تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     25-06-2023

وسائل کی منصفانہ تقسیم کا عالمی منصوبہ

روس یوکرین کے درمیان جاری تنازع محض دو ملکوں کی کشیدگی کا مسئلہ نہیں ‘ یہ جنگ عالمی سطح پر مہنگائی میں اضافے اور سفارتی تعلقات پر شدید اثر انداز ہو رہی ہے۔ دنیا نئے بلاکس میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ترقی پذیر ممالک کیلئے بالخصوص معاشی بحران چیلنج بن گیا ہے۔ عالمی برادری پر جنگ کے اثرات کو سمجھنے کے لیے روس اور یوکرین دونوں کے تاریخی تناظر کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں بھی اس جنگ سے اقتصادی چیلنجوں اور اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ روس کی تاریخ علاقائی تسلط سے عبارت ہے۔ 1991ء میں سوویت یونین کی تحلیل نے یوکرین سمیت آزاد ریاستوں کو جنم دیا؛ تاہم روس نے اپنے ہمسایہ ممالک‘ خاص طور پر ان ممالک پر ایک مستقل اثر و رسوخ برقرار رکھا جن کی بڑی تعداد روسی زبان بولنے والی ہے۔ یوکرین مشرقی یورپ کے سنگم پر واقع ہے‘ جو ایک پیچیدہ تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ پوری تاریخ میں یہ روس‘ پولینڈ اور سلطنتِ عثمانیہ سمیت مختلف طاقتوں سے متاثر رہا ہے۔
روس اور یوکرین کے درمیان حالیہ تنازع فروری 2022ء میں شدت اختیار کر گیا ‘ مگر یہ تنازع2014ء میں اُس وقت شروع ہوا جب روس نے کریمیا پر قبضہ کر لیا تھا‘ جو دونوں ممالک کے لیے تاریخی‘ ثقافتی اور تذویراتی اہمیت کا حامل خطہ ہے۔ روس کے اس اقدام نے مشرقی یوکرین میں ایک سخت گیر علیحدگی پسند تحریک کو جنم دیا جس کے نتیجے میں ایک طویل جنگ شروع ہو گئی جو خطے کو تباہ کر رہی ہے۔ یہ جنگ دنیا کیلئے کیسے مہلک ثابت ہو رہی ہے اسے یوں سمجھیں کہ پاکستان جو جنوبی ایشیا میں واقع ہے‘ روس یوکرین جنگ سے یہ بھی متاثر ہوا ہے۔ یہ جنگ عالمی سپلائی چین پر اثر انداز ہوئی ہے جس سے پاکستان میں اشیائے ضروریہ کی دستیابی متاثر ہوئی ۔ اشیا کی عدم دستیابی مہنگائی اور معاشی بحران نے عوامی مشکلات کو بڑھا دیا ہے۔ جنگی تنازعات کے نتیجے میں پاکستان کو سماجی و اقتصادی چیلنجز کا سامنا ہے۔ عالمی سپلائی چینز میں خلل کی وجہ سے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے‘ جس سے بنیادی اشیا کی لاگت بڑھ گئی ہے‘ قیمتوں میں اضافے کا براہ راست اثر معاشرے کے کمزور طبقات پر پڑا ہے‘ غربت میں اضافہ اور عدم مساوات میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کی معیشت چونکہ پہلے ہی سہاروں پر کھڑی تھی اس لئے روس یوکرین جنگ سے معاشی بحران شدت اختیار کر گیا۔روس یوکرین جنگ کے بعد دنیا دو گروپوں میں تقسیم ہو چکی ہے‘ امریکہ اور یورپی ممالک یوکرین کی حمایت کر رہے ہیں جبکہ چین روس کی حمایت میں کھڑا ہے۔ عرب ممالک دونوں بلاکس کے ساتھ تعلقات میں توازن کیلئے کوشاں ہیں۔ دریں حالات معاشی چیلنجز کے پیش نظر پاکستان نے اپنی توانائی کی ضروریات کو کم کرنے کے لیے متبادل حل تلاش کیے ہیں۔ حکومت نے روس کے ساتھ تعلقات استوار کئے ہیں‘ تیل کی خریداری‘ ایل این جی اور دوطرفہ تجارتی معاہدہ اس سلسلے میں اہم پیش رفت ہے۔روس کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے سے پاکستان کو اقتصادی ترقی اور تنوع کی نئی راہیں مل سکتی ہیں‘ جس سے توانائی کے روایتی ذرائع پر انحصار کم ہو گا۔ یہ شراکت داری پاکستان کے لیے توانائی کی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے سٹریٹیجک اور اقتصادی مفادات کو بڑھانے کیلئے وسیع مواقع فراہم کرے گی‘ مگر دنیا کو پاک روس تعلقات ہضم نہیں ہو رہے۔روس کا مؤقف ہے کہ وہ روسی بولنے والی آبادی کے حقوق کے تحفظ کیلئے اقدامات اٹھا رہا ہے‘کریمیا کے الحاق پر روس کا استدلال ہے کہ اس کے کریمیا کے ساتھ تاریخی ثقافتی تعلقات ہیں جو اس کی مداخلت کو جواز فراہم کرتا ہے۔ نیٹو اور یورپی یونین کے ساتھ یوکرین کی ممکنہ صف بندی کو روس اپنے دائرۂ اثر کے لیے خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔ روس یوکرین کو اپنی سرحدوں اور مغربی طاقتوں کے درمیان ایک اہم بفر زون کے طور پر دیکھتا ہے اور اس تنازع کی تذویراتی اہمیت پر زور دیتا ہے۔
یورپی ممالک یوکرین کے ساتھ ہر ممکن تعاون کر رہے ہیں‘ دو روز قبل یوکرین کی تعمیر ِنو کیلئے یو کے ڈونر کانفرنس میں 60 بلین ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا گیا ہے‘ یورپی یونین کی طرف سے روس پر پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں۔ ایسی صورتحال میں یورپی یونین اور امریکہ توقع رکھتے ہیں کہ پاکستان بھی یوکرین کی حمایت میں کھل کر اپنے مؤقف کا اظہار کرے‘ مگر پاکستان کیلئے یوکرین کی غیر مشروط حمایت کرنا چند وجوہ کی بنا پر آسان نہیں ۔ ایک وجہ یہ ہے کہ چین روس کے مؤقف کی حمایت کر رہا ہے اور پاکستان چین سے الگ مؤقف اختیار نہیں کرنا چاہتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان ایندھن کی ضروریات کیلئے روس سے رجوع کر رہا ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ وہ یوکرین روس جنگ میں کسی کی حمایت یا مخالفت نہ کرے اور روس کے ساتھ تجارتی معاملات بھی متاثر نہ ہوں‘ پاکستان کی خواہش ہے کہ جس طرح بھارت اور دیگر ممالک کیلئے تجارتی و معاشی معاملات میں گنجائش رکھی گئی ہے پاکستان کو بھی اس سہولت سے محروم نہ رکھا جائے۔روس یوکرین جنگ کے پس منظر کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کو اس وقت دو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ایک شدید معاشی بحران جبکہ دوسرے سفارتی سطح پر تعلقات کا توازن برقرار رکھنا۔ یورپی ممالک اور امریکہ کی پاکستان کے ساتھ عدم تعاون کی ایک وجہ روس اور چین کے ساتھ تعلقات ہیں جس کی ہم بھاری قیمت چکا رہے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے دورہ فرانس میں ''نیو گلوبل فنانسنگ پیکٹ سمٹ‘‘میں پاکستان کے مؤقف کو بہتر انداز سے پیش کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث پاکستان کو گزشتہ سال تباہ کن سیلاب کا سامنا کرنا پڑا‘ 23 لاکھ افراد گھروں سے محروم اور ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں‘ 20 لاکھ گھر مکمل طور پر تباہ ہو گئے‘ سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے کروڑوں ڈالرخرچ ہوئے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور سیلاب سے ہونے والی تباہی اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ پاکستان کے عوام نے سیلاب جیسی بڑی آفت کا بہادری سے مقابلہ کیا‘ ہمیں وسائل کی منصفانہ تقسیم کے حوالے سے پالیسی مرتب کرنا ہوگی۔ دورہ فرانس میں وزیر اعظم شہباز شریف کی کئی اہم رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوئیں جن میں سعودی ولی عہد محمد سلمان اور چین کے وزیراعظم لی کی چیانگ بھی شامل ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور چینی وزیر اعظم نے سی پیک منصوبوں کی مستحکم انداز میں ترقی کے عمل پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اس امر پر اتفاق کیا کہ سی پیک پاکستان کی سماجی و معاشی ترقی میں مرکزی اہمیت رکھتا ہے‘ دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات کے حصول کیلئے مل کر کام جاری رکھنے کے پختہ عزم کا اظہار کیا گیا۔ دونوں قائدین نے رواں سال سی پیک کی کامیابی کے دس سال مکمل ہونے کی خوشی بھرپور انداز میں منانے پر اتفاق کیا۔ اس سلسلے میں چینی وزیر اعظم جلد پاکستان کا دورہ کریں گے۔ دورہ فرانس میں عالمی فورم پر وزیراعظم شہباز شریف نے دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ جب تک وسائل کی منصفانہ تقسیم نہیں ہو گی‘ دنیا مسائل کی آماجگاہ بنی رہے گی‘ وسائل کی منصفانہ تقسیم طویل بحث طلب مضمون ہے‘ ترقی یافتہ ممالک پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عالمی منصوبے کے تحت وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved