اکثر کہا جاتا ہے کہ 1973ء کا آئین قومی اسمبلی سے منظور کردہ ہمارا متفقہ آئین ہے لیکن اس کی منظوری کے کچھ ہی دیر بعد اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے شہریوں کے بنیادی حقوق سلب کر لیے۔ اپریل 1973ء میں آئین کی منظوری دی گئی اور محض چار سال کے عرصے میں‘ 1977ء تک اس میں سات ترامیم کر لی گئیں۔ پچاس برس کے عرصے میں آئینِ پاکستان میں پچیس ترامیم ہو چکی ہیں جبکہ امریکہ‘ جس کا آئین بنے سوا دو سو سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے‘ نے اب تک آئین میں صرف 27 ترامیم کی ہیں۔مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارا آئین درپیش مسائل کا حل پیش کرنے سے قاصر ہے‘ مسئلہ یہ ہے کہ ہر حکومت اور ہر سیاسی جماعت اس سے صرف اپنی مرضی کے مطالب و نتائج اخذ کرتی ہے۔ اس حوالے سے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں‘ محض ایک مثال ہی کافی ہے۔ قاسم سوری رولنگ کیس میں پیپلز پارٹی کا موقف تھا کہ آئین و پارلیمانی ضابطے کی پیروی نہیں کی گئی‘ اس لیے عدالت کو اس پر نوٹس لینا چاہیے جبکہ پی ٹی آئی نے موقف اپنایا کہ سپیکر کی رولنگ کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا؛ تاہم عدالتِ عظمیٰ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے نہ صرف قاسم سوری کی رولنگ کو کالعدم قرار دیا بلکہ قومی اسمبلی کو بحال کر کے عدم اعتماد کی کارروائی کو آگے بڑھانے کا فیصلہ بھی سنایا۔ بعد میں دوست محمد مزاری رولنگ کیس میں یہی پیپلز پارٹی تھی جس نے پی ٹی آئی اور (ق) لیگ کی پٹیشن یہ کہہ کر مسترد کرنے کی استدعا کی کہ سپیکر کی رولنگ کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ یعنی اپنے سیاسی مفاد کے مطابق اس نے اپنے چند ماہ پرانے موقف کو یکسر غلط اور پی ٹی آئی کے موقف کو درست مان لیا۔
کراچی میں میئر کے الیکشن میں جو کچھ ہوا‘ اس پر زیادہ با ت کرنے کی ضرورت نہیں۔ میئر کی تقریبِ حلف برداری میں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے پیپلز پارٹی کو آئین کی خالق جماعت قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ آئندہ عام انتخابات میں بھی اسی طرح فتح یاب ہوں گے۔ ان کے دعوے پر بعد میں بات کرتے ہیں‘ پہلے 1973ء کے آئین کی منظوری کی داستان پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ اس آئین کی منظوری سے قریب ایک ماہ قبل فروری 1973ء میں بھٹو حکومت نے بلوچستان میں عطا اللہ مینگل کی NAP حکومت کو برطرف کر دیا۔ اس فیصلے کے خلاف احتجاجاً مولانا مفتی محمود‘ جو مرکزی مجلس قانون ساز میں قائدِ حزبِ اختلاف ہونے کے ساتھ ساتھ صوبہ سرحد میں نیپ اور جے یو آئی کی مشترکہ حکومت کے وزیراعلیٰ بھی تھے‘ نے صوبائی حکومت سے استعفیٰ دے دیا۔ مجلس قانون ساز (قومی اسمبلی) میں ولی خان نے اسمبلی اور تمام متعلقہ کارروائی بشمول آئین سازی کا بائیکاٹ کر دیا۔ اسمبلی میں موجود دیگر اپوزیشن رہنمائوں بشمول مولانا شاہ احمد نورانی، جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد اور پیر پگاڑا نے بھی اسمبلی کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ ان سب کے باوجود جب بھٹو حکومت نے آئین سازی کیلئے ''آخری بار‘‘ مذاکرات کی دعوت دی تو اپوزیشن جماعتیں دوبارہ مذاکرات کی میز پر بیٹھ گئیں اور محض ایک‘ ڈیڑھ ماہ قبل صوبائی حکومتوں سے محروم ہونے والی اپوزیشن 10 اپریل کو ایک متفقہ آئین پر دستخط کر رہی تھی۔ اس موقع پر غوث بخش بزنجو نے طنزاً کہا کہ بھٹو صوبوں میں ہماری حکومتیں گراتا ہے اور ہم مرکز میں اس کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ جس پر مفتی محمود کا کہنا تھا کہ صوبوں میں بھٹو سے ہماری لڑائی سیاسی ہے اور یہ لڑائی ہم گلی گلی میں لڑیں گے مگر مرکز میں 25 سال سے آئین کی منتظر قوم کی نگاہیں ہمیں دیکھ رہی ہیں‘ انہیں مایوس نہیں کیا جا سکتا۔
پیپلز پارٹی جس آئین کی منظوری کا کریڈٹ لیتی ہے‘ تاریخی طور پر اس کا کریڈٹ اس وقت کی اپوزیشن کو جاتا ہے۔ مگر یہ کیسا عجیب اتفاق بلکہ سوئے اتفاق ہے کہ اُس وقت کی حکومت اور اپوزیشن میں شامل لگ بھگ سبھی جماعتوں کے وارثان آج کے حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں مگر آئین کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے‘ وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ گزشتہ ایک سال سے قانون سازی کے ایوان بازیچہ اطفال بنے ہوئے ہیں جہاں واضح آئینی شقوں کے خلاف قراردادیں منظور کی جا رہی ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ اتحادی جماعتیں اپنی تمام سیاست میں جس آئین کی تقدیس کے گیت گایا کرتی تھیں‘اب اسے ایک کتاب جتنی اہمیت دینے کو بھی تیار نہیں۔ گزشتہ چند ماہ سے اسمبلی میں جس قسم کی قانون سازی ہوئی ہے اور جو بل پاس کیے گئے ہیں ان پر سبھی سنجیدہ حلقے حیران و پریشان ہیں۔
آئین سازی کا کریڈٹ لینے والی جماعتوں کو کوئی بتائے کہ متفقہ طور پر منظور کیے جانے والے آئین میں لکھے گئے کچھ الفاظ اس قدر دلچسپ ہیں کہ اب مضحکہ خیز محسوس ہونے لگے ہیں۔ نجانے اب تک کسی کہ ان پر نظر کیوں نہیں پڑ ی۔مثال کے طو رپر اس آئین میں دو منتخب حکومتوں کے درمیانی وقفے کے لیے نگران سیٹ اپ یعنی ''کیئر ٹیکر‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 224 میں نگران حکومت یعنی کیئر ٹیکرز کے جملہ فرائض تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ اس وقت نگرانی کے فرائض سرانجام دینے والی حکومتیں کیا کام کر رہی ہیں‘ اس بابت تو کسی کو بتانے یا لمبی چوڑی تشریح کرنے کی ضرورت ہی نہیں کہ یہ کن کی نگرانی کر رہی ہیں۔ اگرچہ کچھ حلقے یہ الزامات لگا رہے ہیں کہ ان کا کام تو انتخابات کرانا ہے مگر یہ اپنے اصل کام سے ہٹ کر باقی سبھی کام کر رہی ہیں۔ کہنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اُنہی کے مفادات اور احکامات کی تکمیل کی جا رہی ہے جنہوں نے انہیں کیئر ٹیکر بنایا ہے۔ دوسروں کے اس طرح کے الزامات پر کچھ کہنے کے بجائے خاموش رہنا زیادہ بہتر ہے کیونکہ جس بات کا علم نہ ہو اس پر خواہ مخواہ مغز ماری یااپنی طرف سے ماہرانہ رائے دینے سے بہتر ہے کہ اچھے بچوں کی طرح ایک کونے میں خاموشی سے بیٹھ رہیے۔ایسے ہی تو ہمارے استاد محترم گوگا دانشور نے نہیں کہہ رکھا کہ بچو! خاموشی ہزار نعمت ہے۔اکثر میزبان جب اپنے پروگراموں میں مہمانوں اور سیاسی تجزیہ کاروں کو مدعو کرتے ہیں تو دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ یہ سوال ضرور پوچھتے ہیں کہ پنجاب اور کے پی میں اس وقت ہر کام کرنے والی حکومتیں عبوری ہیں یا نگران ؟ہمارے جیسے چند خوفزدہ قسم کے تجزیہ کار دل ہی دل میں یہ بات دہرانے لگتے ہیں عبوری حکومت ہو یا نگران‘ یہ تو صرف اصطلاحات ہیں۔ اصل حکومت تو ہمیشہ ملبوس اور بے نام ہوتی ہے۔
اس وقت ملکی سیاست میں جس سراسیمگی کی چادر تنی ہوئی ہے‘ اس میں اگر کوئی صاف اور شفاف الیکشن کی بات کرتا ہے تو اسے ایک لطیفہ ہی کہا جائے گا۔ جس قسم کے حالات و واقعات اس وقت ملک میں چل رہے ہیں‘ کیا ان کے ہوتے ہوئے صاف اور شفاف انتخابات ہو سکتے ہیں؟بر سبیل تذکرہ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جب تک ہر قسم کی قید و بند سے آزاد الیکشن کمیشن وجود میں نہیں آتا‘ صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہو ہی نہیں سکتا۔ جب تک الیکشن کمیشن کے اراکین کے چنائو میں سیاسی وابستگیوں کو اہمیت دی جاتی رہی گی‘ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریوں میں غیر جانبداری سے قاصر رہے گا۔ اس وقت کچھ افراد اسی ڈیوٹی پر مامور نظر آتے ہیں کہ ہر آتے جاتے کے کان میں سرگوشی کریں کہ یہ حکومتیں کیئر ٹیکر نہیں بلکہ عبوری حکومتیں ہیں اور انہیں اتنا کھینچو کہ یہ ختم کا نام ہی نہ لیں تاکہ ان کے بھاگ سنورے رہیں۔چھ ماہ سے زائد عرصہ بیت چکا ہے مگر ملک کے دو صوبوں میں ابھی تک الیکشن ہی کی تاریخ مقرر نہیں کی گئی۔ اس سے بھی بڑا سوال آئندہ الیکشن کی شفافیت پر ہے۔ الیکشن سے قبل ہی تمام معاملات کے غیر شفاف ہونے کا مطلب یہی لیا جا رہا ہے کہ الیکشن کا عمل بھی شفاف نہیں ہو گا۔ اگر ایسا ہوا تو یقینا یہ بہت بڑی بدقسمتی ہو گی۔ اس وقت معاشی سدھار کو سیاسی استحکام سے مشروط کیا جا رہا ہے مگر سیاسی استحکام شفاف الیکشن کا مرہونِ منت ہے۔ اگر من پسند کھلاڑیوں کو ہی بیٹنگ سونپنے کا فیصلہ ہو چکا ہے تو ہم جیسے‘ جن کی کٹیا میں ایک چادر کے سوا اور کچھ نہیں‘ وہ یہ کہتے ہوئے کسی ویران کونے میں دبک کر بیٹھ جائیں گے کہ ''تماشا ہم بھی دیکھیں گے‘‘۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved