حضور، آپ جو اونچے کلچر والے ٹھہرے، اہلِ زبان، اہلِ نظر، اہلِ ذوق، آپ کی سوچ ہم سے زیادہ تھی۔ وہ غبار جس نے بعد میں بہت زور پکڑا وہ آپ کے ذہنوں میں اٹھا تھا۔ہمارا تعلق اُس سے بنا تو واجبی سا تھا، نعرے آپ کے تھے راہ نمائی بھی آپ فرما رہے تھے، ہم تو ویسے ہی اُن نعروں کے پیچھے لگ گئے بغیر پوری طرح سمجھے کہ یہ سارا ماجرا کیا ہے اور اس کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ جب اُس غبارکو اپنے نقطۂ عروج پر پہنچے پچھترسال ہوچکے ہیں تو نا کامیاب تجربے کو دیکھ کر رونا بھی آپ اہلِ نظر دانشوروں کا سب سے زیادہ ہے۔ اونچے کلچر کے ناتے، نظم آپ کی ہم سے آگے، مرثیہ ہم سے آگے اور رونا دھونا بھی ہم سے زیادہ مؤثر اور دل گداز۔لہٰذا ہم سادہ لوحوں کو تھوڑی سی حیرانی ہوتی ہے کہ آپ کی تلملاتی طبیعت نہ وہاں کے حالات سے خوش تھی نہ یہاں کے حالات سے راضی ہے۔
آپ وہاں سے ہجرت کرکے آئے اور ہجرت کرنے والوں کا ایک مسئلہ ہوتا ہے، وہ پرانی یادوں کے اسیر رہتے ہیں۔جہاں سے آئے ہوتے ہیں وہاں کی یادیں اُنہیں ستاتی ہیں، وقتِ ہجر کبھی بھولتا نہیں، لہٰذا طبیعت میں ایک بے چینی رہتی ہے۔ جہاں سے آئے اُس کی یاد نہ گئی اور جہاں پہ آئے اُسے اُس طرح سے اپنا نہ سکے۔ یہ بھی ہوا کہ چونکہ آپ کی سوچ ہم سے آگے کی تھی اور چونکہ ہجر کی سند آپ کے ہاتھوں میں تھی تو آپ کے افکار ہم پر حاوی رہے۔ہمیں کسی سے خاص بیر نہ تھا، صدیوں سے مختلف الخیال مخلوق کے ساتھ ہم جی رہے تھے اور ایسے جینے کے اسلو ب بھی سیکھ چکے تھے۔ہجر البتہ ایک بھاری تجربہ ٹھہرتا ہے اور ہجر کا جواز بھی تب ہی بنتا ہے جب رفاقتوں اور رقابتوں کے درمیان ایک لکیر کھینچی جائے۔ ہجر والے اپنی یادیں ساتھ لاتے ہیں اورچونکہ اس سارے غبار کے فکری سردار آپ تھے تو آپ کی سوچ ہماری سوچ بن گئی۔آپ کی رقابتیں‘ چاہے اُن کا تعلق حقیقت سے تھا یا افسانوں سے‘ ہماری رقابتیں ہو گئیں۔آپ کے نعرے ہمارے دلوں میں بیٹھ گئے۔
مار ہم دو جگہوں پر کھا گئے، آپ بھی اور ہم بھی۔ اول‘ یہ پوری طرح بیان نہ کر پائے کہ سارے غبار اور جھمیلے کا مقصد کیا ہے۔ تاریخِ ہندوستان اور تاریخِ اسلام کا یکطرفہ مطالعہ کیا، لیکن بیان میں پھر بھی وہ تاثیر پیدا نہ ہوسکی جو ہونی چاہئے تھی۔عقیدے میں کوئی کمی نہ تھی لیکن بیان جو مرتب ہوئے منطق کی کچھ کمی اُن میں ضرور محسوس ہوتی۔دوم، ایک کھٹکتا ہوا مسئلہ یہ رہا کہ بہت سے تو سفرِ ہجرت میں شامل ہوئے لیکن آپ میں سے ایک پوری آبادی دیارِغیر میں پیچھے رہ گئی۔یعنی سعادتِ ہجرت سے ہمارے زیادہ تر ہم خیال محروم رہے۔اس کا لازمی مطلب یہ تھا کہ کسی نہ کسی لحاظ سے مرتب کردہ فلسفہ نامکمل تھا۔اگر ہجرت اتنی ہی ضروری تھی تو سب کیلئے ہونی چاہئے تھی۔بہت سے اکابرینِ ملت نے سامان باندھا اور یہاں آ گئے۔ یہاں جائیدادیں مل گئیں، نوکریاں مل گئیں، نیا تجربہ جو شروع ہوا اُس کے نظریاتی ٹھیکیدار بھی انہوں نے ہی بننا تھا اور وہ بن گئے۔لیکن ایک پوری آبادی پیچھے رہ گئی،قیادت سے محروم ہو گئی، راستہ دکھانے والا کوئی نہ رہاکیونکہ بیشتر نظریاتی زعما یہاں تشریف لا چکے تھے۔اب ہم روتے ہیں کہ ہمارے ہم خیالوںکا حال وہاں اچھا نہیں‘ یہ بھول کر کہ وہاں ہم خیالوں کی حالت اچھی نہیں تو اِس بے سروسامانی میں ہم سب کا حصہ بنتا ہے۔
بہرحال نظریاتی اور منطقی کمزوریاں کچھ معنی نہ رکھتیں اگر جو قلعۂ نظریات بنانے چلے تھے‘ہر لحاظ سے اور ہرشعبے میں کامیاب ہوتا۔ روحانیت ہمارا مسئلہ نہ تھا، اُس میں تو ہم خودکفیل تھے۔مسئلہ تھا مادی اور سائنسی ترقی کا تھا۔ ترجیحات میں ہم کچھ غلطی کرگئے۔ روحانیت میں خودکفیل تھے لیکن اُسی پر زور دیتے رہے۔مادی ترقی میں ہم اتنے کامیاب نہ رہے اور پھر ایک نئے ملک بنانے کے لوازمات ہم صحیح طرح پورا نہ کرسکے۔ جو نیا گلستان بنانے جا رہے تھے اُس میں مختلف النسل اور مختلف السوچ لوگ تھے۔لیکن ہم نظریات کے ایک ہی ڈنڈے سے اُنہیں ہانکتے رہے۔اس سے سیاسی مسائل پیدا ہوئے، احساسِ وحدت پیدا نہ ہوسکا۔ہم خواہ مخواہ کی داخلی و اندرونی لڑائیوں میں پڑتے رہے۔وہ بھی اتنے پیچیدہ مسائل نہ بنتے اگر مادی ترقی کے حوالے سے ہم بطورِ قوم اپنا مقام پیدا کرسکتے۔لیکن اس میں ہم بُری طرح ناکام رہے۔جو داستانِ ترقی ہونی چاہئے تھی اُسے داستانِ عبرت کا نام دیا جائے تو حقیقت سے زیادہ قریب ہوگا۔اور جو آج کے حالات ہیں جہاں شکست و ریخت ہر اطراف نظر آتی ہے یہ ہمارے پچھتر سالہ تجربے کا منطقی نتیجہ لگتا ہے۔
پھر آپ ہی بتائیے حضور کہ سارے ماجرے کا حل کیا ہے؟ہمیں تو جو کہا گیا ہم نے کیا۔ کون سے بتائے گئے نعرے ہم نے نہ لگائے؟ مغربی طاقتوں کی گود میں ہم گئے، افغانستان کے نام پر ایک کیا کئی جہاد ہم نے کیے۔دفاعِ وطن کیلئے سب کچھ قربان کر دیا لیکن پھر بھی 1971ء کا المیہ دیکھنا پڑا۔آدھے ہم وطن ہم سے کٹ گئے اور ہم نے سوچا کہ باقی ماندہ وطن نئی بنیادوں پر استوار ہوگا۔لیکن کوئی سورما آیا تو ہمیں ازسرِ نو مسلمان بنانے میں لگ گیا۔وہ سورما گیا تو اپنے ایسے سیاسی جانشین پیچھے چھوڑ گیا جنہوں نے ملکی سیاست کو ایک کاروبار بنا ڈالا۔ کچھ تو یہ نئی سیاست اور کچھ افغانستان کی نظریاتی جنگیں اور ان دونوں ارتقائی عوامل نے ہماری قومی شکل بگاڑ ڈالی۔اور آج تو یوں لگتا ہے کہ یہ جو گلستان آپ اور ہم مل کر بنانے نکلے تھے اس کا مقصد اسے پراپرٹی ڈیلروں کے ہاتھوں فروخت کر دینا ہے۔مولانا عبدالکلام آزاد نے ہمیں کچھ سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ دہلی کی شاہجاں مسجد کے منبر سے چیخ چیخ کر اُنہوں نے پوچھا تھا کہ کیا کررہے ہو‘کہاں جا رہے ہو۔ہزار سالہ تاریخ کی نشانیوں کا کیا بنے گا؟لیکن تب جنونِ سحر کی امیدوں میں ہم گم تھے۔وہ طلوعِ صبح کا انتظار ایسا لمبا رہا کہ اب تو یاد بھی نہیں کہ کون سے جذبات تھے جن سے ہم اتنے مغلوب تھے۔
جناب انور مقصود کی باتوں پر کیسے تالیاں بجتی ہیں، اُن کے جملوں پر لوگ جھوم اٹھتے ہیں۔میں اُن کی باتیں کبھی سنوں تو جی کرتا ہے کہ پستول اٹھا کر کہیں فائر کردوں۔ان سے کوئی پوچھے تو سہی کہ حضور آپ یا آپ جیسوں کی کاوشوں سے ہی یہ سارا جھمیلا مرتب ہوا۔ اب کس بات کا رونا؟ تب کچھ خیال نہ تھا کہ حالِ گلستان کیا ہو سکتا ہے؟بڑا جی چاہتا ہے کبھی جناب افتخار عارف کو گھیروں اور اُن سے اس ساری داستان کے بارے میں کچھ سوال پوچھوں۔سابق فارن سیکرٹری شمشاد احمد خاں بھی بڑے رنجیدہ دکھائی دیتے ہیں۔ایک دو بار اُن سے پوچھا کہ ملیر کوٹلہ سے اُٹھ کر آئے تو کچھ خیال تھا کہ آگے کیا ہوسکتا ہے؟تسلی بخش جواب نہیں دے پائے۔
ایک افسوس رہے گا، اس بارے اپنے مرحوم دوست جناب اجلال حیدرزیدی سے کچھ زیادہ نہ پوچھ سکا۔بڑے محب وطن تھے، اس گلستان سے بہت پیار کرتے تھے لیکن اچھا ہوا کہ آج کل کے حالات نہ دیکھ پائے۔آج ہم میں ہوتے تو میں بہت کچھ اُن سے پوچھتا۔ اپنے دفاع میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ ہم جیسے گمراہی کے راستوں پر چلنے والے ہیں۔شاید ہماری سمجھ ہی اتنی نہیں ہے۔لیکن جتنی بھی سمجھ ہے جب دیکھتے ہیں کہ یہ گلستان کیسے کیسوں کے ہاتھ چڑھ گیا ہے تومت پوچھئے دل پہ کیا گزرتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved