آئی ایم ایف معاہدہ ہونے یا نہ ہونے سے متعلق پاکستان اور آئی ایم ایف کے مذاکرات اب شاید آخری راؤنڈ میں داخل ہو گئے ہیں۔ اگرچہ یہ آخری راونڈ ہو سکتا ہے لیکن شرائط کے اعتبار سے ابھی کئی کڑے امتحان باقی ہیں۔ میں نے پچھلے کالم میں ذکر کیا تھا کہ وزیراعظم صاحب پیرس میں منعقدہ گلوبل فنانشل پیکٹ میں آئی ایم ایف کی ایم ڈی سے ملاقات کریں گے۔ یہ ملاقات ہوچکی ہے اور اس کے ردعمل میں کچھ برف پگھلتی دکھائی دے رہی ہے۔ لیکن اس برف کا پگھلنا یکطرفہ ہے۔ یعنی حکومتِ پاکستان نے کچھ لچک دکھائی ہے‘ ابھی تک آئی ایم ایف کی جانب سے مطلوبہ ردعمل سامنے نہیں آ سکا۔ مذاکرات کے نتیجے میں سٹیٹ بینک نے ایک سرکلر جاری کیا ہے کہ درآمدات پر عائد پابندیاں ختم کردی گئی ہیں، امپورٹ کیلئے زرمبادلہ کی فراہمی میں ترجیحی درآمدات کی شرط ختم کردی گئی ہے، اب تمام درآمدات کیلئے بلاتفریق زرمبادلہ فراہم ہو گا، زرمبادلہ کے مجاز ڈیلرز کو تمام درآمدات کیلئے زرمبادلہ فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہ پابندی پچھلے سال دسمبر میں لگائی گئی تھی۔ یہ فیصلہ خوش آئند ہے لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ قابلِ عمل ہے بھی یا نہیں۔ اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً 3 ارب 80 کروڑ ڈالرز ہیں اور محض بندرگاہوں پر پھنسے کنٹینرز کو کلیئر کرانے کے لیے ہی تقریباً چار ارب ڈالرز سے زیادہ کا زرمبادلہ درکار ہے۔ یقینا حالات اس وقت تمام اشیا کی درآمد کی اجازت دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ رواں مالی سال کے ابتدائی 11 ماہ میں درآمدات پہلے ہی 49 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں۔ ایک مرتبہ پھر گرے مارکیٹ سے ڈالرز کی ڈیمانڈ بڑھ سکتی ہے اور ڈالر کا ریٹ اوپن اور گرے مارکیٹ میں بڑھ سکتا ہے۔ ایسا کرنے سے آئی ایم ایف پھر سے مطالبہ کر سکتا ہے کہ انٹربینک اور گرے مارکیٹ کو برابر کیا جائے جو حکومت کرتی دکھائی نہیں دے رہی۔
پاکستان میں اٹھائیس جون سے عید کی چھٹیاں ہو رہی ہیں۔ دو جولائی تک بینک پبلک ڈیلنگ کیلئے بند ہوں گے۔ آئی ایم ایف پروگرام تیس جون کو ختم ہو رہا ہے۔ پاکستان نے کئی مرتبہ آئی ایم ایف پروگرام کی میعاد میں توسیع کی درخواست کی لیکن آئی ایم ایف کی ایم ڈی نے پچھلے ماہ وزیراعظم صاحب کو بتایا کہ موجودہ آئی ایم ایف پروگرام کی مدت نہیں بڑھائی جا سکے گی اور یہ ایکسپائر ہو جائے گا۔ آئی ایم ایف پروگرام ختم ہونے سے پہلے پاکستانی بینکوں کے پاس صرف دو دن ہیں؛ پیر اور منگل۔ تکنیکی طور پر اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی شرائط پر صرف دو دن کے لیے عمل کیا تو غلط نہ ہو گا۔ ان دو دِنوں میں ایل سیز کا کھلنا، کنٹینرز اور بینکوں سے کاغذات کا کلیئر ہونا تقریباً ناممکن ہے۔ ایسا نہیں کہ آئی ایم ایف حکام کو اس ممکنہ منصوبہ بندی کے بارے میں علم نہیں! ماضی میں بھی جس طرح وعدہ خلافیاں کی گئی ہیں‘ وہ ان سب باتوں سے بخوبی آگاہ ہے۔ اسی لیے اس کی جانب سے اس خدشے کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ قرض ملنے کے بعد انٹربینک میں ایکسچینج ریٹ کے ساتھ دوبارہ چھیڑ چھاڑ کی جا سکتی ہے۔ اس وقت بھی ایکسچینج ریٹ مصنوعی طور پر کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ جن درآمدات کی ادائیگی ہو چکی ہے‘ ان کے کاغذات بھی کلیئر نہیں ہو رہے حالانکہ یہ ڈالرز بینکوں نے نہیں دیے بلکہ امپورٹرز نے خود ان کا بندوبست کیا تھا۔ ایک طرف دعویٰ کرنا کہ سٹیٹ بینک کی جانب سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور دوسری طرف کاغذات کلیئر نہ کرنے کا دبائو ڈالنا مناسب نہیں ہے۔ اس سے وقتی طور پر ڈالر ریٹ کو روکا جا سکتا ہے لیکن لانگ ٹرم میں ملک اور معیشت کو زیادہ نقصان ہو سکتا ہے۔
آئی ایم ایف نے ایک لاکھ ڈالر پر ایمنسٹی دینے پر دوبارہ اعتراض کیا ہے۔ ممکن ہے کہ جلد اس ایمنسٹی کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا جائے۔ اس کے علاوہ مختلف کاروباری شعبوں کو جو سبسڈیز دینے کا اعلان کیا گیا تھا ان پر بھی اعتراض اٹھایا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق دو سو ارب روپے کے اخراجات کم کیے جا سکتے ہیں اور ایک سو ارب روپے کے مزید ٹیکسز لگائے جا سکتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ جس وقت یہ کالم پڑھ رہے ہوں‘ بجٹ میں کچھ ترامیم پیش کر دی جائیں۔ لیکن شاید اب چند ترامیم سے کام نہیں چلے گا‘ اس مرتبہ بنیادیں درست کرنے پر توجہ دینا ہو گی۔
ذہن نشین رہے کہ معیشت بحالی کا پلان بی پیش کیا جا چکا ہے جسے حکومت آئی ایم ایف کا متبادل قرار دے رہی تھی لیکن میں نے پچھلے کالموں میں ذکر کیا تھا کہ پلان بی کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ شاید حکومت کو بھی اس کا اندازہ ہو گیا ہے کیونکہ ملکی آبادی کا 40 فیصد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہے اور کاروبار میں آسانی کے انڈیکس میں پاکستان دنیا کے نچلے ترین ممالک میں شامل ہے۔ ان حالات میں 112 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا دعویٰ کسی معجزے سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ جس طرح کاغذات میں یہ منصوبہ دکھایا جا رہا ہے اس لحاظ سے تو 2035ء تک پورے ملک میں ایک بھی غریب نہیں رہے گا اور پاکستان کئی یورپی ممالک سے بھی مضبوط معاشی طاقت بن جائے گا۔ منصوبہ سننے کی حد تک تو بہت خوبصورت اور شاندار ہے لیکن زمینی حقائق مختلف ہونے کے سبب اس کے قابلِ عمل ہونے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ایک طرف حکومت خود کنفیوز ہے اور دوسری طرف عوامی سطح پر بھی اس منصوبے کو پذیرائی ملتی دکھائی نہیں دے رہی۔ حکومت نے اسے سی پیک سے بھی بڑا منصوبہ قرار دیا ہے۔ حالانکہ سی پیک میں سرمایہ کاری تقریباً ساٹھ ارب ڈالرز تھی جبکہ نئے منصوبے میں تقریباً 112 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ عوامی سطح پر پذیرائی نہ ملنے کی وجہ یہ ہے کہ سی پیک کا اعلان چینی صدر نے پاکستان آ کر کیا تھا جبکہ اکنامک ریوائیول کے نئے منصوبے سے متعلق چین اور خلیجی ممالک نے سرکاری سطح پر تاحال کوئی اعلان نہیں کیا۔ حکومت خود ہی اعلان کر کے خود ہی اپنے آپ کو مبارکبادیں دے رہی ہے۔ عوامی سطح پر یہ تاثر بھی پروان چڑھ رہا ہے کہ اگر دوست ممالک نے ہماری مدد کرنا ہوتی تو آئی ایم ایف کا چھ ارب ڈالرز کی گارنٹی کا مطالبہ مان کر مدد کی جا سکتی تھی۔ سرِدست آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آ رہا۔ذہن نشین رہے کہ حالیہ مطالبوں میں صرف معاشی پالیسیوں کی تبدیلیوں پر ہی بات نہیں کی گئی بلکہ سیاسی استحکام کو یقینی بنانے کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا۔ حکومت شاید بقیہ شرائط پر عمل درآمد کرنے پر راضی ہو جائے لیکن سیاسی استحکام والا معاملہ ذرا پیچیدہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان معاملات طے پا جاتے ہیں تو کیا 29 جون کے آئی ایم ایف کے ایجنڈے میں ردوبدل کر کے پاکستان کا نام شامل کیا جا سکتا ہے؟ اگر ماضی کی مثالوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو ضرورت کے تحت آئی ایم ایف میٹنگ ایجنڈا تبدیل ہوتا رہا ہے، لیکن اس کیلئے دوستانہ ماحول پیدا ہونا ضروری ہے۔ اگر کسی ملک کا وزیر خزانہ آئی ایم ایف کو سازشی اور بلیک میلر قرار دے تو اُس ملک کو آئوٹ آف دی وے جا کر کوئی فیور دینا آسان نہیں ہوتا۔
ایک طرف آئی ایم ایف کا دبائو بڑھ رہا ہے اور دوسری طرف غیر ملکی سرمایہ کاروں نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ آئندہ مالی سال کے بجٹ کی پارلیمنٹ سے منظوری سے قبل بے قاعدگیوں کو دور کرے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ٹیکس ادا کرنے والے کاروباروں پر مزید بوجھ نہیں پڑے گا۔ پاکستان میں کام کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم کی جانب سے چیئرمین ایف بی آر کو خط لکھ کر احتجاج ریکارڈ کرایا گیا ہے کہ سپر ٹیکس کی شرح کو چار فیصد سے بڑھا کر 10 فیصد کرنا غیر منصفانہ ہے۔ حکومت نے کارپوریٹ ٹیکس کی شرح کو مؤثر طریقے سے غیر معینہ مدت کیلئے 29 فیصد سے بڑھا کر 39 فیصد کر دیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سپر ٹیکس کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے کیونکہ یہ 2022ء میں عارضی اقدام کے طور پر نافذ کیا گیا تھا۔ یہ مطالبات کسی حد تک جائز ہیں لیکن ان پر آئی ایم ایف پروگرام کی موجودگی میں عملدرآمد ہونا مشکل ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved