تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     25-06-2023

کشتی میں رہ جانے والے

تحریک انصاف ایک بھنور میں ہے اور عمران خان اس بھنور کی آنکھ میں۔اس گرداب کی طرف کشتی بھی وہ خود ہی لے کر گئے ورنہ اس سے بچ کر نکلا جاسکتا تھا۔ جب بھٹو صاحب پر زوال آیا‘ ایک عوامی تحریک اُٹھ کھڑی ہوئی اور ان کا تختہ الٹ دیا گیا تو انہی دنوں احمد ندیم قاسمی صاحب نے‘جو نظریاتی طور پر بھٹو صاحب کے قریب تھے‘یہ شعر کہا تھا
ہر ایک ڈوبنے والا یہ سوچتا ہے کہ میں
بھنور سے بچ کے نکلتا تو پار اتر جاتا
عمران خان جب اقتدار میں تھے‘مجھے یاد ہے انہی دنوں جیکسن ول‘ فلوریڈا‘امریکہ میں ایک دوست کو میں نے یہی شعر سنایا اور کہا‘ کاش عمران خان ان مسائل کو نہ چھیڑیں جو ہر کشتی الٹنے کا سبب بنتے ہیں۔وہ کسی مذہبی‘ انتقامی‘عسکری گرداب سے الجھنے کے بجائے فی الحال بنیادی معاملات پر توجہ مرکوز کریں جو پاکستان کے سب سے بڑے مسائل ہیں۔وہ اگر ان کو حل کردیں توان کے بعد باقی معاملات بھی آسان ہوجائیں گے۔ افسوس ایسا نہ ہوا۔خان صاحب نے اپنا پورا زور انتقام پر لگایا۔کوئی چھوٹا بڑا حریف ایسا نہیں جس نے ان دنوں قید و بند نہ جھیلی ہو۔ پیشیاں نہ بھگتی ہوں۔حتیٰ کہ منشیات تک کے مقدموں کا سامنا نہ کیا ہو۔جذبۂ انتقام سے مغلوب خان صاحب نے کرپشن کی آڑ میں ہر ایک کو رگیدا اور گھسیٹا۔لیکن کوئی ایک معاملہ جو شفاف طریقے سے کسی انجام تک پہنچا ہو؟یا کسی سے پیسے برآمد کروا لیے گئے ہوں۔اب یہ کہنا کہ نیب میرے کنٹرول میں نہیں تھی‘ یا جنرل باجوہ ان سب کو بچاتے رہے‘یا اے این ایف کے فلاں سربراہ نے منشیات کا مقدمہ قائم کیا تھا‘ ہمیں تو کچھ پتہ ہی نہیں تھا‘بے محل باتیں ہیں۔
موجودہ گرداب کی آنکھ میں تیزی سے گردش کرتے خان صاحب کا دارو مدار اب صرف دو باتوں پر ہے‘اپنے تئیں عوام میں ان کی مقبولیت اور اگلا ممکنہ انتخاب۔ممکنہ اس لیے کہ ابھی تو یہ بھی طے نہیں کہ یہ ہوگا کب ؟لیکن بہرحال اکتوبر تا دسمبر یا اگلے سال کے شروع میں‘انتخاب ہونے تو ہیں۔ لیکن خان صاحب کا اب دارو مدار جس مقبولیت اور انتخاب پر ہے وہ کس حد تک ان کے حق میں مؤثر ہوسکتے ہیں۔خان صاحب شاید ابھی تک اس فریب میں ہیں کہ کھمبا بھی کھڑا کروں گا تو میر ے نام پر اس کو ووٹ پڑے گالیکن وہ یہ نہیں جان رہے کہ امیدوار ہوگا تو ووٹ پڑیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ اگلے انتخاب میں خان صاحب کوپوری تعداد میں الیکٹ ایبلز کیا لوہے کے کھمبے بھی نہیں مل سکیں گے۔ گمان ہے کہ اس سے پہلے خود خان صاحب کسی نہ کسی ایسے مقدمے میں نا اہل ہوجائیں گے‘جو ا قامے والی نا اہلی سے زیادہ واضح ہوگا۔
اس وقت جب ان کی جماعت ایک بہت بڑے مسئلے سے دوچار ہے‘یہ وقت تھا کہ وہ صورت حال کا ادراک کرتے۔پی ٹی آئی چھوڑنے یا عہدوں سے الگ ہونے والوں میں صرف فصلی بٹیرے ہی نہیں ان کے دیرینہ ساتھی بھی ہیں۔وہ ان لوگوں کی رفاقت کا احساس کرتے‘جنہیں مجبوری میں الگ ہونا پڑا۔کچھ لوگ ابھی پی ٹی آئی میں موجود ہیں۔میں تحریک انصاف کے تین رہنماؤں کو مجموعی طور پر پسند کرتا ہوں۔ پسندیدگی کے درجات بہرحال مختلف ہیں۔ اسد عمر‘ شاہ محمود قریشی اور شفقت محمود۔یہ بہت بہتر‘ باوقار‘ اور گالی گلوچ سے پرہیز کرنے والے لوگ ہیں۔ انہوں نے خان صاحب کے ساتھ طویل رفاقت نبھائی اور ان کے مزاج سے اختلاف کے باوجود ساتھ چلتے رہے۔یہ تینوں اب تک پارٹی میں ہیں۔اسد عمر نے ایک چینل کو جو انٹرویو دیا اس صورت حال میں بہت حوالوں سے اچھا تھا۔انہوں نے پارٹی پر کیچڑ نہیں اچھالی۔ عمران خان کے لیے کوئی بری بات نہیں کہی بلکہ انہیں سراہا۔کھل کر ٹکراؤ کی پالیسی سے اپنے اختلاف کا اظہار کیا۔سیاسی جماعتوں سے مذاکرات نہ کرنے کی سوچ کو رد کیا اور مذاکراتی ٹیم کی اس مجموعی رائے سے کہ ہمیں اکٹھے الیکشن کی تجویز کو مان لینا چاہیے تھا‘ اتفاق کیا۔ یہ بھی بتایا کہ خان صاحب نے اس رائے کوہوا میں اڑا دیا تھا۔یہ ایک سنجیدہ انٹرویو تھا اور اس پر تحریک انصاف کو اسی طرح سکوت اختیا رکرنا چاہیے تھا جیسے نون لیگ اپنے بعض رہنماؤں کے بیانات پر کیے رکھتی ہے۔لیکن ایسا نہیں ہوا۔چند گھنٹوں میں تحریک انصاف کی طرف سے اپنے چند دن پہلے کے سیکرٹری جنرل کی باتوں پر شدید رد عمل دے دیا گیا۔خان صاحب کی مرضی کے بغیر یہ نہیں ہوسکتا تھا۔ خان صاحب کو چاہیے تھا کہ اسد عمر کو جانے نہ دیتے‘ اختلاف کے باوجودانہیں قریب رکھتے‘ یا کم از کم حالات بہتر ہونے تک انہیں سوچ بچا ر کا موقع دیتے۔یہ ایک قیمتی رفیق کا کم از کم حق تھالیکن رد عمل ظاہر کرکے یہ دروازے بند کردئیے گئے۔اسد عمر کے پاس زیادہ سیاسی گنجائشیں نہیں ہیں‘استحکام پارٹی میں وہ ضائع ہوجائیں گے۔ نون لیگ میں وہ شاید جاسکیں جہاں ان کے بھائی موجود ہیں لیکن اہمیت نہیں مل سکے گی۔ فوری طور پر ہر راستہ مشکل ہے اور اگر انتخاب میں حصہ لینا ہے تو زیادہ گوشہ نشینی بھی ممکن نہیں۔
شاہ محمود قریشی کے معاملات اور بھی گمبھیر ہیں۔رہائی کے بعد خان صاحب سے ملاقات میں تلخی کی خبریں بھی آئیں۔ وہ عمران خان کے بعد پارٹی کے واحد رہنما ہیں جو بین الاقوامی پہچان رکھتے ہیں۔ ابھی تک وہ خان صاحب کے ساتھ کھڑے ہیں اور مقدمات کا سامنا بھی کر رہے ہیں۔ایک نظر ان امکانات پر ڈالیں جو ان کے پاس موجود ہیں‘تو ان کی یہ پالیسی سمجھ آتی ہے۔پیپلز پارٹی میں وہ نہیں جاسکتے اس لیے کہ وہاں ان کے ملتان کے بڑے سیاسی حریف یوسف رضا گیلانی پہلے سے موجود ہیں۔نون لیگ انہیں فوری طو رپر قبول تو شاید کرلے کہ اس طرح عمران خان پر مزید ضرب لگ سکتی ہے۔لیکن سلوک وہی کرے گی جو جاوید ہاشمی کے ساتھ کیا تھا۔وہاں قریشی صاحب کے لیے کسی بڑے عہد ے کی گنجائش نہیں نکل سکتی۔استحکام پارٹی جہانگیر ترین پارٹی ہے جو قریشی صاحب کے سخت مخالف رہے ہیں۔ویسے بھی اس پارٹی کا اپنا کوئی مستقبل نظر نہیں آرہا تو وہاں شاہ محمود قریشی کا کیا مستقبل ہوگا۔اس لیے شاہ محمود جو کر رہے ہیں‘سوچ سمجھ کر ہی کر رہے ہیں۔ وہ بہت نپی تلی‘سوچی سمجھی بات کرنے کے عادی ہیں۔وہ فوج مخالف بھی نہیں ہیں ؛ چنانچہ اس تمام بحران میں ان کی طرف سے کوئی ایک بیان بھی ایسا نہیں ہے جس کی زد میں وہ آسکیں۔انہیں مقدمات کا سامنا ہے مگر معاملات سنگین نہیں۔اس لیے وہ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘پر عمل کر رہے ہیں اور ٹھیک کر رہے ہیں۔
شفقت محمود کافی منجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔ وہ جماعت کی صفِ اول میں بھی تھے‘اہم وزیر بھی اور پارٹی کے دیرینہ رہنما بھی۔ وہ ان مہینوں میں کم کم نظر آئے۔ چینلز پر بھی خال خال ہی نظر آئے۔یہ سلسلہ نو مئی سے بھی پہلے کا ہے۔ یعنی جب سے خان صاحب زمان پارک منتقل ہوئے۔ بلکہ اس سے بھی پہلے سے جب پی ٹی آئی اقتدار سے محروم ہوئی تھی‘ وہ اس طرح فعال نظر نہیں آتے۔نو مئی کے واقعات پر ان سے ایک چینل پر سوال پوچھا گیا تو وہ عمران خان کی جارحانہ پالیسی کا جواب تو گول کر گئے تاہم یہ کہا کہ ریاست سب سے اہم ہے اس میں دو رائے نہیں۔نو مئی کے ذمے داروں کو سزا دینے کے حق میں بھی ان کابیان موجود ہے۔ مذاکرات کے حق میں بھی لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ جب خان صاحب نے مذاکرات ویٹو کردئیے تھے تب کیسے بات آگے بڑھتی۔اب مذاکرات کی دہائی سے کوئی فائدہ نہیں کہ گیم اب دوسروں کے ہاتھ میں ہے۔
پرویز الٰہی بھی بس گئے کہ گئے۔ چودھری شافع حسین کا بیان آچکا ہے۔کوئی دن کی بات ہے کہ قاف لیگ پھر پرویز الٰہی اور مونس کا گھر ہوگی‘لیکن شاید اب انہیں وہ مقام نہ مل سکے۔خیر! اصل بات یہ ہے کہ چکراتی کشتی میں رہ جانے والے کتنی دیر رہ سکیں گے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved