ہم کیا ہیں اور کیوں ہیں؟ یہ دونوں سوال ہمیشہ غور طلب رہے ہیں۔ انسان نے ہر عہد میں اپنے حوالے سے بہت کچھ سوچا ہے۔ سوچنا لازم ہے کیونکہ ایسا کیے بغیر ہم اپنے بارے میں کچھ زیادہ جان نہیں پاتے اور اپنے آپ کو کماحقہٗ سمجھ بھی نہیں پاتے۔ زندگی جیسی نعمت کے بارے میں بے نیازی پر مبنی رویہ اپنایا نہیں جاسکتا۔ ہمیں مرتے دم تک زندگی کا حق ادا کرنے کے بارے میں سوچنا بھی ہے اور کچھ نہ کچھ کرنا بھی ہے۔ اس معاملے میں کسی کے لیے قدرت کی طرف سے کوئی رعایت نہیں۔ ہر انسان کے لیے ناگزیر ہے کہ اپنے بارے میں سوچے، اپنے مقام کا تعین کرے، اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو محسوس کرے۔
زندگی کے بارے میں سوچیے تو سب سے پہلے ذہن میں یہ خیال ابھرتا ہے کہ اِس کا مقصد کیا ہونا چاہیے۔ زندگی کسی واضح مقصد کے تحت ہی بسر کی جاسکتی ہے۔ ہمیں اپنے ماحول میں ایسے بہت سے لوگ دکھائی دیتے ہیں جو بظاہر کسی شعوری خواہش و کوشش کے بغیر یعنی کوئی واضح مقصد متعین کیے بغیر زندگی بسر کرتے ہیں اور اِس کی قیمت بھی چُکاتے رہتے ہیں۔ زندگی اگر کسی مقصد کے تحت بسر کی جائے تو ایک خاص قیمت چُکانا ہی پڑتی ہے، لیکن اگر کوئی مقصد طے نہ کیا جائے تو چُکائی جانے والی قیمت کہیں زیادہ ہوتی ہے!
کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی کسی واضح مقصد کے بغیر جیے اور مکمل اطمینانِ قلب کے ساتھ اِس دنیا سے رخصت ہو؟ ایسا نہیں ہوسکتا! جو لوگ زندگی کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوتے وہ اپنی خامیوں، غلطیوں اور کوتاہیوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں مگر اصلاحِ احوال کی طرف اس لیے نہیں آتے کہ اِس کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ لوگ ہر اُس تبدیلی سے دامن چھڑاتے پھرتے ہیں جس کے لیے بہت زیادہ محنت کرنا پڑے۔
زندگی کا مقصد کیا ہونا چاہیے؟ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ویسے اکثریت کے نزدیک زندگی کا بنیادی مقصد صرف کھانا پینا ہے۔ وہ دن رات زیادہ سے زیادہ اور اچھے سے اچھا کھانے پینے کے فراق میں رہتے ہیں۔ اپنی آمدن کا بڑا حصہ وہ کھانے پینے پر صرف کرتے ہیں۔ زہے نصیب اگر کچھ بچ رہے تو کپڑوں پر خرچ ہو جاتا ہے۔ وہ بس اِسی کو زندگی اور زندگی کا مقصد سمجھ کر خوش رہتے ہیں۔ اس نظریۂ حیات کے نتیجے میں انسان کو کیا مل سکتا ہے اِس کے بارے میں کچھ بتانے اور تصریح کے مرحلے سے گزرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے لوگ سطح پر رہتے ہوئے جیتے ہیں، کبھی زندگی کے سمندر میں ڈبکی لگانے کا سوچتے بھی نہیں۔ ایسے میں‘ ظاہر ہے کہ اُنہیں وہ خزانے بھی نہیں مل پاتے جو سمندر کے اندر پائے جاتے ہیں۔ موتی غوّاص کے لیے ہوتے ہیں۔
بہت سوں کا یہ حال ہے کہ اُن کے نزدیک زندگی کا واضح مقصد صرف اپنے وجود کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کرنا ہے۔ اس مقصد کا حصول یقینی بنانے کے لیے وہ دن رات صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں اور جب انسان صرف اپنے بارے میں سوچتا ہے تو دوسروں کا بھلا چاہنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ ایسے لوگ صرف اس بات پر توجہ دیتے ہیں کہ اُن کی اپنی آمدن بڑھتی رہے، امکانات روشن سے روشن تر ہوتے جائیں۔ اُنہیں اِس بات سے بظاہر کچھ غرض نہیں ہوتی کہ اُن کی ذات سے کسی کو کچھ فائدہ بھی پہنچنا چاہیے۔ وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ زندگی دوسروں کے بارے میں سوچنے اور اُن کا معیارِ زندگی بلند کرنے کے لیے نہیں ہوتی۔ اب یہ بتانے کی ضرورت تو ہے ہی نہیں کہ ایسے لوگ بھی بالآخر پریشانی ہی سے دوچار ہوتے ہیں۔
بہت سوں کو آپ اس حال میں دیکھیں گے کہ وہ دن رات صرف لہو و لعب کے طلب گار رہتے ہیں۔ اُنہیں ہر معاملے میں، کسی جواز کے بغیر، اُتھلے پانیوں جیسی مسرّت درکار ہوتی ہے۔ بھونڈی کامیڈی اُن کی ذہنی تسکین کے لیے کافی ہوتی ہے۔ ایسے لوگ لچر فلمیں دیکھتے ہیں، پست نوعیت کی موسیقی سے محظوظ ہو رہتے ہیں۔ گفتگو بھی لایعنی معاملات پر محیط ہوتی ہے یعنی کسی بھی غیر متعلق موضوع پر کچھ بھی بول کر اپنا وقت ضائع کرنا اُن کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔ اُن کی زندگی کا مقصد بظاہر صرف یہ ہوتا ہے کہ جیسے تیسے زیادہ سے زیادہ ہنسا جائے اور ہر بات اور ہر معاملے کے باطن سے کسی نہ کسی طور تمسخر و استہزا کا پہلو برآمد کیا جائے۔ ایسے لوگ ہر معاملے میں جھومنا اور تھرکنا چاہتے ہیں۔ اِن کی زندگی صرف اِس مقصد کے لیے وقف دکھائی دیتی ہے کہ کسی نہ کسی طور زیادہ سے زیادہ سطحی مسرّت حاصل کی جائے اور اپنے آپ کو اُس میں کھپادیا جائے۔ اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اِس طور جینے والے کس قدر کھوکھلے ہوتے ہیں۔ اِن کی اقدار ہوتی ہیں نہ نظریات۔ یہ ذہن کو بہ رُوئے کار لائے بغیر زندگی بسر کرتے ہیں اور اِسی حالت میں دنیا سے چلے جاتے ہیں۔یعنی منشی امیر اللہ تسلیم کے بقول:
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یونہی تمام ہوتی ہے
کسی بھی مقصد کے بغیر گزاری جانے والی زندگی یونہی تمام ہوتی ہے۔ اہلِ تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کے بارے میں ایک دنیا جانتی ہے کہ وہ غیر معمولی ذہانت کے حامل دانشور ہیں۔ علم و فن اور تہذیب سے متعلق عالمی شہرت یافتہ شخصیات کے ساتھ اُن کے متعدد مکالمے عالمگیر شہرت حاصل کرچکے ہیں۔ وہ زندگی بھر چند ایسے معاملات پر بہت زور دیتے آئے ہیں جن کا تعلق شخصیت کی تعمیر و تطہیر سے ہے۔ اخلاقی اقدار کے بارے میں اُن کی سوچ بہت ٹھوس اور نمایاں ہے۔ اخلاقی اقدار کی بلندی اُن کے نزدیک زندگی کا حاصل ہے۔ دلائی لامہ چونکہ روحانی پیشوا ہیں اِس لیے اُن کی باتوں میں روحانی تسکین کا سامان نمایاں حد تک پایا گیا ہے۔ وہ سادہ زندگی بسر کرتے ہیں اور اپنے معتقدین کو بھی سادگی سے جینے کی تلقین کرتے ہیں۔ دلائی لامہ کہتے ہیں کہ زندگی کے بہت سے مقاصد ہوسکتے ہیں اور ہوتے ہیں؛ تاہم سب سے نمایاں بنیادی مقصد مسرّت سے ہم کنار رہنا ہے۔ اور مسرّت بھی وہ جو اصل ہو‘ کھوکھلی نہ ہو۔ انسان کو خوش خوش جینا چاہیے۔ دلائی لامہ زندگی کو خوش رہنے کے فن سے تعبیر کرتے ہیں۔ اُن کے نزدیک ہر انسان پر لازم ہے کہ کچھ نہ کچھ ایسا کرتا رہے جس کے نتیجے میں دل و دماغ پر سے بوجھ کم ہو، روح فرحت محسوس کرے یعنی مجموعی طور پر شاداں و فرحاں رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی راہ ہموار ہو۔
جس کو خوش رہنے کے سامان میسر سب ہوں
اس کو خوش رہنا بھی آئے یہ ضروری تو نہیں
کیا ہر کوئی خوش نہیں رہ سکتا؟ کیا خوش رہنے کی کوشش کرنے میں کوئی قباحت ہے؟ کیا لازم ہے کہ انسان الم پسند مزاج کا ہو؟ ہم زندگی بھر طرح طرح کی الجھنوں سے دوچار رہتے ہیں۔ ہماری بیشتر الجھنیں بظاہر ہمارے افکار و اعمال کا نتیجہ نہیں ہوتیں مگر پوری دیانت اور غیر جانبداری سے غور کیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ بہت حد تک ہمارا ہی کیا دھرا ہوتا ہے۔ ہماری چھوٹی چھوٹی کوتاہیاں جمع ہوکر بڑی مصیبت میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ اگر ہم اپنے معاملات کو نمٹانے پر خاطر خواہ توجہ دیں اور بے حواسی سے بچیں تو بہت سی خرابیوں سے بچا جاسکتا ہے۔
زندگی اُسی وقت قابلِ ذکر ٹھہرتی ہے جب اُس کی کوئی واضح سمت اور واضح مقصد ہو۔ مقصد کا تعین کیے بغیر گزاری جانے والی زندگی بظاہر کسی کام کی نہیں ہوتی کیونکہ ایسی حالت میں انسان اپنی صلاحیت و سکت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے کے قابل نہیں ہو پاتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved