جہاں ہم آج کھڑے ہیں‘ یہاں اچانک پہنچے ہیں نہ اس سے بے خبر تھے ۔ ان حالات کا قالب بہت پہلے ڈھل چکا تھااور واقفان ِحال کوسب علم تھا۔ سیاسی دھارے کا جائزہ لینے والے دور کناروں سے دیکھ رہے تھے ۔ یہ سب تربیت یافتہ لوگ تھے جنہوں نے مغرب کی جامعات میں علم سیاست اور اس سے جڑے دیگر علوم میں مہارت حاصل کررکھی تھی۔ سب نے ایک سے زیادہ کتابیں لکھیں‘ کچھ غیر ملکیوں نے اردو زبان بھی سیکھی ‘ دنیائے علم کے معتبر ترین تحقیقی مجلوں میں بیسیوں مقالے لکھے اور بے شمار بین الاقوامی کانفرنسوں میں پیش کیے ۔ ہماری سیاست‘ معاشرت‘ تاریخ اور سماج کے علاوہ لسانی اور سماجی تحریکوں سے لے کر سیاسی بحرانوں اور مذہبی شدت پسندی تک کوئی ایسا موضوع نہیں جس پر تحقیقی مضامین نہ لکھے گئے ہوں ۔ خوشی ہوتی تھی کہ ہم بین الاقوامی مکالمے میں حصہ لے رہے ہیں اور کچھ سیکھ کر علم کے سمندروں میں کچھ اپنا رنگ بھی شامل کررہے ہیں ۔ ہمارا یہ سفر خاصا طویل ہے ‘ اس لیے جنہوں نے پاکستان کی تشکیل کے برسوں پر لکھا‘ ان سے ملنے ‘ کانفرنسوں میں ان کے ساتھ کئی مرتبہ شرکت کرنے ‘ دوستیاں بنانے اور قائم رکھنے کے مواقع ملے ۔ دکھ کی بات ہے کہ جو سکالر شپ پاکستان کی تاریخ ‘سیاست اور معاشرے پر موجود ہے ‘ اس سے استفادہ کرنے کی ہمارے ہر نوع کے حکمران اور مقامی دانشور نہ صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کا اس طرف رجحان ہے ۔ وہ سنجیدہ علمی گفتگو پر اپنا وقت ضائع کیوں کریں ؟جن حالات سے آج پاکستان گزر رہا ہے ‘ انہیں سمجھنے کے لیے نہ سکالرز کی کمی اور نہ ہی تحقیقی کام کی‘ مگر یہ سب کچھ بند کتابوں اور مجلوں کی زینت ہے ۔ صرف تحقیقی کام کرنے والوں کی اگلی نسل اس سے استفادہ کرتی ہے۔
علم اور جستجو سے دور رہنے کی سیاسی‘ سماجی اور ثقافتی وجوہات ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں طاقت اور دولت کا سکہ چلتا ہے ۔ مغرب میں بھی کہا جاتا ہے کہ جس کے پاس طاقت ہو‘ وہی دنیا کو دلکش ‘ جاذب ِنظر ‘ محبوب اور خوبصورت نظر آتاہے ۔ طاقت‘ خاص طور پر ہمارے جیسے ممالک میں تو مقناطیس کی طرح حریص اور لالچی لوگوں کو کھینچ کر طاقتور لوگوں کے قدموں میں ڈال دیتی ہے ۔ اہلِ علم و دانش خود بھی طاقتور حکمرانوں کے دائروں سے دور رہنے کی کوشش میں ہوتے ہیں مگر وہ علم بانٹنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتے ۔ ہمارے سیاستدان‘ ان کے سرپرست اہل ِکرم اور نوکر شاہی میں بڑی کرسیوں پر براجمان صاحبان کو ہمیشہ زعم رہتا ہے کہ پاکستان کے مسائل کے بارے میں ان سے بہتر کون جانتا ہے ۔ امریکہ اور یورپی ممالک میں روایت اس کے برعکس ہے ۔ ہر قسم کی پالیسی سازی میں ماہرین سے مشاورت کی جاتی ہے ۔امریکی کانگریس میں کوئی مسئلہ ہو تومتعلقہ ماہرین کو مدعو کیا جاتا ہے ‘ ان کی بات سُنی جاتی ہے ۔ بے شمار تھنک ٹینک‘ یعنی خود مختار ادارے ہیں جو خارجہ پالیسی سے لے کر دفاعی امور ‘ معیشت‘ سائنس اور ٹیکنالوجی پر رپورٹس تیار کرکے حکومتوں کی رہنمائی کرتے ہیں ۔ میرے تین چار ایسے امریکی دوست ہیں جو سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں افغانستان‘ مشرق ِوسطیٰ اور جنوبی ایشیا پر مشیر رہے ہیں۔ چلیں ہم تو یہاں بس گئے ‘ دیسی ہوگئے مگر ہمارے ولایتی دانشور جن کی پاکستان پر لکھتے عمر گزر گئی مگر کسی پاکستانی حکمران کی اُن کی طرف نظر نہ گئی ۔ جن حالات میں سے ہم آج گزر رہے ہیں ‘ ان کے بارے میں پہلے سے بہت کچھ لکھا جاچکا ہے ۔پاکستان پر لکھنے والے بار بار متنبہ کررہے تھے کہ دیکھو‘ آپ کے ملک میں کیا ہورہا ہے ۔ وہ کہتے تھے کہ آپ کا سماجی نظام ہی ایسا ہے جہاں کرپشن تو پروان چڑھ سکتی ہے ‘ جمہوریت نہیں ۔ کچھ مقتدرہ کو پاکستان کا نجات دہندہ ‘ خصوصاً ایوب خان کے دور میں ‘ قرار دیتے رہے۔ اکثر نے اشاروں کنائیوں میں بات کی ہے مگر کانفرنسوں میں جو ہم ساری عمر بیرونی ممالک میں جاتے رہے ‘ وہاں ذرا دل کھول کر باتیں ہوتیں ۔ کوئی پاکستان کے خلاف بات کرتا تو ہم جوانی میں تو سینہ تان کر کھڑے ہوجاتے۔ کچھ حالات بھی اتنے بگڑے ہوئے نہیں تھے ۔ پھر وہ باتیں جو یہ سکالراور مورخین پاکستان کے بارے میں کرتے رہے ہیں اور جن کا علم ہونا ہمارے حکمرانوں اور کم از کم دانشوروں کے لیے ضروری تھا‘ کوئی اجنبی نہیں تھیں۔ ایسا بھی نہیں کہ پاکستانی دانشور جرأت کرکے ان کے بارئے میں لکھ نہیں رہے تھے۔ ایسی آوازیں ملک کے اندر سے اٹھتی رہی ہیں ۔ جس طرح کے حالات اب ہیں پہلے بھی اس طرح کے کئی ادوار گزرے ہیں۔ضیا دور سے جو ابتدا ہوئی‘ یہ سب اسی کی فصل ہے جو ہم بار بار کاٹ رہے ہیں۔
باتیں کچھ کڑوی ہیں مگر سچی ہیں ۔ وحشت اور خوف کے عالم میں قلم چلتے چلتے رُک جاتا ہے ۔ کیمبرج یونیورسٹی میں کئی سال پہلے پاکستان پر کانفرنس تھی میں بھی مدعو تھا ۔ کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر‘ اینزی ایمبری نے کلیدی خطاب کیا تو فیض احمد فیض کے اس شعر سے آغاز کیا :
یہ داغ داغ اجلا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
آج ہر نوجوان پاکستان میں سوچنے پر مجبور ہے کہ حکمرانوں نے ملک کا کیا حال بنا دیا ہے ۔ لوگ ہمسایہ ممالک کی ترقی ‘ عالمی مقام ‘ بڑھتی ہوئی خوشحالی کو دیکھتے ہیں تو سوچنے پر مجبور ہیں کہ تاریخ کے کس مقام پر ہم نے کیا ٹھوکریں کھائیں۔ ان ٹھوکروں کے جو ذمہ دار ہیں وہ تاریخ سے نہ چھپے ہیں نہ چھپ سکتے ہیں ‘ مگر طاقت ان کے پاس ‘ دولت اُن کے پاس ‘ پاکستان کی تقدیر اُن کے ہاتھ‘ اور سیاست بازی ان کا شغل ۔ ساری قوم حیرت اور بے بسی سے دیکھ رہی ہے کہ کس طرح قوانین بنا کر اربوں روپے کی کرپشن کے مقدمات کو واپس لیا جاتا رہا۔ یہ مناظر تو ہم کئی دہائیوں سے دیکھ رہے تھے ۔ سب سیاسی ماہر ین کچھ ایسی باتیں اپنی کتابوں اور مقالوں میں کرتے آئے تھے کہ پاکستان کی تاریخی ‘ لسانی‘ جغرافیائی اور سیاسی فالٹ لائنز ایسی ہیں کہ اگر ان کی طرف توجہ نہ دی گئی تو سیاسی بھونچال ملک کو ہلا کر رکھ دے گا‘ وہ غلط نہیں تھے ۔ایک کے بعد دوسرا دور گزر رہا ہے جہاں ان فالٹ لائنز کو مزید گہرا اور وسیع کرنے کا باقاعدہ اہتمام کیا جارہا ہے ۔
کانفرنسوں سے فارغ ہو کر ہم اپنے مغربی دوستوں کیساتھ فرصت کے اوقات میں بیٹھتے تو وہ جو کہتے اس کا مفہوم یہ تھا کہ بلی کے گلے میں یہ گھنٹی آپ کیسے باندھیں گے ؟ہم کچھ جمہوری تحریکوں اور جمہوری تبدیلیوں کی تاریخ کے حوالے دیتے‘ سماجی تنظیموں ‘ میڈیا اور مڈل کلاس کے پھیلائو کے علاوہ عالمی نظام کے تقاضوں کی بات کرتے تو وہ اکثر ہنس دیتے ۔ اکثر ہم کچھ نکات پر اتفاق کرلیتے کہ ہمارے ہاں ایک حکمران طبقہ ہے جو ہر قاعدے اور قانون سے ماورا ہے ۔ ہم میں اتفاق تھا کہ بہتی گنگا میں سب ہاتھ دھوئیں گے ۔ یہ چار عشرے پہلے کی باتیں ہیں ۔سب اکٹھے ہیں ‘ اکٹھے رہیں گے ۔ اسی لیے تو کہتے ہیں کہ اتفاق میں برکت ہے۔ ہمارے نظریاتی ستونوں کے درمیان اتفاق و اتحاد آج بھی بلند ترین سطح پر ہے ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved