ایک دوسرے کو گھسیٹنے اور الٹا لٹکانے کی بڑھکیں مارنے والے مل کر عوام کو گھسیٹے چلے جا رہے ہیں۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری وزیراعظم کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں۔ فرماتے ہیں: شہباز شریف پیپلز پارٹی کے وزیراعظم ہیں۔ آصف علی زرداری تختِ پنجاب کے معرکے پر پہلے ہی بساط بچھانے کے لیے بیتاب ہیں۔ وہ بڑے صنعتکاروں کی تنظیم کے پاس جا پہنچے اور میثاقِ معیشت کی پیشکش کے علاوہ مسلم لیگ(ن) کو دھوکہ نہ دینے کی یقین دہانی بھی کرواتے رہے۔ بارہا عرض کر چکا ہوں کہ میثاقِ جمہوریت ہو یا معیشت‘ یہ سبھی درحقیقت میثاقِ مصیبت ہوتے ہیں جو ہمارے سماج سیوک نیتا اپنے برے دن ٹالنے کے علاوہ اقتدار اور دیگر اہداف کے حصول کے لیے ایک دوسرے کی ضرورت بن کر کرتے ہیں۔ جب تک ضرورت باقی ہے ان کی وضع داریاں‘ خاطرداریاں جاری رہتی ہیں‘ جوں جوں ضرورتوں کی گرفت کمزور ہوتی چلی جاتی ہے یہ حلیف سے حریف بنتے چلے جاتے ہیں۔ گویا کام ختم تعلق ختم۔ دوبارہ کام پڑے گا تو تعلق پھر استوار کر لیں گے۔
ایک طرف نواز شریف کو شواہد کی عدم دستیابی پر بری کر دیا گیا ہے تو دوسری طرف نیب نے عدالت میں یہ اعتراف بھی کر ڈالا ہے کہ وزیراعظم کے بیٹے اور داماد کے خلاف بھی شواہد نہ مل سکے۔ ایسی صورت میں وقتی طور پر گٹھ جوڑ میں جہاں مضبوطی کے امکانات بڑھ رہے ہیں وہاں میرے حالیہ کالم کی تھیوری کو بھی تقویت ملتی ہے۔ وقت کا دھارا حالات کو اسی سمت میں دھکیلتا دکھائی دے رہا ہے۔ چند سطریں بطور حوالہ اور یاد دہانی شیئر کرتے ہیں:
''سیاسی موسمیات کے ریڈار سے ملنے والے اشارے ایک نئی تھیوری کا پیغام بھی دے رہے ہیں کہ جو جدوجہد دوپارٹی نظام توڑنے کے لیے کی گئی تھی وہی جدوجہد اب شاید اس نظام کو بحال کرنے کے لیے کی جارہی ہے۔ دور کی کوڑی لانے والے کہتے ہیں کہ تحریک انصاف چھوڑنے والے سبھی چہروں کو ایک نئی پارٹی میں اکٹھا کر کے ڈمپ بھی کیا جاسکتا ہے کیونکہ موجودہ حالات میں ان کے پاس نہ کوئی نیا بیانیہ ہے اور نہ ہی کوئی ایسا ایجنڈا کہ جس کی بنیاد پر وہ حلقوں میں جاکر عوام کا سامنا کر سکیں۔ 2018ء کے انتخابات میں وہ نئے پاکستان کے نام کا ووٹ لے کر اسمبلیوں میں گئے تھے اب چونکہ وہ پرانے پاکستان میں واپس آچکے ہیں اور پرانے پاکستان کے نام پر ووٹ مانگنے والے پہلے ہی اگلی قطاروں میں موجود ہیں۔ اس تناظر میں استحکام پارٹی کے امیدواروں کو اس مشکل صورتحال کا سامنا بھی رہے گا کہ عوام کے کس کس سوال کا کیا کیا جواب دیں؟ چونکہ گزشتہ عام انتخابات میں تو اُمیدواروں سے ہاتھا پائی کے واقعات بھی ریکارڈ پر موجود ہیں۔ نو مئی سے پہلے جو خود کو ناقابلِ تسخیر اور اگلی اسمبلیوں میں دیکھ رہے تھے وہ آج کونے جھانکتے پھر رہے ہیں۔ ان سبھی کو ایک نئی پارٹی میں ڈمپ کر کے کہیں دوبارہ دو پارٹی نظام کو محفوظ راستہ تو نہیں دیا جارہا‘ کیونکہ ان سبھی پر تو نو مئی کے المناک واقعات میں بالواسطہ اور بلاواسطہ ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔ ایسے الزامات کی پنڈ اٹھائے یہ انتخابی معرکہ کیونکر سر کر پائیں گے۔ دوسری طرف قانون انہیں الیکشن لڑنے کے لیے محفوظ راستہ کہاں سے فراہم کرے گا۔ آرمی چیف پہلے ہی انتباہ جاری کر چکے ہیں کہ ملک و قوم کی سالمیت پر حملہ کرنے والوں کو بھولیں گے نہ معاف کریں گے‘‘۔
قوی امکانات کے باوجود اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) میں اِٹ کھڑککا نہیں ہوتا تو ایک بار پھر اقتدار اور وسائل کا بٹوارا ہوتا دکھائی دے رہا ہے جبکہ دور کی کوڑی لانے والوں کا کہنا ہے کہ انتخابات میں جانے سے پہلے ساجھے کی ہنڈیا پریشر ککر بن کر پھٹ بھی سکتی ہے ‘ لیکن تیسری پارٹی کو فائدہ اٹھانے سے روکنے کے لیے یہ شاید محبت کی پینگیں بڑھاتے‘ مفادات کے مصافحے اور ضرورتوں کے معانقے کرتے رہیں گے۔ گویا:
یہ ضرورتوں کا خلوص ہے
یہ مطالبوں کا سلام ہے
یہ نوازشیں نہیں بے غرض
انہیں آپ سے کوئی کام ہے
ان سبھی کو اپنے کام سے کام اور اپنی غرض سے غرض ہے۔ جس کامیابی سے آصف علی زرداری نتیجہ خیز چالیں چلتے اور مطلوبہ اہداف حاصل کرتے چلے آرہے ہیں اگر یہی ویژن اور توجہ گورننس کے لیے وقف کر دیں تو گڈ گورننس کے عملی نمونے جابجا دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ اس موقع پر مجھے برادرِ محترم حسن نثار کا ایک تبصرہ یاد آرہا ہے کہ آصف علی زرداری اگر اپنی ترجیحات تبدیل کر لیں تو ان میں وہ صلاحیتیں ہیں جو کایا پلٹ سکتی ہیں۔ حسن بھائی کی خواہش اور توقعات پر پورا اترنے کے لیے وہ اتحادیوں کے دل سے اُترنے کا رسک کیسے لے سکتے ہیں؟ ایک دوسرے کی ضرورتوں سے جڑے‘ یہ سبھی لڑتے بھی ضرورتاً ہیں اور ملتے بھی ضرورتاً ہیں۔ دوسری طرف زرداری صاحب کے حلیف اور محبوب وزیراعظم کے بڑے بھائی اور قائد میاں نواز شریف بَری ہونے کے بعد جلد مملکتِ خداداد کو لوٹیں گے۔ ان کی بریت عدالتی فیصلہ ہے‘ اس پر تبصرے کی کوئی گنجائش باقی ہے نہ ضرورت‘ لیکن ایک معمہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی حل طلب ہی رہے گا کہ ''ملک و قوم کا خزانہ بھی صاف ہے تو ان سبھی کے ہاتھ اور دامن بھی صاف ہیں‘‘۔
یہ کیسا احتساب ہے کہ بھاری اخراجات سے بنائے گئے کیسز کے سبھی ملزمان سستے چھوٹ جاتے ہیں۔ یہ کیسا ادارہ ہے کہ جس کے ملزم بھی اقتدار کی تبدیلی کے ساتھ برابر بدلتے چلے آئے ہیں۔ جو کل زیر عتاب اور زیر حراست تھے آج کلین چٹ کے بعد کوئے اقتدار کے باسی ہیں جبکہ ان کی گرفتاریوں پر دھمالیں ڈالنے والے حکمران ان کی جگہ زیر عتاب آ چکے ہیں۔ گویا زندان سے ایوان اور ایوان سے زندان کا سفر چٹکیوں میں۔ احتساب کی اس میوزیکل چیئر کا کھیل قوم کو اتنا مہنگا پڑ چکا ہے کہ اس کے بڑھتے ہوئے خسارے ملک و قوم کا مستقل خسارہ بنتے چلے جا رہے ہیں۔ ملزمان زندان سے نکل کر سیدھے ایوان میں جا بیٹھتے ہیں اور ایوانوں میں بیٹھے متبادل ملزمان بن کر میوزیکل چیئر کے اس کھیل کو رواں دواں رکھے ہوئے ہیں۔ اسی لیے شاید نہ لوٹ مار اور کرپشن کے شواہد دیرپا ثابت ہوتے ہیں اور نہ ہی کوئی کیس اپنے منطقی انجام تک پہنچتا ہے‘ نتیجہ یہ کہ سبھی سستے چھوٹتے چلے آرہے ہیں۔ ایسے میں اس مہنگے احتساب کا کوئی تو اَنت ہونا چاہیے‘ ان سبھی خساروں کا ذمہ دار کوئی تو ہوگا‘ اگر ملزم کے خلاف شواہد ناپید اور بریت کیس کا انجام ہے تو استغاثہ سے کم از کم یہ تو ضرور پوچھنا چاہیے کہ یہ بھاری اخراجات‘ مہنگا احتساب‘ سرکاری وسائل کا ضیاع اور ملزم کی اسیری‘ ریمانڈ اور پیشیاں کس کھاتے میں؟ اگر یہ سبھی دودھ کے دھلے اور معصوم تھے تو قصور وار کون ہے؟ برابر کہتا چلا آرہا ہوں کہ ملزمان ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے اگر یہ سبھی بچ گئے تو کچھ نہیں بچے گا۔ ہم جس سے ڈر رہے تھے وہی بات ہوگئی‘ یہ سبھی تو بچ گئے لیکن ملک و قوم کے پَلے کچھ نہیں رہا۔ اب تو ان کے پاس لٹانے اور گنوانے کے لیے بھی کچھ باقی نہیں رہا۔ جہاں استغاثہ میرٹ پر ہو اور ملزم کے خلاف شواہد ناپید اور بریت کیس کا انجام ہو تو سزا صرف عوام ہی کا مقدر بنتی ہے۔ عوام تو سزا کاٹ ہی رہے ہیں اور کاٹتے رہیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved