ہم جو کچھ بھی پاتے ہیں وہ کسی نہ کسی خیال یا پھر خواب کا نتیجہ ہی ہوتا ہے۔ جو کچھ ہمارے ذہن کے پردے پر ابھرتا ہے وہی عمل کی شکل اختیار کرکے حقیقت کی دنیا کے ذخیرے میں اضافہ کرتا ہے۔ ہزاروں سال کے عمل میں انسانوں نے انفرادی سطح پر جو کچھ سوچا اور کیا ہے وہی مل جل کر ہمارے ورثے کا درجہ رکھتا ہے۔ ہر بڑا معاملہ سب سے پہلے ذہن کے پردے پر نمودار ہوتا ہے۔ لازم نہیں کہ یہ سب کچھ براہِ راست ہو۔ کبھی کبھی معاملات بالواسطہ طور پر بھی تشکیل پاتے ہیں اور پھر اچانک کسی خیال کی شکل میں ہمارے سامنے آکر ہمیں حیران کردیتے ہیں۔
کامیاب کون ہوتا ہے؟ وہی جو سوچ سکے۔ جو سوچ نہیں سکتا وہ خود کو عمل کی کسوٹی پر پرکھے جانے کے لیے تیار بھی نہیں کرسکتا۔ جو کچھ ذہن میں پروان چڑھتا ہے وہی ہمارے لیے عمل کی راہ ہموار کرتا ہے۔ عمل کے مرحلے سے بے سوچے بھی گزرا جاسکتا ہے مگر اِس کے نتائج سے بھی ہم اچھی طرح واقف ہیں۔ خواب کس لیے ہوتے ہیں؟ محض دل بہلانے کے لیے؟ کچھ وقت اچھی طرح ٹھکانے لگانے کے لیے؟ حقیقت سے فرار کے لیے؟ نہیں‘ بالکل نہیں! ہر خواب کی کوئی نہ کوئی قدر ہوتی ہے اور ہر خواب اپنے اندر کوئی نہ کوئی سبق رکھتا ہے۔ ہم جو بھی خواب دیکھتے ہیں وہ کسی نہ کسی درجے میں ہماری خواہشات کا عکس ہوتے ہیں۔ جو کچھ ہم آسانی سے یا موقع کی مناسبت سے نہیں کر پاتے وہ خواب کے پردے پر نمودار ہوکر ہمیں کچھ یاد دلاتا ہے، تھوڑی سی تحریک دیتا ہے کہ ہمت ہارے بغیر کام کرتے رہنا ہے۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو خواب سے کچھ سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں؟ کم‘ بہت ہی کم! بیشتر کا یہ حال ہے کہ خواب دیکھ کر کچھ دیر تو یاد رکھتے ہیں، پھر بھول جاتے ہیں۔ اُن کے نزدیک خواب محض معمول کا معاملہ ہے، اِس سے زیادہ کچھ نہیں۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ خواب کیا معمول کا حصہ ہوتے ہیں اور اُنہیں بھول جانا ہی بہتر ہے؟ کیا ہر خواب محض خواب ہوتا ہے اور اُسے بھول جانا چاہیے؟ ایسا نہیں ہے! بعض سرسری نوعیت کے خواب ضرور اس قابل ہوتے ہیں کہ اُن کے بارے میں زیادہ نہ سوچا جائے اور کوئی تحریک پانے کی کوشش نہ کی جائے۔ بعض خواب خاصی گہرائی و گیرائی کے حامل ہوتے ہیں۔ ایسے خوابوں میں ہمارے لیے بہت سے پیغامات ہوتے ہیں۔ اگر خواب کا مجموعی ماحول پُرلطف ہو تو انسان بیدار ہونے پر خاصی فرحت محسوس کرتا ہے اور کچھ نیا کرنے کی تحریک بھی پاتا ہے۔ ہاں‘ بعض خواب خاصے پیچیدہ اور الم ناک نوعیت کے ہوتے ہیں۔ ایسے خواب کچھ دیر کے لیے دل کو افسردہ و رنجیدہ کردیتے ہیں مگر تھوڑا سا غور کرنے پر ایسے خوابوں سے بھی کچھ نہ کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ اِس کا مدار اِس بات پر ہے کہ آپ اپنے کسی بھی خواب سے کچھ سیکھنا چاہتے ہیں یا نہیں! اگر ہاں‘ تو آپ کو کچھ نہ کچھ نیا اور بامعنی کرنے کی تحریک مل سکتی ہے۔ اگر نہیں‘ تو پھر کوئی بھی آپ کو خوابوں سے استفادہ کرنے کے لیے آمادہ نہیں کرسکتا۔
سابق امریکی صدر روزویلٹ کی اہلیہ ایلینور روزویلٹ (Eleanor Roosevelt) نے قوم کو تحریک دینے کی غرض سے کہا تھا ''مستقبل صرف اُن کا ہے جو اپنے خوابوں کے حسن و دلکشی پر یقین رکھتے ہیں‘‘۔ ایلینور روزویلٹ نے یہ بات نئی نسل کو بھرپور زندگی بسر کرنے کی تحریک دینے کی غرض سے کہی تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے زمانے میں دنیا کچھ کی کچھ ہوکر رہ گئی تھی۔ یورپ شدید اور وسیع البنیاد تباہی سے دوچار ہوا تھا۔ دل بجھ سے گئے تھے۔ کوئی بھی خطہ جنگ کے تباہ کن اثرات سے مکمل محفوظ نہیں رہا تھا۔ عالمی معیشت ڈانواں ڈول تھی۔ بہت سے خطوں کا تیا پانچا ہوگیا تھا۔ یہ جنگ جن خطوں میں نہیں پہنچی تھی وہ بھی اس کے شدید منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہے تھے۔ ایسے میں مغربی دنیا کا عام آدمی شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھا۔ یورپ میں ذہنی خلل غیر معمولی حد تک تھا۔ امریکہ کے عوام بھی جنگ کے شدید منفی اثرات سے مکمل محفوظ نہیں رہ سکے تھے۔ وہ بہت حد تک قنوطیت کا شکار تھے۔ ڈھنگ سے جینے کی لگن دم توڑنے لگی تھی۔ مورال غیر معمولی حد تک گرچکا تھا۔ ایسے میں ناگزیر تھا کہ قوم کو ڈھنگ سے جینے کی تحریک دینے والی باتیں کی جائیں۔ لکھنے والوں نے اپنا حق ادا کیا اور سیاسی قائدین نے اپنے حصے کا کام کیا۔ ایلینور روزویلٹ نے جو بات کہی اُس نے قوم کو بالعموم اور نئی نسل کو بالخصوص خاصا حوصلہ بخشا۔
کسی بھی کامیاب انسان سے کچھ دیر گفتگو کیجیے اور اُس سے کامیابی کا راز بیان کرنے کی فرمائش کیجیے تو اُس کی باتوں سے تھوڑی ہی دیر میں آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ جو کچھ بھی اُس نے پایا ہے وہ صرف اور صرف خوابوں کی بنیاد پر پایا ہے اور خوابوں کو عملی شکل دینے کے نتیجے ہی میں اِس دنیا سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ ہر کامیاب انسان چند خواب دیکھتا ہے، اُنہیں ترتیب دیتا ہے، اُن سے کچھ کرنے کی تحریک پاتا ہے۔ آج کی تکنیکی زبان میں اِسے visualization کہتے ہیں یعنی کسی بھی معاملے میں ذہن کو پیش بینی کی راہ پر گامزن کرنا۔ کسی بھی مفروضے کی بنیاد پر کچھ سوچنا اور ایک منظر نامہ تشکیل دینا ہر اُس انسان کے لیے ناگزیر ہے جو شاندار کامیابی یقینی بنانا چاہتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ منفرد انداز سے سوچنے ہی کی بنیاد پر بہت کچھ کر پاتے ہیں۔ ہم میں سے بہت سے ہیں جو جاگتی آنکھوں بھی خواب دیکھتے ہیں۔ اگر حقیقت پسندی کی زمین پر کھڑے ہوکر یہ کام کیا جائے تو کچھ حرج نہیں۔ بڑے بڑے افسانہ و ناول نگار اور سکرین رائٹرز جاگتی آنکھوں دیکھے ہوئے خواب ہی تو بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جو کچھ انہوں نے اپنے ذہن کے پردے پر ابھرتے ہوئے دیکھا ہے وہ ترتیب دیے جانے پر کہانی کی شکل اختیار کرتا ہے اور داد پاتا ہے۔ ہر ذہین لکھاری اپنے ذہن کے پردے پر ابھرنے والی باتوں کو بہت دھیان سے دیکھتا ہے‘ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، تجزیہ کرتا ہے اور کوئی واضح معقول و متوازن نتیجہ اخذ کرنے کے بعد کوئی کہانی ترتیب دیتا ہے۔ کبھی کبھی محض ایک خواب انسان کو پوری کہانی دے جاتا ہے۔ بہت سے سکرین رائٹرز نے بتایا ہے کہ انہوں نے کوئی خواب دیکھا اور اُس خواب کے مختلف اجزا کی بنیاد پر کہانی ترتیب دے کر فلم لکھی اور وہ فلم سپر ہٹ ثابت ہوئی۔ خوابوں کی دلکشی پر یقین رکھنے والوں کے اطوار الگ ہوتے ہیں۔ اُن کی سوچ بھی منفرد ہوتی ہے۔ وہ الگ انداز سے سوچتے ہیں۔ خوابوں اور خیالوں کی دنیا میں رہنے والوں کی کمی نہیں۔ پوری دیانت سے جائزہ لیجیے تو بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ کم و بیش ہر انسان کسی نہ کسی حد تک خیال و خواب کی وادیوں میں بھٹکتا پھرتا ہے۔ سوچوں میں گم رہنا کوئی بُری بات نہیں۔ ہاں‘ سوچوں سے کچھ حاصل کرنے کے بارے میں نہ سوچنا نقصان دہ ہے۔ انسان کو اپنے بارے میں، دوسروں کے بارے میں، دنیا کو بہتر بنانے کے بارے میں سوچنا ہی چاہیے۔ اِس طور سوچنا انسان کو بہت کچھ کرنے کی تحریک دے سکتا ہے اور دیتا ہے۔
ہر عہد کا انسان دیکھتا، سوچتا اور خواب دیکھتا آیا ہے۔ یہ عمل اُسے آگے بڑھاتا ہے۔ خوابوں کی دلکشی پر یقین رکھنے والوں کو زندگی کی دلکشی میں اضافے کی سوجھتی ہے۔ ہر سہانا خواب ہمیں تابناک مستقبل ممکن بنانے کی خاطر تیار ہونے کی تحریک دیتا ہے۔ خوابوں کا یہی کام ہے۔ اگر انسان تیار رہے تو خوابوں کے ذریعے ذہن بہت کچھ فراہم کرتا ہے۔ معیاری انداز سے جینے اور تابناک مستقبل یقینی بنانے کا خام مال بالعموم خوابوں ہی کے ذریعے دستیاب ہوتا ہے۔ اِس مرحلے سے کامیاب گزرنے کی صورت میں انسان بہت کچھ کرنے کے قابل ہو پاتا ہے۔
آج کی دنیا میں خیال و خواب کا معاملہ بہت عجیب ہے۔ دنیا اُس مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں مزید کسی ایجاد یا دریافت کی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی۔ یہ کیفیت بہت بڑا چیلنج ہے۔ آج ذہن اِتنے الجھے ہوئے ہیں کہ خواب بھی ڈرتے ڈرتے آتے ہیں۔ اِس الجھن نے خوابوں کے حسن کو سمجھنے اور اُس سے مطابقت رکھنے والی طرزِ فکر و عمل اختیار کرنے کی اہمیت بڑھادی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved