی سے مطالعہ کرتے ہیں مگر جو کچھ پڑھتے ہیں اُسے اپنی ذات تک محدود رکھتے ہیں۔ کتب بک شیلف میں رکھی ہوں یا کسی کے ذہن میں‘ کسی کو کچھ نہیں دے سکتیں اگر وہ اُنہیں بروئے کار لانے کے لیے سنجیدہ نہ ہو۔
نئی نسل کو ایک طرف تو مطالعے کی تحریک دینے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی سمجھانا ہے کہ جو کچھ بھی پڑھا جائے وہ اپنے ذہن یا ذات تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اُس کے ثمرات سے دوسروں کو بھی مستفید ہونے کا موقع دیا جائے۔ اعلیٰ درجے کی کتب کا مطالعہ حقیقی معنوں میں اُسی وقت کارگر ثابت ہوتا ہے جب اِس کی مدد سے مثبت تبدیلیوں کے لیے بھرپور سنجیدگی کے ساتھ کوشاں رہا جائے، جو کچھ پایا جائے وہ اوروں تک پہنچایا جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved