دنیا کے میدان میں زندگی کا میلہ لگا ہوا ہے۔ میلے میں بہت کچھ ہوتا ہے۔ دنیا کے میلے میں بھی تو بہت کچھ ہے۔ زندگی کے دامن میں کیا ہے اِس کا اندازہ لگانے سے کہیں زیادہ مشکل بات یہ سوچنا ہے کہ اِس میلے میں کیا نہیں ہے۔ اِس کی رنگا رنگی ماند پڑنے کا نام نہیں لیتی۔ زندگی کے رنگ اگر پھیکے پڑتے ہیں تو صرف انفرادی سطح پر۔
کوئی اگر یہ سمجھتا ہے کہ وہ دنیا کے لیے ناگزیر ہے تو جاکر کسی بھی قبرستان پر ایک نظر ڈالے۔ قبور میں سونے والے بھی یہی سمجھتے تھے کہ وہ ناگزیر ہیں اور دنیا اُن کے بغیر چل نہیں پائے گی۔ دنیا اُن کے بغیر بھی چل رہی ہے اور خوب چل رہی ہے۔ میلے کی رونق ماند پڑنے کا نام نہیں لیتی۔ رابرٹ فراسٹ نے خوب کہا ہے ''زندگی کے بارے میں جو کچھ بھی میں نے سیکھا ہے اُسے صرف چار الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے: سب چلتا رہتا ہے!‘‘ دنیا کی بے ثباتی کے بارے میں ہمارے شعرا نے بہت کچھ کہا ہے، ادیبوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ اب بھی لکھا جارہا ہے۔ دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی ناگزیریت کے حوالے سے ہمارے ادب میں جواہر پارے بکھرے پڑے ہیں۔ اگلے وقتوں میں کسی نے کہا تھا ؎
یہ چمن یونہی رہے گا اور سارے ہی پرند
اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اُڑ جائیں گے
یہی ہوتا آیا ہے اور یہی ہوتا رہے گا۔ میلے کا چلتے رہنا وہ حقیقت ہے جو خوش آئند بھی ہے اور المناک بھی۔ جس کے معاملات اچھے چل رہے ہوں اُس کے لیے یہ سب کچھ بہت خوش کن ہے۔ جس کے حالات بُرے ہوں اُس کا دل اِس میلے کی رونقیں دیکھ کر بُجھ سا جاتا ہے۔ جب دل بجھا ہوا ہو تو انسان چاہتا ہے کہ ساری رونقیں ماند پڑجائیں‘ سب کچھ بجھ جائے۔ خوشی میں سب کو خوش دیکھنا اور غم میں سب غمگین دیکھنے کی خواہش بالکل فطری ہے۔ اور ہمیں اپنی فطرت کے اس پہلو کے خلاف ہی بغاوت کرنی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ انسان سب کچھ اپنی مرضی کے سانچے کے مطابق چاہتا ہے۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ ہر انسان اپنی سوچ کے مطابق چل رہا ہوتا ہے۔ آپ بھی اپنے حساب کتاب کے دائرے میں گھومتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں۔ دوسروں کا بھی یہی حال ہے۔ ایسے میں دنیا کسی کی مرضی کے تابع کیونکر ہوسکتی ہے؟ زندگی کے میلے کی رونقیں کسی ایک فرد یا چھوٹے سے گروہ کی پیدا کردہ نہیں ہوا کرتیں۔ ہم سب زندگی بھر جو کچھ کرتے ہیں وہ جمع ہوکر اِس دنیا کے میلے کی رونق میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔ یہ عمل چونکہ کسی مقام پر رُکتا نہیں اس لیے دنیا کے میلے کی رونق بھی کبھی ماند نہیں پڑتی۔
رابرٹ فراسٹ کی بات میں کتنا دم ہے! ہم زندگی بھر پتا نہیں کیا کیا سیکھتے ہیں۔ ڈھنگ سے جینے کے لیے بہت کچھ سیکھنا ہی پڑتا ہے۔ سیکھنا ناگزیر ہے اور اُس سے زیادہ ناگزیر ہے سیکھے ہوئے کو بروئے کار لانا۔ اگر کسی نے بہت کچھ سیکھا اور اُسے بروئے کار لانے سے گریزاں رہا تو اِسے حماقت درجۂ اول قرار دیا جائے گا۔ انسان کچھ بھی صرف اس لیے سیکھتا ہے کہ زندگی اَپ ڈیٹ اور اَپ گریڈ ہو۔ اگر یہ مقصد حاصل نہ ہو تو سمجھ لیجیے ساری محنت خاک میں مل گئی۔ اس حقیقت کو ہضم کرنے میں کم ہی لوگ کامیاب ہو پاتے ہیں کہ اِس دنیا میں بہت کم ہے جو ہماری مرضی کا ہے۔ مفادات کا تصادم ہمارے امکانات کو محدود تر کرنے پر تُلا رہتا ہے۔ آپ خواہ کہیں ہوں‘ مسابقت دم نہیں توڑتی۔ آپ کی راہ میں دیوار بننے والے موجود ہی رہتے ہیں۔ یہ چونکہ مرتے دم تک کا معاملہ ہے اس لیے انسان کو اِس کی تفہیم پر غور کرنا چاہیے۔
ہم دنیا بھر کے معاملات کو اپنی خوشی اور اپنے غم کے آئینے میں دیکھنے کے متمنی رہتے ہیں۔ ہم خوش ہوں تو سب کچھ اچھا لگتا ہے۔ ایسے میں ہم چاہتے ہیں کہ میلے کی رونق بڑھے تاکہ ہمارا لطف بھی دوبالا ہو اور جب ہم رنجیدہ ہوتے ہیں تب پورا ماحول یکسر اجنبی لگ رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں ہماری غیر محسوس خواہش ہوتی ہے کہ دوسروں کے لیے بھی خوشیوں کا سامان نہ ہو۔ کچھ لوگوں کی سوچ یہ ہوجاتی ہے کہ میرے گھر کو آگ لگی ہے تو ساری دنیا کو آگ میں جھونک دینا چاہیے! یا یہ کہ میں پریشان ہوں تو دوسرے کیوں پریشان نہیں!
میلہ چلتا رہتا ہے۔ اِسے چلتے ہی رہنا ہے۔ ہمیں جو کچھ بھی کرنا ہے اِس چلتے ہوئے میلے ہی میں کرنا ہے۔ انفرادی سطح پر انسان اس امر کا خواہش مند رہتا ہے کہ اگر اُس کی راہ میں مشکلات حائل ہوں تو لوگ متوجہ ہوں اور اُس سے محض ہمدردی کا اظہار نہ کریں بلکہ معاملات کو اُس کی مرضی کے مطابق نمٹائیں۔ یہ خواہش سراسر بے بنیاد ہے۔ سب اپنے اپنے حساب کتاب کے دائرے میں رہتے ہوئے جی رہے ہوتے ہیں۔ سب اس دنیا کو اپنی اپنی خواہشات کے آئینے میں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ وہ دنیا کو اپنی مرضی کی دیکھنا چاہتے ہیں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو اِتنی خواہش ضرور ہوتی ہے کہ دنیا اُنہیں اُن کی اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کے عمل میں قبول کرے۔
ہم عمومی سطح پر یعنی یومیہ معمولات کے دوران اِس بنیادی زمینی حقیقت کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ ہمیں اپنے ماحول میں جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے وہ اِس ماحول میں موجود انسانوں کی خواہشات، امیدوں اور افکار و اعمال کا نتیجہ ہے۔ آپ بھی اِس ماحول میں اپنی تمناؤں، امیدوں اور افکار و اعمال کے ساتھ موجود ہیں۔ آپ بھی بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اِس میلے کی رونق بڑھانے میں آپ کا بھی کوئی نہ کوئی کردار تو ہونا ہی چاہیے۔ اب اگر آپ یہ سوچیں کہ سب کچھ یا بہت کچھ آپ کی مرضی کے تابع ہو تو اِسے آپ کی سادہ لوحی سے تعبیر کیا جائے گا۔ اگر آپ اپنی اس خواہش پر کچھ زیادہ ڈٹ جائیں تو اِسے ہٹ دھرمی کہا جائے گا۔ ایسی ہٹ دھرمی کسی کام کی نہیں۔ آپ کو جو کچھ بھی کہنا اور کرنا ہے معقولیت کے دائرے میں رہتے ہوئے کہنا اور کرنا ہے۔ دنیا کے میلے کی رونق بڑھانے میں کوئی بھی شخص اپنا کردار ڈھنگ سے اُسی وقت ادا کرسکتا ہے جب وہ اس حقیقت کو تسلیم کرلے کہ وہ تنِ تنہا کچھ نہیں۔ اُسے دوسروں کے افکار و اعمال سے مستفید ہونا ہے اور دوسروں کو مستفید کرنا ہے۔ دنیا کا کاروبار اِسی طور چلتا آیا ہے۔ قدرت نے انسانوں کو مل جل کر رہنے کے لیے خلق کیا ہے۔ سب اپنے اپنے مقام پر رہتے ہوئے مصروفِ فکر و عمل رہتے ہیں تو اِس دنیا کے میلے کی رونق میں اضافہ ہوتا ہے۔ کوئی اس گمان میں نہ رہے کہ وہ نہیں ہوگا تو دنیا کے میلے کی رونق ماند پڑ جائے گی یا یہ کہ جب وہ نہیں تھا تب دنیا میں کچھ دلکشی نہ تھی۔ کوئی بھی ناگزیر تھا نہ ہے۔ اور کبھی ہو بھی نہیں سکتا۔ سب کو اپنے اپنے حصے کا کام کرنا ہے اور دنیا سے جانا ہے۔ کسی کے جانے سے دنیا کو تھوڑا سا فرق تو پڑسکتا ہے مگر ایسا اور اِتنا نہیں کہ سب کچھ رُک جائے، زندگی کی نبض تھم جائے۔
آپ کا وجود اِس بات کا بیّن ثبوت و مظہر ہے کہ آپ قدرت کی سکیم کا حصہ تھے اور ہیں۔ قدرت نے چاہا تو آپ کو وجود ملا۔ آپ کا خلق کیا جانا اِس بات کی نمایاں علامت ہے کہ قدرت کو اس دنیا کے میلے کی رونق بڑھانا تھی۔ اب آپ کو کچھ ایسا کرنا ہے کہ آپ کے وجود کی مقصدیت نصف النہار کے سورج کی طرح عیاں ہو۔ آپ کو یہ حقیقت ہر وقت ذہن نشین رکھنی ہے کہ دنیا اپنے مزاج کے مطابق چلتی رہے گی۔ آپ کی مرضی آپ کی ذات تک ہے۔ اِس سے آگے کچھ بھی نہیں۔ اگر آپ کو دنیا کے ساتھ اپنا تال میل بارآور بنانا ہے تو اپنی انا کو بالائے طاق رکھنا ہے، بے جا خواہشات کو لگام دینا ہے۔ یہ سب کچھ صرف اُس وقت ہوسکتا ہے جب آپ حقیقت پسندی کو بنیادی وصف کے طور پر اپنائیں۔ ہر زمینی حقیقت کو کھلے دل سے قبول کرنے ہی پر آپ دنیا کے میلے کی رونق بڑھا پائیں گے۔ میلہ تو چلتا ہی رہے گا۔ آپ کو تھوڑے تھوڑے وقفے سے ٹھہر کر اپنا جائزہ لینا ہے اور کچھ کرنے کا ذہن بنانا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved