مذہبی حساسیت کا مفہوم اگر یہ ہے کہ مجھے ان فرائض کے بارے میں حساس ہونا چاہیے جو مجھ پر مذہب عائد کرتا ہے تو بلا شبہ قابلِ تحسین ہے۔ نہ صرف قابلِ تحسین بلکہ مطلوب ہے۔ میرا مذہبی ہونے کا دعویٰ مشتبہ ہے اگر میں تارکِ صلوٰۃ ہوں‘ رمضان میں روزے نہیں رکھتا یا استطاعت ہوتے ہوئے بھی حج نہیں کرتا‘ میری نماز کسی وجہ سے قضا ہو جائے اور مجھے اس کا کوئی افسوس نہ ہو تو یہ بہت خطرناک معاملہ ہے‘ اگر کوئی مذہبی کہلوانے والا آدمی اس سے دوچار ہے۔ اسی طرح اگر کوئی دوسروں کے ساتھ معاملہ کرتے وقت خدا کے حضور میں جواب دہی کے احساس سے عاری ہے تو بھی اس کا مذہبی ہونا بے معنی ہے۔ کم تول کر اور جھوٹ بول کر‘ مجھے احساس ہونا چاہیے کہ اسلام کے ساتھ مرا تعلق کمزور پڑ گیا ہے۔
اسی طرح اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ دوسرے بھی اسی طرح حساس ہو جائیں تو یہ خیر خواہی ہے اور اس کی بھی قدر کرنی چاہیے۔ کوئی چاہے کہ معاشرے میں وہ اقدار غالب ہوں جو مذہبی اخلاقیات پر مبنی ہیں اور اگر ایسا نہ ہو تو وہ اس پر فکر مند ہو تو یہ فکر مندی بھی مستحسن ہے۔ لیکن اگر کوئی بڑھ کر یہ چاہے کہ میں اپنے مذہبی خیالات دوسروں پر نافذ کروں۔ لوگ مذہب پر اسی طرح عمل کریں جیسا میں چاہتا ہوں۔ دوسرے بھی اسی مذہبی تعبیر کو اختیار کریں جسے میں صحیح مانتا ہو تو اسے مذہبی حساسیت نہیں کہتے۔ اسے مذہبی لغت میں بھی حدود سے تجاوز قرار دیا جائے گا۔ یہ انتہا پسندی ہے۔
اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں ہولی کی ایک تقریب ہوئی۔ اس پر طوفان کھڑا ہو گیا۔ یہ مذہبی حساسیت کا نہیں‘ انتہا پسندی بلکہ خود پسندی کا مظاہرہ ہے۔ اعتراض مسلمان طلبہ و طالبات کی اس تقریب میں شرکت پر ہے۔ نتیجہ اس سے یہ برآمد کیا گیا کہ اسلام خطرے میں ہے۔ دلیل یہ دی گئی کہ اسلام غیرمسلموں کے ساتھ اظہارِ مودت و محبت سے منع کرتا ہے۔ حل یہ پیش کیا گیا کہ ایسی تقریبات کا دروازہ بند ہونا چاہیے۔ یہ تمام مقدمہ بہت سے مغالطوں کا مجموعہ ہے۔
پہلی بات: اسلام نے کہیں غیرمسلموں کے ساتھ محبت سے منع نہیں کیا۔ قرآن مجید نے جہاں دوستی سے منع کیا ہے‘ وہاں سیاق و سباق سے واضح ہے کہ ان لوگوں کا ذکر ہے جو اللہ اور اس کے رسول سے برسرِ پیکار تھے۔ ایک جگہ تو 'من دون المومنین‘ کی قید لگا کر اللہ تعالیٰ نے خود ہی واضح کر دیا ہے۔ مسلمان‘ بحیثیت مسلمان‘ کسی کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہوں تو اس وقت یہی کہا جائے گا کہ مسلمانوں کو چھوڑ کر دوسروں سے مودت کا تعلق نہ رکھو۔ یہ ایک عمومی ہدایت کیسے ہو گئی؟ دوسری بات یہ ہے کہ خود قرآنِ مجید نے اہلِ کتاب خواتین کے ساتھ نکاح کی اجازت دی۔ اس رشتے کی نوعیت بھی واضح کی۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک خاتون سے نکاح تو ہو سکتا ہے مگر خبردار اس سے محبت اور مودت کا تعلق نہیں رکھنا؟ بلاشبہ اللہ کا کلام ایسے تضادات سے پاک ہے۔
دوسری بات: ہولی کی ایک تقریب میں مسلمان طالب علموں کی شرکت سے‘ اسلام کو خطرہ کیسے لاحق ہو گیا؟ اسلام اللہ کا دین ہے جس کی حفاظت انسانی کاوش کی محتاج نہیں۔ قرآنِ مجید کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود اٹھایا ہے۔ یہ کسی آدمی کے لیے سعادت ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے دین کی کوئی خدمت لے لے۔ یہ خیال ہی کمزوری کا اظہار ہے کہ ہولی یا کسی دوسرے مذہب کی تقریب میں مسلمانوں کی شرکت سے اسلام کو کوئی خطرہ پیش آ سکتا ہے۔ اس تقریب میں شریک مسلمان طلبہ و طالبات اگر کوئی ایسی حرکت کرتے ہیں‘ جسے خلافِ اسلام کہا جا سکتا ہے تو انہیں اچھے اسلوب میں متنبہ کیا جا سکتا ہے۔ ہمارا کام بس اتنا ہے۔ ہم کسی مذہب کے پیرو کاروں کو کیسے روک سکتے ہیں کہ وہ کوئی تہوار نہ منائیں؟
تیسری بات: یونیورسٹی سطح کے طلبہ و طالبات کو طفلِ مکتب نہیں سمجھنا چاہیے۔ بچے کو سمجھانے کی عمر پانچ چھ سال تک ہی ہے۔ اسی عمر میں شخصیت بنتی ہے۔ یہ والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ اس عمر میں انہیں مذہبی اور سماجی اخلاقیات کی تعلیم دیں۔ یونیورسٹی اخلاق اور آداب سکھانے کے لیے نہیں ہوتی۔ یہ علم تخلیق کرنے کے ادارے ہیں۔ ہر ادارے کی طرح‘ یہاں بھی ڈسپلن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس بات کا لحاظ رکھا جانا چاہیے کہ کوئی بات ایسی نہ ہو جو تعلیمی ماحول کو خراب کر نے کا باعث ہو۔ اسی طرح ہماری مذہبی اور سماجی اخلاقیات ہیں‘ جن کا احترام ہونا چاہیے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں جو یونیورسٹیوں کے ساتھ خاص ہو۔ اس کا ہر جگہ اہتمام ہونا چاہیے۔ ہولی میں شرکت سے کوئی مذہبی یا اخلاقی قدر مجروح نہیں ہوتی۔ اس کا کوئی تعلق تشبہ سے بھی نہیں ہے۔
چوتھی بات: ہم میں سے ہر کوئی یہ حق رکھتا ہے کہ وہ دین کو اس طرح بیان کرے جس طرح کہ اس نے سمجھا۔ وہ اپنی دلیل پیش کرے۔ اس کے بعد اس کا کردار ختم ہو جاتا ہے۔ دوسروں کو زبردستی اپنی تعبیر کا پابند بنانا غیرمذہبی رویہ ہے۔ آپ نے اپنی بات کہہ دی۔ درد مندی کا اظہار کر دیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے۔ آپ کا کام ختم ہوا۔ یہ کہنا کہ اسلام خطرے میں ہے اور حکومت نے اسے نہ روکا تو ہمارا اخلاقی نظام تباہ ہو جائے گا... یہ سب مبالغہ آرائی ہے۔
مذہبی حساسیت کے نام پر ہمارے ہاں جن رویوں کا مظاہرہ کیا جاتا ہے‘ مجھے خیال ہوتا ہے کہ وہ مذہب کی درست تفہیم پر مبنی ہیں نہ سماج کی۔ یہ مذہب اور سماج‘ دونوں سے نادان دوستی ہے۔ ایک داعی کا کردار کیا ہے؟ عالم اور مصلح کا دائرہ عمل کیا ہے؟ صحافی کو کیا کرنا چاہیے؟ ریاست کا مذہبی کردار کیا ہونا چاہیے؟ سماج کو کس طرح ایک نظامِ اقدار پر کھڑا کیا جا سکتا ہے؟ سماجی نفسیات کیا ہوتی ہے اور دعوتِ دین میں اس کا کیا کردار ہے؟ یہ سوالات ہمارے ہاں کبھی سنجیدہ مطالعے کا موضوع نہیں بنے۔
ہمارے دینی لٹریچر میں بہت کم کتابیں ملیں گی جن میں ایک مسلمان معاشرے کے اندر بین المسلمین دعوت کو موضوع بنایا گیا ہو۔ تواصی باالحق اور تواصی بالصبر کا مفہوم سمجھایا گیا ہو۔ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ نئی نسل فکری اور ذہنی اعتبار سے کہاں کھڑی ہے۔ اسے دین سکھانے کا یہ کوئی طریقہ نہیں کہ اسے بالجبر ہولی کے تہوار میں شرکت سے روک دیا جائے۔ اگر کسی کا خیال ہے کہ اس طرح نئی نسل مسلمان ہو جائے گی اور اسلام خطرے سے نکل آئے گا تو یہ ایک خام خیال ہے۔
اسلام اللہ کی ہدایت ہے۔ یہ انسان کے فطری مطالبے کا جواب ہے۔ یہ اس کی ضرورت ہے۔ نئی نسل کو یہ بات کیسے سمجھائی جائے؟ کس آتشِ نمرود میں اس نسل کو پھینک دیا گیا ہے؟ ان سوالات کو مخاطب بنائے بغیر ہم جو کچھ کرتے ہیں‘ یہ اکثر ہمارے جذبات اور تعصبات کا اظہار ہوتا ہے۔ ہم اسے مذہبی حساسیت قرار دیتے ہیں۔ جو نسل پچھلی تین دہائیوں میں پروان چڑھی ہے‘ اس کی ایک نفسیاتی ساخت ہے۔ اس نے اسلام کی جو تعبیرات اپنے ارد گرد دیکھیں‘ اس کے ذہن پر نقش ہیں۔ اس نسل کو بالجبر ہولی کی تقریب میں شرکت سے روک کر مذہبی نہیں بنایا جا سکتا۔ اس طرح ہم اسے مذہب سے مزید دور کر رہے ہیں۔ جو نسل انکارِ مذہب کے دہانے پر کھڑی ہے‘ اسے اہلِ مذہب کی مدد چاہیے۔ انہیں دین اس طرح سمجھائیں جیسے ان کی ذہنی ساخت مطالبہ کرتی ہے۔ کیا ہم اس کی استطاعت رکھتے ہیں؟ یہ ہے وہ اصل سوال جو اہلِ مذہب کی توجہ چاہتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved