بعض اوقات قربانی کے دنوں میں سیلاب؍ زلزلہ یا کوئی اور ناگہانی آفت رونما ہو جاتی ہے، ایسی صورتِ حال میں بعض لبرل حضرات یہ کہتے سنائی دیتے ہیں: ''ہمارے ملک میں سیلاب؍ زلزلے یا آفت کی وجہ سے جان و مال اور املاک کا بڑا نقصان ہوا ہے، لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، بڑی تعداد میں مویشی ہلاک ہو گئے ہیں، بعض لوگ نانِ شبینہ کے محتاج ہیں، ایسے حالات میں ہمیں قربانی کا سلسلہ موقوف کر کے یہ رقم مصیبت زدہ لوگوں پر خرچ کرنی چاہیے، اس کا اجر زیادہ ملے گا اور وقت کی ضرورت بھی ہے‘‘۔
اسی مفہوم پر مشتمل ایک صاحب نے ہمیں خط لکھا: ''ایک ادارے کا سربراہ یہ کہتا ہے کہ ہمارے ملک میں لوگ بدترین سیلاب کی زَد میں ہیں، لوگوں کے گھر، مال، مویشی اور جانیں تباہ ہو رہی ہیں، لہٰذا 10 ذوالحجہ کو سنّتِ ابراہیمی کے طور پر جو قربانی کی جاتی ہے، اس سال نہ کی جائے اور وہ رقم سیلاب زدگان کو بطور امداد دی جائے تاکہ اُن کی مشکلات میں کمی ہو سکے، وہ یہ بھی کہتا ہے کہ علمائے کرام نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ لوگ حج و عمرہ کے بجائے یہ رقم سیلاب زدگان پر خرچ کریں تو انہیں کئی حج اور عمروں کا ثواب ملے گا‘‘۔ بظاہر اس رائے میں بڑی اپیل ہے، آپ کیا کہتے ہیں۔
پس اس سلسلے میں عرض ہے: بظاہر اس موقف میں بڑی جذباتی اپیل ہے، مصیبت زدگان کی مدد کرنا شریعت کو بھی مطلوب ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''وہ (دشوار گزار) گھاٹی میں کیوں نہ داخل ہوا اور تُو کیا جانے کہ یہ گھاٹی کیا ہے، (قرض یا غلامی سے) گردن چھڑانا یابھوک کے دن (ضرورت مند کو) کھانا کھلانا، ایسے یتیم کو‘ جو رشتے دار بھی ہو یا کسی خاک نشین مسکین کو (کھانا کھلانا)‘‘ (البلد: 11 تا 16)۔ اس کی ترغیب ہمیشہ اور ہر وقت دی جانی چاہیے اور یہ مسلمانوں کا شِعار ہونا چاہیے۔ انصارِ مدینہ نے تو مواخات کے موقع پر اپنا گھر بار اور مال و متاع تقسیم کر کے اپنے مہاجر بھائی کو دیدیا تھا، جو مکۂ مکرمہ سے خالی ہاتھ آئے تھے۔
لیکن ایک خیر کے لیے کسی عبادت کو موقوف کرنا یہ مقاصدِ شرعیہ میں سے نہیں ہے، مالی صدقہ قربانی کا بدل ہے اور نہ دین کے فرائض و واجبات کو ساقط کرنے کا کسی کو اختیار ہے۔ وہ عبادات جو شریعت میں مقرر اور مشروع ہیں، وہ بجائے خود مقصود ہیں اور ان کو شارع کے حکم کے مطابق بجا لانا ضروری ہے۔ قربانی ہر صاحبِ نصاب بالغ مرد و عورت پر واجب ہے۔ قربانی کو واجب قرار دینے کے سلسلے میں ہماری دلیل اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے‘‘ (الکوثر: 2)، لہٰذا قربانی لازم ہے اور مالی صدقہ اس کا مُتبادل نہیں ہو سکتا۔ معروف قربانی کو عربی میں''اُضْحِیَہ‘‘ اور ''ضَحِیَّۃ‘‘ کہتے ہیں، اس کی جمع بالترتیب ''اَضَاحِیْ‘‘ اور ''ضَحَایَا‘‘ ہے۔ قربانی گوشت پوست کے حصول کا نام نہیں ہے،بلکہ اس کی حقیقت اورروح ایامِ قربانی میں عبادت اور تقرُّبِ الٰہی کی نیت سے شریعت کی مقررہ شرائط کے مطابق حلال جانور ذبح کرنے کا نام ہے۔ حدیث پاک میں ہے: ''حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''قربانی کے دن بنی آدم کا کوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں (قربانی کی نیت سے) جانور کا خون بہانے (اِِھْرَاقُ الدَّم یا اِرَاقۃُ الدّم) سے زیادہ محبوب نہیں ہے اور یہ (قربانی کا جانور) قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں سمیت (یعنی سالم وجود کے ساتھ) آئے گا اور (قربانی کے جانور کا خون) یقینا زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں مرتبۂ قبولیت کو پا لیتا ہے، سو (اے اہلِ ایمان!) تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو‘‘ (سُنن ترمذی: 1493)۔
اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ قربانی کی حقیقت اور اصل عبادت ''اِھراقُ الدَّم‘‘ یا ''اِرَاقۃُ الدَّم‘‘ ہے۔ اس کے معنی ہیں: خون بہانا، یعنی شرعی شرائط کے مطابق ذبح کرنا، جو خون بہانے کا سبب ہے‘‘۔ اس حکمت کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بیان فرمایا: ''اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہرگز ان (قربانی کے جانوروں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ اُن کا خون، بلکہ (فعلِ قربانی سے حاصل ہونے والا) تمہارا تقویٰ اللہ کی بارگاہ میں پہنچتا ہے‘‘ (الحج: 37)، ہاں! اپنے وطن کے مصیبت زدہ بھائیوں کی اپنی بساط کے مطابق ہر ممکن مددکرنا بھی ہمارے دین اور ایمان کا تقاضا ہے اور پوری قوم کو اس ذمہ داری سے عُہدہ برا ہونا چاہیے۔
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جو مالی استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرے، تو وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے‘‘ (ابن ماجہ: 3123)۔ صاحبِ استطاعت کے قربانی نہ کرنے پر وعید اس امر کی طرف مُشیر ہے کہ قربانی واجب ہے، کیونکہ ترکِ مستحب پر وعید نہیں آتی۔ (2) ''حضرت جندب بن سفیانؓ بیان کرتے ہیں: میں عید الاضحی کے دن رسول اللہﷺ کے ساتھ تھا، جب آپﷺ لوگوں کو نماز پڑھا کر فارغ ہوئے، آپﷺ نے ذبح کی ہوئی بکری کو دیکھا تو فرمایا: جس شخص نے نماز سے پہلے قربانی کی ہے، وہ اِس کی جگہ دوسری بکری کو ذبح کرے اور جس نے ابھی تک ذبح نہیں کیا، وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے‘‘ (صحیح مسلم: 5060)۔ اس سے معلوم ہوا کہ گوشت کا حصول اصل مقصد نہیں ہے، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایک اضافی فائدہ ہے، کیونکہ آیت و احادیث مبارکہ میں قربانی کا امر ہے اور امر وجوب کے لیے ہوتا ہے۔ جس حدیث میں رسول اللہﷺ نے قربانی کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنّت فرمایا ہے۔ (ابن ماجہ: 3127) اُس سے مراد یہ ہے کہ قربانی دین میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا جاری کردہ طریقہ ہے اور اس سے وجوب کی نفی نہیں ہوتی۔
علامہ برہان الدین علی المرغینانی لکھتے ہیں: ''امام احمد بن محمد قدوری نے کہا: ''ہر آزاد، مسلمان، مقیم، مالدار پر ایّامِ قربانی (10 تا 12 ذوالحجہ) میں اپنی طرف سے اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے قربانی کرنا واجب ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام محمد، امام زفر، امام حسن اور ایک روایت میں امام ابو یوسف رحمہم اللہ اجمعین کے نزدیک قربانی واجب ہے‘‘ (ہدایہ، جلد: 7، ص: 154)۔ ''ظاہر الروایۃ‘‘ کے مطابق نابالغ پر قربانی واجب نہیں ہے۔
علامہ علاء الدین حصکفی لکھتے ہیں: ''ہر آزاد مقیم مالدار مسلمان پر اپنی طرف سے قربانی واجب ہے، (حنفی مذہب کی) ''ظاہر الروایۃ‘‘ کے مطابق نابالغ بچے کی جانب سے قربانی واجب نہیں ہے، البتہ نابالغ کا فطرہ واجب ہے‘‘، اس کی شرح میں علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ''ظاہر الروایۃ‘‘ کے مطابق نابالغ پر قربانی واجب نہیں، بلکہ مستحب ہے، البتہ صدقۂ فطر واجب ہے، امام حسن کی روایت کے مطابق اپنی نابالغ اولاد اور یتیم پوتے پوتی کی قربانی واجب ہے، مگر فتویٰ ''ظاہر الروایۃ‘‘ پر ہے اور اگر کوئی شخص اپنی بالغ اولاد اور بیوی کی جانب سے قربانی کرے تو ان کی اجازت لے کر کرے، ایک روایت کے مطابق اگر بلااجازت بھی کر دی تو استحساناً جائز ہے‘‘ (ردالمحتار، جلد: 9، ص: 382)۔
فقہائے مالکیہ میں متقدمین قربانی کے وجوب کے قائل ہیں اور متاخرین کے نزدیک سنتِ مؤکدہ ہے، حنابلہ اور شافعیہ کے نزدیک قربانی سنتِ مؤکدہ ہے۔ شخصِ مذکور کا یہ کہنا بھی غلط ہے: ''علماء نے فتویٰ دیا ہے کہ لوگ حج و عمرہ کے بجائے یہ رقم سیلاب زدگان پر خرچ کریں تو انہیں کئی حج اور عمروں کا ثواب ملے گا‘‘۔ دراصل اُس شخص نے علماء کے موقف کو صحیح نہیں سمجھا۔ علماء کا بیان یہ تھا: ''فرض حج تو کسی طور پر بھی ساقط نہیں ہوتا، البتہ نفلی حج اور عمرے کو مؤخر کرکے یہ رقم سیلاب زَدگان پر خرچ کی جا سکتی ہے، کیونکہ یہ اہلِ پاکستان پر ایک بہت بڑی آزمائش تھی اور عمرہ اپنی اصل کے اعتبار سے ایک نفلی عبادت ہے، لیکن واجب قربانی کو ترک کیا جا سکتا ہے اور نہ اس کے وجوب کوساقط کیا جا سکتا ہے۔ البتہ مالی حیثیت والے لوگ اگر اپنے روزمرّہ کے مصارف یا تَعیُّشات میں کمی کرکے پس انداز کی ہوئی رقم سیلاب زَدگان کی مدد پر صرف کریں تو یہ اُن کی دینی اور اخلاقی ذمہ داری بھی ہے اور اعلیٰ انسانی قدر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور جو چیز لوگوں کو نفع دیتی ہے، اُسے زمین میں قرار ملتا ہے‘‘ (الرعد: 17)۔ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: ''بہترین انسان وہ ہے جس کی ذات انسانیت کے لیے زیادہ نفع رساں ہو‘‘ (الجامع الکبیر: 11760)۔ ہمیں لوگوں کو اس بات کی ترغیب دینی چاہیے کہ شادیوں کے موقع پر کئی تقریبات ہوتی ہیں، بے انتہا اسراف ہوتا ہے، طرح طرح کے کھانے ضائع ہو جاتے ہیں، پس ولیمے کو سنت تک محدود کرکے باقی تقریبات کی رقم بچا کر مصیبت زدگان کی مدد پر صَرف کی جائے، مجموعی طور پر یہ رقم قربانی کی رقوم سے بہت زیادہ ہے۔
قربانی بھی ضرورت مند انسانوں کی خدمت کا ایک ذریعہ ہے۔ مویشی پالنے والے سال بھر اِسی آس پر جانور پالتے ہیں کہ ایامِ قربانی میں اُنہیں فروخت کرکے اپنی ضروریات پوری کریں گے۔ قربانی کے گوشت سے بھی غریبوں اور ناداروں کی مدد کی جاتی ہے اور کھال بھی ناداروں کی مدد کا ایک ذریعہ ہے، نیز قربانی اسلام کا ایک شِعار ہے۔ حضرت ابراہیم و اسماعیل اور امام الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنّتِ جلیلہ ہے اور اس کی بے شمار شرعی حکمتیں اور برکات ہیں۔
ایسا شخص جو قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، وہ یکم ذو الحجہ سے قربانی کرنے تک ناخن اور بال نہ کٹوائے، اِس حکم پر عمل کرے تو بہتر ہے، نہ کرے تو مضائقہ نہیں۔ حدیثِ پاک میں ہے: ''حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے ذی الحجہ کا چاند دیکھ لیا اور وہ قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، تو جب تک قربانی نہ کر لے، بال اور ناخنوں سے کچھ نہ لے یعنی اِنہیں نہ ترشوائے‘‘ (سُنن ترمذی: 1523)۔ احادیث مبارکہ میں طہارت و نظافت کے احکام میں ناخن تراشنے، مونچھیں پست کرانے اور بغل و زیرِ ناف بال دور کرنے کے لیے جو انتہائی مدت بیان کی گئی ہے، وہ چالیس روز ہے، اِس سے زائد مدت تک چھوڑے رکھنا ممنوع و مکروہ ہے۔ حدیث پاک میں ہے: ''حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: مونچھیں کاٹنے، ناخن ترشوانے، بغل کے بال لینے اور زیرِ ناف بال دور کرنے کے لیے یہ میعاد مقرر کی گئی کہ چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑیں‘‘ (صحیح مسلم: 599)۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved