تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     25-09-2013

کمپنی بہادر

آج کی دنیا میں دوچار چھوٹے چھوٹے ملکوں کے سوا‘ ایک ملک بھی ایسا نہیں‘جہاں انسانی حقوق اور آزادیوںکا احترام کیا جاتا ہو۔ ہر ملک کے حکمران طبقوں نے اپنی اپنی استطاعت اور گنجائش کے مطابق لوٹ مار کا نظام قائم کر رکھا ہے۔ ترقی پذیر ملکوں میں یہ لوٹ مار زیادہ تر حکمران اپنے اور اپنے خاندانوں کے ذریعے کرتے ہیں۔ ذاتی بینک بیلنس بھرتے ہیں اور دنیا بھر میں جائیدادیں بناتے ہیں اور جدید سائنس و ٹیکنالوجی کی وجہ سے‘ جن معاشروں میں کارپوریٹ کلچر حاوی ہو چکا ہے اور ادارے زیادہ منظم اور متحرک ہیں‘ وہاں پر کمپنی کلچر رائج ہے۔ جس کے تحت کمپنیاں اجارہ داریوں کے ذریعے لوٹ مار کرتی ہیں اور اب وہ اتنی طاقتور ہو چکی ہیں کہ ان کے بجٹ بعض اچھے خاصے ملکوں کے قومی بجٹ سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ اب یہ کمپنیاں ہی دنیا کی اصل حکمران ہیں۔ وہی حکومتیں بناتی اور گراتی ہیں۔ امن اور جنگ کے فیصلے کرتی ہیں ۔ وہی ملکوں کی خارجہ پالیسیاں بنواتی ہیں اور لہراتے ہوئے قومی پرچموں کے سائے میں‘ایستادہ بڑی بڑی عمارتیں ‘ جنہیں سفارتخانے کہا جاتا ہے‘ درحقیقت انہی کمپنیوں کے پروموشن ایجنٹ ہوتے ہیں۔ عام مشاہدے کی بات ہے کہ جب کوئی بڑی کمپنی‘ کسی ملک میںکروڑوں اربوں ڈالر کی ڈیل کرنا چاہتی ہے اور مقابلے میں کوئی بڑا حریف آ جاتا ہے‘ تو وہ اپنی حکومت کو مسئلے سے آگاہ کرتی ہے۔ متعلقہ ملک کے سفارتخانے کو حکم جاتا ہے اور سفیر صاحب میزبان ملک کے حکمرانوں پر دبائو ڈالتے ہیں اور وہ سفیرصاحب کے ملک کی کمپنی کے ساتھ ڈیل کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ان کمپنیوں کی اپنی اپنی انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی ہوتی ہیںاور ایک مشترکہ ادارہ بھی کمپنیوں کے لئے انٹیلی جنس کی خدمات انجام دیتا ہے۔ یہ انٹیلی جنس ایجنسیاں‘ سرکاری ایجنسیوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر اورزیادہ صحیح رپورٹیں مرتب کرتی ہیں۔ جن میں ہر ملک کے سیاسی‘ معاشی‘ سماجی اور گروہی معاملات کے بارے میں مبنی بر حقائق رپورٹیں اور تجزیئے پیش کئے جاتے ہیں۔ جن میں بتایا جاتا ہے کہ اس وقت کس ملک میں مالی بحران پیدا ہو رہا ہے؟ کہاں سیاسی بحران جنم لے رہا ہے؟ کہاں پیداواری بحران آنے والا ہے؟ کونسی فصل ‘ کہاں اچھی ہو رہی ہے اور کہاں خراب؟کس ملک میں کشمکش اقتدار کے کھلاڑیوں کی باہمی زور آزمائی میں‘ کس کا پلّہ بھاری ہورہا ہے؟ کس کا پلّہ بھاری ہے اور کس کا پلّہ بھاری کر کے دوسرے فریق کو پسا کرنا ہے؟ تازہ ترین کمپنی پروڈکٹ بھارت میں تیار ہو رہی ہے۔ 2014ء وہاں پر انتخابات کا سال ہے۔ کانگریس اور اس کے اتحادیوں کی حکومت اپنی ساکھ خراب کر چکی ہے۔یہ ساکھ بھارت کی ملٹی نیشنل اور بڑی ملکی کمپنیوں نے منصوبہ بندی کے تحت خراب کی۔ ہر ملک کا بیوروکریٹک سسٹم ‘ کمپنیوں کے زیراثر ہوتا ہے۔ بیوروکریٹ بظاہر سرکاری ملازم ہوتے ہیں لیکن مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے‘ وہ کمپنیوں کے مدد گار ہوتے ہیں۔ عموماً میڈیا کا بڑا حصہ کمپنیوں ہی کے زیراثر ہوتا ہے۔ ایک اور ادارہ‘ جو خاص خاص مواقع پر کمپنیوں کی مدد کو پہنچتا ہے‘ اس کے بارے میں عموماً باخبر لوگوں کو ہرچیز کا پتہ ہوتا ہے۔ مگر اس کا نام نہیں لیا جاتا۔ ذکر بھارت کا ہو رہا تھا۔ وہاں پر کمپنیوں اور لیبر یونینوں کے درمیان کشمکش شدید ہو رہی ہے۔ اگر مزدور اور نکسلی تحریکوں کو کمزور نہ کیا گیا‘ تو بھارتی سرمایہ دار کی گرفت کمزور پڑنے کا اندیشہ ہے۔ ایسے نازک مواقع پر سرمایہ دار معاشرے کے چوہدری مل بیٹھ کر اپنے اپنے مشاورتی اداروں کی مدد سے وہ حالات پیدا کرنے کے منصوبے بناتے ہیں‘ جن میں مزدوروں کی پُرامن اور مسلّح جدوجہد کو کچلا اور منتشر کیا جا سکے۔ ایسا کرنے کے لئے فسادات سے بھی کام لیا جاتا ہے۔ خصوصاً پاکستان اور بھارت میں یہ ہتھیار کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ بھارتی سرمایہ دار نے‘ اپنے عالمی ساجھے داروں کے ساتھ مل کر کانگریس اور اس کے ترقی پسند اتحادیوں پر ضرب لگانے کا فیصلہ کیا۔ اسی فیصلے کے تحت گزشتہ 2 سال سے بڑے بڑے مالیاتی سکینڈل نکالے گئے اور انہی سکینڈلوں کے شور میں اناہزارے نامی ایک غیرسیاسی شخص کو میدان میں اتارا گیا(درحقیقت وہ بی جے پی کا ہمدرد ہے)۔ اس نے عوامی اجتماعات کے مظاہرے کر کے‘ ماہرین کو یہ اندازے لگانے کا موقع فراہم کیا کہ عوام میں کانگریس اور اس کے ساتھیوں کی حمایت کی پوزیشن کیا ہے؟کرپشن سکینڈلز اور عوامی مظاہروں کے ردعمل کا تجزیہ کر کے‘ غالباً کمپنیاں اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ اگر مذہبی کشمکش اور فرقہ ورانہ فسادات کو استعمال کیا جائے‘ تو انتہاپسند ہندوئوں کو انتخابات میں کامیاب کرایا جا سکتا ہے۔ اگر آپ ٹائمنگ دیکھیں‘ تو کانگریس اور اتحادیوں کی حکومت کو بدنام اور نریندر مودی کو اُبھارنے کا سلسلہ ساتھ ساتھ شروع ہوا تھا۔ بی جے پی کی صفِ اول کی قیادت ابھی تک قوم پرستانہ جذبات رکھتی ہے۔ اس گروپ کے سربراہ ایل کے ایڈوانی ہیں‘ جو قائد اعظم کی تعریف کر کے کافی نقصان اٹھا چکے ہیں۔ وہ بھی اٹل بہاری واجپائی کی طرح پختہ عمر کے آدمی ہیں اور سیاست میں ایسے آدمی پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ وہ عمر کے آخری دور میں یہ خواہش کرنے لگتا ہے کہ تاریخ میں زندہ رہنے کے لئے کچھ بڑے کارنامے انجام دے جائے۔ کمپنیاں ایسے مہم جوئوں کو پسند نہیں کرتیں۔ ایڈوانی کو سیاسی طور پر پارٹی کے اندر تنہا کر کے‘ بڑی ہنرمندی سے نرغے میں لے لیا گیا تھا۔ اس کے بعد‘ ان سے پوچھے بغیر ہی آنے والے انتخابات میں مودی کو و زارت عظمیٰ کا امیدوار بنانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ جس پر ایڈوانی کا فوری ردعمل بہت شدید تھا۔ لیکن جال تیار کرنے والوں نے انہیں اس طرح سے بے بس کر رکھا تھا کہ ایڈوانی نے ہرجتن کر کے دیکھ لیا مگر انہیں مایوسی کے سوا کہیں کچھ نظر نہیں آیا۔ آخرکار انہیں ہتھیار ڈالنا پڑے اور انہوں نے مودی کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار تسلیم کر لیا۔ اب مودی کی انتخابی مہم شروع ہو چکی ہے ‘ جس کا پہلا مظاہرہ جموں میں ہوا اور دوسرا یو پی کے شہر مظفرنگر میں۔ دونوں جگہ ہندومسلم فساد برپا کیا گیا اور خیال کیا جا رہا ہے کہ انتخابات آنے تک مسلمانوں میں اس قدر خوف پیدا کر دیا جائے گا کہ یا تو وہ بی جے پی کا تحفظ لے کر ووٹ ڈالنے جائیں گے یا گھروں سے باہر نہیں نکلیں گے۔ برطانیہ اور امریکہ نے مسلمانوں کی نسل کشی کرنے کی وجہ سے مودی پر پابندیاں لگائی تھیں۔ برطانیہ میں یہ پابندی ختم ہو چکی ہے اور امریکہ بھی حیلے بہانے سے یہ رکاوٹ ختم کر دے گا۔ اب مودی قومی اور عالمی سرمایہ داروں کے ایجنٹ کی حیثیت سے الیکشن میں اُترے گا اور کامیاب ہو کر ‘ محنت کشوں کی زورپکڑتی ہوئی تحریکیں کچلنے کی ڈیوٹی انجام دے گا۔ ابھی تک اسی کے امکانات ہیں۔ اگلے چند ماہ میں کیا تبدیلیاں آ سکتی ہیں؟ اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟ افغانستان اور عراق کی جنگیں بھی کمپنیوں کی جنگیں تھیں۔ کمپنیاں جہاں القاعدہ سے بطور دشمن کام لے سکتی تھیں‘ وہ لیتی رہیں اور جہاں انہیں مددگار بنا کر مقصد پورا کرنا تھا‘ وہاں کر رہی ہیں۔ یعنی القاعدہ امریکہ کی دشمن بھی ہے اور مددگار بھی۔ تحریک طالبان پاکستان بھی درحقیقت کمپنیوں کی پیداوار ہے اور پاکستان کے حکمرانوں کے سلسلے بھی کمپنیوں ہی سے جا کر ملتے ہیں۔ اب کمپنیوں کو طالبان اور پاکستانی حکمرانوں کے باہمی تصادم کی ضرورت نہیں رہ گئی۔ میرے پاس اندر کی معلومات نہیں ہیں۔ لیکن واقعات جو رُخ اختیار کر رہے ہیں‘ انہیں دیکھ کر آسانی سے کہا جا سکتا ہے کہ اب کمپنیوں نے ہمارے حکمرانوں اور دہشت گردوں کو ایک جگہ بٹھانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس فیصلے پر عملدرآمد کیسے ہوتا ہے؟ یہ بھی میں نہیں جانتا۔ مگر مشاہدہ یہ ہے کہ جب کمپنیاں فیصلہ کر لیتی ہیں‘ تو پھر پاکستان جیسے ملکوں میں عموماً اس پر عمل ہو جاتا ہے۔برصغیر کو کمپنی بہادر نے مقامی جنگوں سے نکالا تھا۔ کمپنی بہادر پھر آ رہی ہے۔ ایک اور موضوع۔ مجھے یاد ہے کہ قیام پاکستان کی سکیم میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ صوبوں کی منتخب اسمبلیاں پاکستان میں شمولیت کے فیصلے کی توثیق کریں۔ بلوچستان میں اسمبلی نہیں تھی۔ سندھ اسمبلی نے پاکستان کے حق میں قرارداد پاس کر دی۔ صوبہ سرحد میں تنازعہ کھڑا ہوا۔ جس پر ریفرنڈم کرانا پڑا اور پنجاب میں مسلم لیگ کو اکثریت ملنا مشکل ہو گیا۔ تین اقلیتی ارکان‘ پاکستان کے حق میں ووٹ نہ دیتے‘ تو پنجاب اسمبلی ‘پاکستان میں شمولیت کی قرارداد منظور نہیں کر سکتی تھی۔جو تین ووٹ کم تھے‘ وہ اقلیتی اراکین نے دیئے۔ جن میں دو ہندو تھے اور ایک عیسائی مسٹرگبن۔حسن جعفر زیدی یا دیگر محققین سے درخواست ہے کہ ازراہ کرم اس تاریخی واقعہ پر تحقیق کرلیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved