اتوارکے روز پشاور میں ایک انتہائی المناک حادثہ رونما ہوا ۔ جس کی وجہ سے پور ی قوم کے سر شرم سے جھک گئے ۔ پشاور میں قصہ خوانی بازار کے قریب کو ہاٹی گیٹ پر واقع چرچ میں خود کش حملوں کے نتیجے میں 83افراد ہلاک ہوگئے جن میں سے 34خواتین اور 11بچے تھے ۔ اس سانحے کی تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے قائدین نے بھر پور مذمت کی۔ کیتھولک عیسائیوں کے مذہبی سربراہ پوپ فرانسس سمیت کئی عالمی راہنمائوں نے بھی اس سانحے پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیا ۔ بعض عناصر اس واقعے کو انتہاپسندی کے ساتھ جوڑ کر اسلام کو بدنام کر نا چاہتے ہیں ۔ایسے عناصر کے ذہن میں یہ بات ہونی چاہیے کہ اسلام اصولی طور پر ہر قسم کی دہشت گردی کا مخالف ہے اور قرآن مجید کی سورت مائدہ میں اللہ نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ۔قرآن وسنت کے مطابق ایک مسلمان ریاست میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو ان کے عقائد اور نظریا ت کے مطابق مذہبی رسومات ادا کرنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے ۔ اہل کتاب کے ساتھ دستر خواں پر بیٹھ کر کھانا کھانا بشر طیکہ اس میں کوئی حرام چیز موجود نہ ہوہر اعتبار سے درست ہے ۔اہل کتاب کی پاک دامن عورتوں کے ساتھ نکاح کرنا بھی جائزہے ۔رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں مدینہ منورہ کے دفاع کے لیے مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ باقاعدہ معاہدہ کیا تھا جس کو میثاق ِمدینہ کہا جاتا ہے ۔یہ معاہدہ تا قیامت اسلامی ریاست میں بسنے والے مسلمانوں اور اقلیتوں کے درمیان اشتراک عمل کو فروغ دینے کے لیے ایک آئینی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے ۔ پاکستان کے تمام مذہبی حلقے اسلام کی آفاقی تعلیمات کی روشنی میں اقلیتوں کے جان ومال کے تحفظ کے پابند ہیں اور اقلیتوں کے خلاف کوئی بھی ایسا قدم جس کا مقصد ان کو کسی بھی اعتبار سے ہراساں کرنا ہو ہر اعتبار سے نا قابل قبول ہے ۔ پاکستان کی مسیحی برادری عمومی طور پر پُرامن ہے اور ان کی غالب اکثریت ملک کی وفادار ہے ۔ان کی وجہ سے کبھی بھی ریاست میں انتشار پیدا نہیں ہوا ۔اس لیے بحیثیت قوم ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ دکھ اور کرب کے ان لمحات میں ان کا بھرپورساتھ دیں او ر ان کے زخموںپرمر ہم رکھیں اور ان کی خود اعتمادی کو بحال کر نے کے لیے اپنا کردار ادا کریں ۔مسیحی برادری کو بھی اس بات کو ضرور ذہن نشین کرنا چاہیے کہ اس سانحے میں ملوث افراد پوری قوم کے نمائندہ نہیں تھے بلکہ سر دست تو یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ اس سانحے کے ذمہ داران پاکستانی تھے یا غیر ملکی ؟وزیر داخلہ کے تازہ ترین بیان کے مطابق جس گروہ نے حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے اس گروہ کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے ۔مسیحی برادری کو اس بات کوبھی سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں ان کے گرجا گھر اور ان کے احاطوں میں قائم کردہ انگلش میڈیم سکول موجود ہیں ۔مسلمان بالعموم ان گرجا گھروں کے خلاف کسی منفی طرز عمل کا مظاہرہ نہیں کرتے اور نہ ہی کبھی مسیحیوں کو ان گرجا گھروں میں آنے جانے سے روکا گیا ہے بلکہ متمول مسلمان گھرانوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان بچوں کی بڑی تعداد چرچ سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ اس کے برعکس کبھی بھی کسی غیر مسلم نے اپنے بچوں کو مسلمان مدارس میں داخل نہیں کروایااور نہ ہی ان سے کبھی اس بات کا تقاضا کیا گیا ۔ چرچ پر حالیہ حملے دہشت گردی کے انہیں واقعات کی کڑی ہیں جن کی روک تھام کے لیے گزشتہ اور موجودہ حکومت نے کبھی بھی موثر حکمت عملی نہیں اپنائی۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران دہشت گردی کے سینکڑوں واقعات رونما ہو چکے ہیں ۔ہر واقعہ کے بعد حکومت مجرموں کو پکڑنے کا اعلان کرتی ہے لیکن چند روز گزرنے کے بعد اپنی ذمہ دا ری بھول جاتی ہے۔ ایک واقعہ کا زخم ابھی مندمل نہیں ہوتا کوئی اور واقعہ رونما ہوجاتا ہے ۔عوامی احتجاج ،اجتماعات ،جلسوں ،ریلیوں ،اداریوں اور کالموں کے ذریعے حکومت کی توجہ امن وامان کے قیام کی طرف مبذول کروائی جاتی ہے لیکن بوجوہ حکومتی اعلانات اور عزائم الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی بریکنگ نیوز اور سرخیوں تک محدود رہ جاتے ہیں او ر عملی طور حالات بہتر ہونے کی بجائے دن بدن ابتر ہوتے جارہے ہیں ۔ اس قسم کے سانحے کے بعد عام طور پر تجزیہ کرنے میںبھی جلد بازی کی جاتی ہے اور واقعات کی ذمہ داری بغیر کسی چھان بین کے کسی نہ کسی کالعدم تنظیم پر ڈال کرحکومت اور صحافیوں کی بڑی تعداد اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہوجاتی ہے۔اس جلد بازی کے نتائج مثبت نہیں ہوتے ۔یہ رویہ انتشار پھیلانے کا سبب اور ملکی سلامتی کے لیے انتہائی مہلک ہے ۔مکمل چھان بین کے بغیر کسی گروہ پر الزام لگانا بد اعتمادی کو فروغ دینے کا سبب بنتا ہے ۔قرآن مجید کی سورت حجرات کے مطابق تحقیق کے بغیر کہی گئی بات دشمنی پھیلانے کا سبب اور بعد میں بات کرنے والے کے لیے شرمندگی کا باعث بنتی ہے ۔ اگرچہ پشاور کا سانحہ ہر اعتبار سے قابل مذمت ہے ۔اس کے ذمہ دار یقینا قرار ِواقعی سزا کے مستحق ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی بھی سانحے کی تحقیق کیے بغیر ہنگامی طور پر کسی بھی گروہ کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے ۔ماضی میں طاقت کے غلط استعمال کی وجہ سے ہم اپنے مشرقی بازو سے محروم ہوچکے ہیں اور بلوچستان میں علیحدگی پسند عناصر کو ایک جواز فراہم کرچکے ہیں ۔ہم مزید صدمات کے متحمل نہیں ہو سکتے‘ اس لیے ہمیں جذبات سے نہیں بلکہ عقل سے کام لینا ہوگا ۔اس قسم کے واقعات یقینا ہر شخص کو متاثر کرتے ہیں لیکن جلد بازی میں دیئے جانے والے بیانات کئی مرتبہ پچھتاوے کا سبب بن جاتے ہیں ۔وزیر اعظم پاکستان بھی اس شرمناک سانحے سے بہت متاثر ہوئے۔ یہاں تک انہوں نے اچانک ’’اے پی سی‘‘کے متفقہ فیصلے پر نا امیدی کا اظہار کردیا ۔یہ رویہ مستقبل میں امن کے قیام کے لیے موزوں نہیں ہے۔ ریاست کے تمام ذمہ داران کو اس سلسلے میں پھونک پھونک کر قدم اُٹھانا چاہیے تاکہ ریاست میں انتشا رکے خاتمے کے لیے کیے جانے والے فیصلوں پر اچھے طریقے سے عمل کیا جا سکے۔ ماضی میں قیا م امن کے لیے کی جانے کوششوں کو صرف سوات میں لگنے والے کوڑوں کی ایک غیر مصدقہ فلم چلاکرسبوتاژ کردیا گیا اور اب دوبارہ چرچ پر ہونے والے حملے کو بنیا د بن کر ممکنہ امن مذاکرات کو ناکام بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔اس موقعہ پر حکام بالا کی خدمت میں عرض ہے کہ سانحہ پشاور کے ذمہ داران کو عبرتناک سزا ملنی چاہیے ،لیکن ملک کے مفاد میں ہونے والے امن مذاکرات کو کسی بھی سازش کی بھینٹ نہیں چڑھنے دینا چاہیے ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved