تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     25-06-2023

سپریم کورٹ اور جوڈیشل پالیٹکس

ملکِ عزیز پاکستان اپنے قیام سے آج تک مختلف طرح کے مسائل کا شکار رہا ہے۔تاریخ کے اوراق پلٹیں تو ہر دور میں ہمیں یہ بتایا گیا کہ پاکستان نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔ یہ نازک موڑ نہ جانے کب گزرے لیکن جو بحران در بحران پیدا ہو رہے ہیں وہ گزرنے کا نام نہیں لے رہے۔غریب عوام کو کبھی آٹے کے بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو کبھی چینی لینے کیلئے لائنوں میں لگنا پڑتا ہے۔ روزمرہ کے بحرانوں سے نظر ہٹائیں توآئینی‘ قانونی‘ عدالتی اور سیاسی بحرانوں نے بھی ملک کو بحرانستان بنا رکھا ہے۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ میں جاری بحران بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ اعلیٰ عدلیہ کے معزز جج صاحبان دھڑے بندی کا شکار نظرآ رہے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ اپنی انا کی تسکین کی خاطر عدالتی تکریم‘ وقار اور عزت داؤ پر لگائی جا ہی ہے۔معزز جج صاحبان میں تقسیم ایک مرتبہ پھر کھل کر سامنے آچکی ہے۔ سویلینز کا فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلنا چاہیے یا نہیں‘ اس حوالے سے سپریم کورٹ میں اہم کیس کی سماعت جاری ہے۔ یہ بحث کیوں ہورہی‘ اس پر ایک بات یہ سمجھ میں آتی ہے کہ فوجی ٹرائل کے تحت مقدمے چلائے جانے سے کیسز کا فیصلہ جلدی ہوجاتا ہے جبکہ سویلین عدالتوں میں کیسز طول پکڑتے چلے جاتے ہیں اور کیس کا جلدی فیصلہ نہیں ہوپاتا۔ فوجی عدالتوں میں یہ مسائل نہیں ہوں گے‘ وہاں بند کمروں میں فوری فیصلے ہوں گے اور حکومت پر کوئی سیاسی بوجھ بھی نہیں ہوگا۔دوسرا نقطہ یہ پیش کیا جارہا ہے کہ دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں میں مقدمات چلانے کی صورت میں ملزموں کو سزا تو ملے گی لیکن بہت سے ملزم قانونی سہارے ڈھونڈ کر سزا سے بچ جائیں گے۔ دہشت گردی کی عدالتوں کے پاس سزا دینے کا اختیار تو زیادہ ہے‘ لیکن اس سارے پراسیس میں زیادہ سے زیادہ ملزموں کو سزا دلوانے کیلئے اعلیٰ عدلیہ کو اس سارے عمل کی نگرانی کرنا پڑے گی۔ سپریم کو ہدایت دینا پڑے گی کہ ان تمام کیسز کو اتنے عرصے میں نمٹا دیا جائے۔
معروف قانون دان اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ کی رِٹ پٹیشن کا فیصلہ ہوجاتا ہے تو بہت سے ماہرین قانون کے مطابق سپریم کورٹ یہ نہیں کہہ سکے گی کہ کیسز ملٹری کورٹس میں نہیں چل سکتے کیونکہ ماضی میں بھی یہ کیسز چلتے رہے ہیں۔اگر سپریم کورٹ اس سے ہٹ کر فیصلہ دیتی ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہو گا کہ ملٹری کورٹس کے تحت جو پہلے فیصلے دیے گئے ان کی حیثیت کیا رہ جائے گی ؟ ظاہر ہے سپریم کورٹ اور حکومت کیلئے ایک نیا محاذ کھل جائے گا۔یہ بھی ہوسکتا ہے سپریم کورٹ کوئی درمیان کا راستہ تلاش کرلے جیسا کہ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ'' یہ کہنا کہ سویلین کا کبھی فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہوسکتا درست نہیں‘‘۔قانونی ماہرین کے مطابق سپریم کورٹ اس مقدمہ میں ممکنہ طور پر چارپہلوؤں پر غور کرسکتی ہے۔ایک یہ کہ ملٹری کورٹس میں یہ کیس چلتے ہیں تو ایسے میں ملزموں کو وکلاضرور مہیا کئے جائیں اور ملزموں کی مرضی کا وکیل پیش کرنے کا حق دیا جائے۔دوسرا یہ کہ جو کیس ہوا ہے اور جو فیصلہ آیا ہے اس کا ریکارڈ پبلک کیاجائے گا تاکہ سب کو یہ اندازہ ہوسکے کہ کیس میں کیا کچھ ہوتا رہا۔تیسرا یہ کہ کیسز اس وقت چل سکیں گے جب دہشتگردی کی عدالتیں لکھ کر یہ جاری کریں گی کہ فلاں شخص کا کیس فوجی عدالت میں چلنا چاہیے اور اس کے بعد یہ کیس سپیشل کورٹ میں شفٹ کیا جائے گا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس مقدمے میں کوئی حکم امتناعی جاری کرکے پی ٹی آئی کیلئے ریلیف بھی ہو سکتا ہے اور چیئرمین پی ٹی آئی کو ملٹری کورٹس میں پیش نہیں ہونا پڑے گا۔خیر جب یہ کیس چلا تو اس کیس کے پٹیشنرز لطیف کھوسہ اور اعتزاز احسن سے جسٹس طارق مسعود نے استفسار کیا کہ آپ کو پہلے 25 کروڑ عوام کے حقوق کیوں یاد نہیں آرہے تھے کیونکہ عمران خان کے دور میں ملٹری کورٹس میں 25 مقدمے چلے اور انہیں سزائیں ہوئیں۔یہ حقیقت ہے کہ عمران خان کے دورِ حکومت میں جن سویلین افراد پرآرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا گیا انہیں پولیس نے گرفتار کیا تھا اور نہ ہی عدالتوں کے ذریعے انہیں فوجی حکام کے حوالے کیا گیا تھا‘ جیسا کہ اب نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے معاملے میں کیا جارہا ہے۔ یہ معاملہ انتہائی اہم ہے۔ ان واقعات میں ملوث ملزموں کو اگر اب بھی گرفت میں نہیں لیا گیا تو پھر دوبارہ ایسے واقعات رونما ہوسکتے ہیں۔ اس سارے معاملے میں شفاف ٹرائل ہونا ضروری ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے حکومت پنجاب کی جانب سے نو مئی کے واقعات میں ملوث زیرِ حراست ملزمان کا جو ڈیٹا سپریم کورٹ میں جمع کروایا ہے اس رپورٹ میں فوج کی حراست موجود ملزمان‘ نابالغ بچوں‘ صحافیوں اور وکلا کا ڈیٹا شامل نہیں ہے‘یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے افراد بھی گرفتار کیے گئے ہوں جن کا براہ راست نو مئی واقعے کے ساتھ تعلق نہ ہو‘اس لیے شفاف ٹرائل ضروری ہے تاکہ کسی بے گناہ کو سزا نہ دی جائے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی رپورٹ کے مطابق نو مئی کے واقعات میں 81 خواتین کو حراست میں لیا گیا‘ گرفتار خواتین میں سے 42 کو ضمانت پر رہا کیا گیا ہے جبکہ 39 خواتین اس وقت جوڈیشل ریمانڈ پر جیلوں میں قید ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اس کیس کے فیصلے کو میرٹ کی بنیاد پر تسلیم کرے گی یا نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حکومت اس کیس کے کسی بھی فیصلے کو پہلے ہی سے غیرآئینی کہہ چکی ہے اورخواجہ آصف اور رانا ثنا اللہ عدلیہ پر تنقید کر رہے ہیں‘ جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حکومت اس کیس کے فیصلے کو نہیں مانے گی جیسا کہ پنجاب کے انتخابات سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کو حکومت نے نظر انداز کردیا تھا۔سپریم کورٹ اگر یہ کہہ دیتی ہے کہ نو مئی کے واقعے میں ملوث افراد کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کیس نہیں چلنے چاہئیں تو پھر دو ادارے آمنے سامنے آسکتے ہیں‘ جس کے بعد سیاسی بحران مزید شدید ہو سکتا ہے۔
ملٹری کورٹس پر عدالتی تقسیم واضح نظرآرہی ہے‘ نو رکنی بینچ سات رکنی بینچ میں تبدیل ہوگیا ہے‘ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سردارطارق مسعود نے خود کو اس بینچ سے الگ کرلیا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے انداز سے لگ رہا ہے کہ انہیں کوئی کچھ بھی کہہ لے وہ نہیں مانیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ وہ اٹھ کر کھڑے ہوئے اور چیف جسٹس کے اشاروں اور وکلا کی درخواستوں کو نظرانداز کرتے ہوئے بینچ چھوڑ کر چلے گئے۔جسٹس فائز عیسیٰ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا ذکر کیا اور کہا کہ قوانین میں ایک قانون پریکٹس اینڈ پروسیجر بھی ہے‘اس قانون کے مطابق بینچ کی تشکیل ایک میٹنگ سے ہونی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس قانون کو بل کی سطح پر ہی روک دیا گیا۔اس کے بعد جسٹس فائز نے رجسٹرار سپریم کورٹ کی طرف سے جاری سرکلر اور انکوائری کمیشن کا بھی تذکرہ کیا جسے عدالت نے کام کرنے سے منع کردیا تھا۔سپریم کورٹ کے سینئیر ترین جج جسٹس فائز عیسیٰ نے سب سے اہم بات یہ کی کہ جب تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا فیصلہ نہیں ہوتا وہ اس بینچ میں شامل نہیں ہوسکتے۔ قاضی فائز عیسیٰ نے ایک اہم بات یہ بھی کی کہ ان کی رائے کو یہ نہ سمجھا جائے کہ انہوں نے کیس سننے سے انکار کر دیا۔ان کا مؤقف یہ تھا کہ پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ کیا جائے۔بقول ان کے '' میرے خیال سے معزز ججز کو مل بیٹھ کر عدلیہ کی تقسیم کو مزید بڑھنے سے روکنا ہوگا ورنہ یہ ادارہ بھی مکمل طور پر سیاست کی نذر ہوجائے گا‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved