کون ہے جو ہار کا منہ نہیں دیکھتا؟ ہر انسان کسی نہ کسی معاملے میں ہارتا ضرور ہے۔ یہ زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ انتہائی کامیاب افراد بھی متعدد مواقع پر ہارتے ہیں۔ زندگی اس معاملے میں کسی کو نہیں بخشتی۔ ایسا ممکن ہی نہیں کیونکہ ہر انسان کو اس دنیا کے تمام مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ جب بھی کوئی انسان مقابلے کے لیے میدان میں آتا ہے تو ہارنے کا امکان بھی کم نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ کوئی بھرپور مہارت‘ قوت اور عزم کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے اور آخر تک ڈٹا رہتا ہے مگر پھر محض نصیب کے ہاتھوں ہارنا پڑتا ہے۔ اگر کرکٹ کا کوئی مقابلہ آخری گیند تک جاری رہا ہو تو آخری گیند پر ہونے والی فتح حقیقی فتح ہے نہ ایسی ہار کو ہم عبرت ناک ہار کہہ سکتے ہیں۔ ایسا تو ہوتا ہے۔ بھرپور فتح تو وہ کہلائے گی جو دو تین اوورز پہلے واقع ہو اور ہارنے والی ٹیم محسوس کرے کہ جیتنے والے واقعی جیتنے کے حقدار تھے۔
بھری دنیا میں کون ہے جو ہارنے کے لیے تیار ہو یا ہار کو پسند کرتا ہو؟ کوئی ایک انسان بھی ہارنے پر آمادہ نہ ملے گا۔ جو اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں کہ صلاحیت‘ سکت اور عزم کے اعتبار سے جیتنا ان کا مقدر یا استحقاق نہیں‘ وہ بھی کسی نہ کسی طور جیت یقینی بنانے کے خواہش مند رہتے ہیں۔ یہ بالکل فطرتِ انسانی کے مطابق ہے۔ ہر انسان ہر حال میں جیتنے کا متمنی رہتا ہے۔ حالات اور زمینی حقائق چاہے کوئی بھی کہانی سنا رہے ہوں‘ انسان چاہتا ہے کہ اس تک صرف اس کی کامیابی کی خبر پہنچے۔ ناکامی سب کے حصے میں آتی ہے۔ جو لوگ مقابلے کے لیے میدان میں اترتے ہیں وہ کبھی جیتتے ہیں اور کبھی ہارتے ہیں۔ ہار اور جیت زندگی کا حصہ ہے۔ یہ دنیا اسی مزاج کی حامل واقع ہوئی ہے۔ اگر یہاں ڈھنگ سے رہنا اور جینا ہے تو یہاں کے بنیادی اصولوں اور مزاج کو سمجھنا اور قبول کرنا ہی پڑے گا۔
کیا ہارنا ایسی ہی بری بات ہے کہ ہم دل ہار بیٹھیں؟ کیا کسی ایک معاملے یا مقابلے میں ہار جانا زندگی کا اختتام سمجھا جانا چاہیے؟ بہت سوں کو ہم ایسی ہی ذہنیت کا حامل دیکھتے ہیں۔ ذرا سی ناکامی بھی ان کے لیے سوہانِ روح ثابت ہوتی ہے۔ ان کے ذہن میں یہ تصور‘ کسی ٹھوس جواز کے بغیر‘ راسخ ہو چکا ہوتا ہے کہ انسان کو ہر بار جیتنا ہی چاہیے۔ ایسے میں ناکامی ہضم ہی نہیں ہوتی۔ ہارنے میں اور خود کو شکست خوردہ محسوس کرنے میں بہت فرق ہے۔ جب کوئی یہ سوچتا ہے کہ ہارنے کا مطلب ہے تمام امکانات کا ختم ہو جانا تو پھر اسے اس بات کا قائل نہیں کیا جا سکتا کہ زندگی اس طور نہیں گزاری جا سکتی۔ ہر عہد کے انسان نے ہار اور جیت کو زندگی کا حصہ سمجھتے ہوئے اپنے معاملات درست کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر کوئی اپنی نفسی یا فکری ساخت کی زمین میں یہ تصور کیل کی طرح ٹھونک لے کہ ہارنے کا مطلب تمام امکانات کا ختم ہو جانا ہے تو پھر اسے معاملات بہتر بنانے کی راہ پر گامزن کرنا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ ایسے لوگ کبھی ہار کبھی جیت پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ ان کا ذہن تو ہر وقت صرف اور صرف جیتنے کے بارے میں سوچ رہا ہوتا ہے۔ یہ ذہنیت امکانات سے مستفید ہونے کی گنجائش ختم کردیتی ہے۔ حقیقی مفہوم میں کامیاب وہی ہو پاتے ہیں جو ہر طرح کے نتائج کے لیے تیار ہوں اور انہیں قبول بھی کرتے ہوں۔
دنیا کے ہر انسان کو کسی بھی معاملے میں ہارنے کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ ایسی تیاری ذہن پر زیادہ بوجھ نہیں پڑنے دیتی۔ جب انسان یہ سوچ لیتا ہے کہ جیتنا لازم نہیں اور ہار بھی واقع ہو سکتی ہے تب وہ اپنے آپ کو معاملات بہتر بنانے کی سعی کیلئے تیار کرتا ہے۔ ہار جانے اور خود کو شکست خوردہ محسوس کرنے میں بہت فرق ہے۔ غیرمعمولی محنت اور مقابلے کے بعد بھی کوئی ہار جائے تو دل کو تکلیف ضرور پہنچتی ہے مگر اتنی نہیں کہ وہ ہمت ہی ہار بیٹھے اور آئندہ مقابلے کیلئے میدان میں اترنے کو ترجیح نہ دے۔ فتح نصیب نہ ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ صرف شکست مقدر ہے۔ کوئی بھی چیز حتمی طور پر مقدر نہیں ہوتی۔ انسان جب چاہے اپنے حالات بدل سکتا ہے اور معاملات کو بہتر بنا سکتا ہے۔ یہ آپشن اس سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ تگ و دو کے ذریعے زندگی کا رخ بدلنا اور اپنے آپ کو اچھے زمانے کیلئے تیار کرنا سب کے لیے ممکن ہے۔ ایک تو ہوتی ہے واضح شکست۔ اس کے نتیجے میں دل و دماغ کو جھٹکا سا لگتا ہے۔ کچھ دیر کیلئے تو ایسا لگتا ہے جیسے امکانات رہے ہی نہیں۔ ذہن کام کرنے سے انکار کردیتا ہے‘ دل بجھ سا جاتا ہے۔ کچھ وقت گزرنے پر جب حواس بحال ہوتے ہیں تب اندازہ ہوتا ہے کہ شکست تو واقع ہوئی ہے مگر ایسی نہیں کہ کچھ باقی ہی نہ بچا ہو۔ ہر طرح کی صورتحال میں انسان کے پاس کچھ نہ کچھ کرنے کا آپشن تو باقی رہتا ہی ہے۔
ہارنے میں اور ہارے ہوئے ذہن کا حامل ہونے میں بہت فرق ہے۔ ہارنا یا جیتنا معمولاتِ زندگی کا حصہ ہے۔ اس مرحلے سے سبھی کو گزرنا ہے۔ جو سب کا معاملہ ہو وہ آپ کے لیے کسی بھی درجے میں فیصلہ کن حد تک پریشان کن یا مہلک نہیں ہونا چاہیے۔ جو کچھ سب کے لیے ہوتا ہے اسے نارمل تصور کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی نارمل معاملہ آپ کے لیے کسی بھی درجے میں ابنارمل نہیں ہو سکتا۔ سوال صرف یہ ہے کہ آپ اس معاملے کو سمجھنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔ ناکامی کی بیشتر داستانیں بے عملی سے کہیں زیادہ بے ذہنی کا نتیجہ ہیں۔ جب کوئی اپنے آپ کو شکست خوردہ مان لے تو جیتنے کے لیے عمل پسند رویہ پروان چڑھا ہی نہیں سکتا۔ شکست کو مقدر سمجھنے کی ذہنیت انسان سے ذوق و شوقِ عمل چھین لیتی ہے۔ ایسے میں بے عملی کا آپشن رہ جاتا ہے۔ شکست کو تسلیم کرنے کی ذہنیت ڈھنگ سے پروان نہ چڑھائی گئی ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے یعنی انسان کسی بھی ناکامی کو زندگی کی سب سے بڑی ناکامی سمجھ کر حوصلہ ہار بیٹھتا ہے۔ شکست کو زندگی کا حصہ سمجھنے کی ذہنیت راتوں رات پروان نہیں چڑھتی۔ ہم یومیہ معمولات میں اپنے ارادوں کی ناکامی سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ہر انسان کو یومیہ بنیاد پر ایسی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کا اسے عمومی سطح پر احساس بھی نہیں ہوتا۔ اگر ہم ہر (معمولی سی) ناکامی کو جی کا روگ بنانے کی ذہنیت پروان چڑھائیں تو جی چکے۔ ڈھنگ سے زندہ رہنے کے لیے ناگزیر ہے کہ ارادوں کی ناکامی کو کھلے ذہن سے قبول کرنے کی عادت پختہ کی جائے۔ جب انسان اپنے افکار و اعمال کے ناموافق نتائج پوری دیانت اور غیر جانب دار ذہن کے ساتھ قبول کرتا ہے تب معاملات کو سمجھنے کی ذہنیت پروان چڑھتی ہے۔ ایسے میں انسان منصوبہ سازی کے قابل ہو پاتا ہے۔ مستقبل کے بارے میں سوچنا اور منصوبہ سازی کرنا ہر انسان کے لیے انتہائی بنیادی ضرورت کے درجے میں ہے۔
سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت اور ذوقِ عمل کو تباہی سے بچانے کی معقول ترین صورت یہ ہے کہ انسان حقیقت پسندی کے دائرے میں رہتے ہوئے زندگی بسر کرے۔ ذہن بہت سے معاملات میں گمان کی منزل تک پہنچتا ہے۔ ہر معاملے میں محض گمان پالنے سے بات بن نہیں سکتی۔ ذہن کو متوازن رکھنے کے لیے حقیقت پسندانہ سوچ کا حامل ہونا لازم ہے۔ حقیقت پسندی انسان کو کسی بھی معاملے میں شدید ناموافق نتائج کے قبول کرنے کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔ تمام زمینی حقیقتوں کو سمجھنا اور قبول کرنا بڑے دل گُردے کا کام ہے۔ جو لوگ ایسا کر پاتے ہیں وہ کبھی ایسی ناکامی سے دوچار نہیں ہوتے جس کا کوئی جواز نہ ہو۔ ایسے لوگ بے ذہنی کے ساتھ نہیں جیتے۔ ان کے ارادوں سے تعقل جھلکتا ہے۔ وہ ہر معاملے میں معقول طرزِ فکر و عمل اپنانے پر یقین رکھتے ہیں۔ زندگی کو زیادہ بار آور بنانے کا یہی معقول ترین رویہ ہے۔ ہر شکست کو جی کا روگ بنانے سے گریز کیجیے۔ ہارنے کے لیے تیار رہنا اور ہار کو قبول و ہضم کرنا ہی خود کو جیت کے لیے تیار کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved