''9مئی کے واقعات نے ثابت کیا کہ جو کام دشمن نہ کر سکا‘ چند شرپسندوں نے کر دکھایا۔ 9 مئی کا سانحہ پاکستان کے خلاف بہت بڑی سازش تھی‘ اس سازش کیلئے سوشل میڈیا کا سہارا لے کر جھوٹ کو پھیلایا گیا۔ اب تک کی تحقیقات میں بہت سے شواہد مل چکے اور مل رہے ہیں۔ افواجِ پاکستان آئے روز عظیم شہدا کے جنازوں کو کندھا دے رہی ہیں۔ 9مئی کو شہدائے پاکستان کے خاندانوں کی دل آزاری کی گئی‘ شہدا کے خاندان آج کڑے سوال کر رہے ہیں کہ ملوث افراد کب قانون کے کٹہرے میں لائے جائیں گے؟ آرمی کے تمام رینکس سوال اٹھا رہے ہیں کہ ہمارے شہدا کی یادگاروں کی اس طرح بے حرمتی ہو رہی ہے تو ہمیں جانیں قربان کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ سانحے کی منصوبہ بندی کئی مہینوں سے چل رہی تھی‘ شرانگیز بیانیے سے لوگوں کی ذہن سازی کی گئی۔افواجِ پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ افواج کو کسی صورت اپنے عوام سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ ایک سال سے سیاسی مقاصد اور اقتدار کی ہوس میں جھوٹا پروپیگنڈا چلایا گیا۔ فوج نے اپنی روایات کے مطابق خود احتسابی مرحلے کو مکمل کر لیا ہے۔ مفصل احتسابی عمل کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ سکیورٹی میں ناکامی کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔ فوجی تنصیبات اور جی ایچ کیو کے سکیورٹی کے ذمہ داران کے خلاف کارروائیاں کی گئی ہیں۔ 3 میجرجنرل‘7 بریگیڈیئرز سمیت 15 افسران کیخلاف تادیبی کارروائی کی گئی اور ایک لیفٹیننٹ جنرل سمیت 3 افسران کو نوکری سے برخاست کیا گیا ہے۔ فوجی عدالتوں میں 102شر پسندوں کا ٹرائل کیا جا رہا ہے اور یہ جاری رہے گا‘ فوج میں خود احتسابی کا عمل بغیر کسی تفریق کے کیا جاتا ہے‘‘۔
یہ چند مندرجات ہیں جو ڈی جی آئی ایس پی آر نے سوموار کے روز اپنی پریس کانفرنس میں پیش کیے۔ میں نے اپنے قارئین کے سامنے اس پریس کانفرنس کے اہم پوائنٹس رکھ دیے ہیں۔ دیکھا جائے تو اس پریس کانفرنس میں غم و غصہ اور دکھ کا عنصر شامل ہے۔ ترجمان پاک فوج کا کہنا تھاکہ سانحہ 9 مئی کے شواہد سے واضح ہوا کہ اس کے پیچھے 3سے 4ماسٹر مائنڈز اور 10سے 12منصوبہ ساز تھے۔ ان کے یہ الفاظ ملاحظہ کیجئے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ''ایک سال سے سیاسی مقاصد اور اقتدار کی ہوس میں جھوٹا پروپیگنڈا چلایا گیا‘‘۔ اس کی گہرائی میں جانے کی ضرورت نہیں۔ وہ کون سی جماعت تھی جو گزشتہ سال عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں اقتدار سے الگ ہوئی تھی؟ سانحہ 9مئی کے بعد سب کچھ شیشے کی طرح صاف ہو گیا کہ پاکستان کو اندرونی سطح پرکمزور کرنے والے کون تھے؟ ایک سیاسی جماعت کی قیادت نے پہلے حاضر سروس اعلیٰ افسران کو تنقید کا نشانہ بنایا اور پھر پورا ادارہ اس تنقید کی زد میں آ گیا۔ اس بیانیے سے لوگ اپنے ہی اداروں کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ سوشل میڈیاکے ذریعے طرح طرح کا منفی پروپیگنڈا کیا گیا۔ فوج مخالف ٹرینڈز چلائے گئے۔ جس کا نتیجہ سانحہ 9مئی کی صورت میں نکلا۔ عالمی میڈیا میں اس واقعے کو منفی انداز میں پیش کیا گیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی یہ کہتے سنائی دیے کہ پاک فوج اور انہیں آمنے سامنے لانے کی کوشش کی گئی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ان کی طرف سے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے عوام اور پاک فوج کو آمنے سامنے لانے کی کوشش تھی۔
یہ پریس کانفرنس ایسے وقت میں ہوئی جب سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کے خلاف درخواست پر سماعت جاری تھی۔ اب یہ سوال اور بھی اہمیت کا حامل ہو گیا ہے کہ اس کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم بھی کیا جاتا ہے یا نہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اعلیٰ عدلیہ کوئی بھی ایسا فیصلہ نہیں دے گی جس سے یہ بحران مزید سنگین ہو جائے۔ اور بہت سے تجزیہ کاروں کے بقول عدالت کوئی فیصلہ دینے کے بجائے کچھ گائیڈ لائن دے دے گی۔ واقعہ کے ذمے داروں کو قانون کے کٹہرے میں نہ لایا گیا تو پھر اندرونی خطرات ملک کو کھوکھلا کرتے چلے جائیں گے‘ ایسی صورت میں بیرونی خطرات سے کیسے نبرد آزما ہوا جا سکتا ہے؟چند روز قبل وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ پاکستان کے خلاف جیوپالیٹکس ہو رہی ہے‘ اس بات سے قطع نظر کہ میں ڈار صاحب کی بہت سی باتوں سے متفق نہیں لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ پاکستان کے خلاف جیو پالیٹکس ہو رہی ہے جس کی تازہ مثال بھارت اور امریکا کا مشترکہ اعلامیہ ہے جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستان مصلحتاً کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی نہیں کرتا۔ وزیراعظم نریندر مودی اور امریکی صدر جوبائیڈن کی وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے بعد مشترکہ بیان جاری کیا گیا۔ جس میں سرحد پار دہشت گردی اور پراکسی گروہوں کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کی سرزمین دہشت گرد حملوں کیلئے استعمال نہ کی جائے۔ میں حیران ہوں کہ جوبائیڈن کو بھارت کی سرزمین مسلمانوں کے خلاف استعمال ہوتی ہوئی کیوں نظر نہیں آتی؟ جوبائیڈن کوکشمیر میں ہوتا ہوا ظلم کیوں نہیں نظر آتا؟ دہشت گردی پر امریکا کا دوہرا معیار کیوں ہے؟ بھارت معاشی اعتبار سے تگڑا ملک ہے‘ اس لیے امریکا کو اس میں موجود خامیاں نظر ہی نہیں آ رہیں۔ مفاد کی پٹی نے جوبائیڈن کی آنکھیں باندھ کر رکھی ہیں‘ اس لیے انہیں حقیقت نظر نہیں آرہی۔ امریکا پاکستان پر اپنا اثر ڈالنا چاہتا ہے۔ چین سے دوستی اس کو ہضم نہیں ہو رہی۔ چینی صدر کو شہباز شریف نے دورۂ پاکستان کی دعوت دی ہے جو انہوں نے قبول بھی کر لی ہے۔ چین ہمیں ڈیفالٹ ہونے سے بچانے کا وعدہ کیے ہوئے ہے جبکہ یوں لگتا ہے کہ امریکا کی وجہ سے سے ہمارا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ نہیں ہو رہا۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ عالمی قوتیں پاکستان کو پھر سے ایف اے ٹی ایف کی تلوار کے نیچے لاکر کھڑا کرنا چاہتی ہیں۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف مؤثر کارروائیاں کیں تو ہی پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلا۔ اب یہ کہنا کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتا‘ صریحاً غلط ہے۔ یہ مشترکہ اعلامیہ جاری کرنا بنیادی طور پر لوہے کو گرم دیکھ کر ہتھوڑا مارنے کے مترادف ہے۔ آپ دیکھئے کہ ایک طرف اندرونی سطح پر ہمارے ریاستی اداروں کو کمزور کرنے کی مذموم کوششیں کی جا رہی ہیں اور دوسری طرف موقع کا فائدہ اٹھا کر عالمی طاقتیں بھی ہمارے اداروں کا مورال کم کرنے کیلئے ایسے اعلامیے جاری کررہی ہیں۔ یہ ہماری پاک فوج ہی ہے جس نے آپریشن ردالفساد‘ آپریشن ضرب عضب اور اس جیسے کئی مثالی آپریشن کرکے ہزاروں دہشت گردوں کو جہنم رسید کیا ہے۔ محوِ حیرت ہوں کہ امریکا کو پاکستان میں پلانٹ کیا گیا بھارتی جاسوس اور دہشت گرد نظر نہیں آیا۔ سانحہ اے پی ایس نظر نہیں آتا۔ بلوچستان میں بھارت کی پھیلائی بدامنی نظر نہیں آتی۔ الٹا امریکا پاکستان کی حکومت کو کہہ رہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے معاملے میں ڈومور کرے۔ امریکا کی وجہ سے ہمارا آئی ایم ایف سے معاہدہ نہیں ہو رہا۔ یوں لگ رہا ہے جیسے جانتے بوجھتے حکومت کو ٹف ٹائم دیا جا رہا ہے۔ جو لوگ حکومت کو امپورٹڈ اور امریکا کو برا بھلا کہا کرتے تھے‘ اب وہی اس سے دوستی کے لیے مرے جا رہے ہیں۔ امریکی تھنک ٹینکس کے اعلیٰ افسران بھی ان کی حمایت میں بول رہے ہیں۔ جس سے صاف واضح ہو چکا ہے کہ کون امپورٹڈ ہے اور کون نہیں۔ غرضیکہ پاکستان اس وقت اندرونی اور بیرونی خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ یعنی ایک طرف کنواں ہے تو دوسری جانب کھائی‘ اگر دونوں سے بچنا ہے تو ہمیں اپنے اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا۔ اندرونی طور پر فتنہ پھیلانے والوں کا سر کچلنا ہوگا‘ ورنہ دونوں جانب سے خطرات کے یہ بادل ہم پر منڈلاتے بھی رہیں گے اور برستے بھی رہیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved