پاکستان کی معیشت پر لکھتے ہوئے مجھے وہ مصرع یاد آگیا کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ پاکستانی معیشت کو قرض کا مرض آج لاحق نہیں ہوا‘ ایوب خان کے دور سے یہ مرض ہمیں ایسا چمٹا کہ جان چھوڑنے کا نام نہیں لے رہا۔ ہمارے حکمرانوں نے لانگ ٹرم پلاننگ کو ضروری نہیں سمجھا۔قرض ایک جال ہے جو ایک بار اس میں پھنس جائے اس کیلئے اس سے نکلا مشکل بلکہ قریب قریب ناممکن ہو جاتا ہے۔میں آپ کو ایک کولیگ کا قصہ سناتاہوں‘انہوں نے کریڈٹ کارڈ بنوایا اور اس کو اپنی آسانی کی خاطراستعمال کرنا شروع کردیا۔ ان کا پکا ارادہ تھا کہ اس کارڈ کو اتنا ہی استعمال کریں گے جتنا وہ آسانی سے واپس کرسکیں لیکن ان کی سوچ صرف سوچ ہی رہی اور کچھ ہی مہینوں بعد وہی کریڈٹ کارڈ جس کو انہوں نے اپنی سہو لت سمجھ کے بنوایا تھا‘ ان کے گلے کی ایسی ہڈی بن گیا جس کو نہ وہ نگل سکتے تھے نہ اُگل سکتے تھے ۔سود پرسود چڑھتا رہا اور اصل رقم اپنی جگہ پر موجود رہی ‘نتیجہ یہ نکلاکہ ان صاحب کو ہر مہینے اس کریڈٹ کارڈ کا بل ادا کرنے کیلئے اپنے دفتری ساتھیوں سے ادھار لینا پڑتا اور بعد میں وہ کبھی کسی اور سے پیسے مانگ کر ٹوپی گھماتے رہتے۔ آخر میں انہیں سود کی رقم کی ادائیگی اور دوستوں کے ادھار واپس کرنے کیلئے اپنی گاڑی بیچنا پڑی۔ یہ بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک گھر تھا جس کو میرے عزیزقرضوں پر چلا نہ سکے یہ تو ملک ہے جس کو مسلسل دہائیوں سے قرضوں کی دلدل میں ڈبویا جارہاہے۔اسی وجہ سے ہماری معیشت وینٹی لیٹر پر پہنچ چکی ہے جس کو آئی ایم ایف کی امداد کی آکسیجن لگتی ہے تو وہ کچھ دیر سکھ کا سانس لیتی ہے۔عمران خان اور بعد ازاں اسحاق ڈارکی ''مہربانیوں‘‘ کے نتیجے میں ہم سے یہ آکسیجن بھی چھن گئی اور تقریبا ًپورے سال تک آئی ایم ایف ہماری ناک سے لکیریں نکلواتا رہاجس کے بعد اب جاکر ہمارا سٹاف لیول معاہدہ ہوا ہے جس کے تحت آئی ایم ایف پاکستان کو ایک سال کے دوران تین ارب ڈالر کا قرض فراہم کرے گا۔ قرض کی منظوری آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے جولائی میں ہونے والے اجلاس میں دی جائے گی۔اب اس معاہدے پر شادیانے بجائے جارہے ہیں‘ اس کو بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔ بلاشبہ اس وقت پاکستان کی آئی ایم ایف سے ڈیل نا گزیر تھی لیکن یہ عارضی حل ہے۔ آپ دیکھئے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد کیلئے پاکستان کو نہ صرف مختلف اشیاکی قیمتیں بڑھانی ہوں گی بلکہ ریونیو کو بڑھانے کیلئے سخت اقدامات بھی کرنا ہوں گے۔ خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق آئی ایم ایف اور حکومت پاکستان کے درمیان 2019 ء کے ای ایف ایف کے بجائے سٹینڈ بائی معاہدہوا ہے جس کے تحت پاکستان توانائی کے شعبے کا ٹیرف بڑھائے گا۔پاکستان نے پہلے ہی اپنے بجٹ میں نظر ثانی کی‘ نئے ٹیکس لگائے لیکن اب مزید سخت اقدامات کرنا پڑیں گے اور ان اقدامات کی سختی کا اثر عام لوگوں پر پڑے گا۔قارئین کو ای ایف ایف اور سٹینڈ بائی معاہدہ کافرق بتاتا چلوں۔ سٹینڈبائی ارینجمنٹ سے مراد ہے کہ قلیل مدتی فنانسنگ کے ذریعے کسی ملک کی بیرونی فنانسنگ کی ضروریات کوپورا کرنا۔ ایسی صورت میں قلیل آمدنی رکھنے والے ممالک کی اسی صورت میں مددکی جاتی ہے اگر وہ ان مشکلات کو ختم کردیں جن کی وجہ سے انہیں فنانسنگ درکار تھی۔اس نوعیت کی مالی مدد کا دورانیہ 12 سے 24 ماہ تک کا ہوسکتا ہے۔ اسی طرح قرض کی رقم ساڑھے تین سے پانچ سال میں واپس کی جانا ضروری ہے۔اسی طرح یہ معاہدہ آئی ایم ایف کا ترقی پذیر معیشتوں کیلئے اہم منصوبہ شمار ہوتا ہے۔ عموماً یہ ان ملکوں کو دیا جاتا ہے جنہیں کم وقت میں ادائیگیوں میں توازن لانے کیلئے قرضے کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کی شرح سود عالمی مارکیٹ کے مطابق ہوتی ہے۔وہ ممالک جنہوں نے آئی ایم ایف سے اصلاحاتی قرضہ لیا لیکن اس کی شرائط میں طے کیے گئے ہدف پورے کرنے میں ناکام رہے تو انہیں سہارا دینے کیلئے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت مزید قرض دیا جاتا ہے‘ جبکہ ای ایف ایف وسط مدتی پروگرام ہے جس کا مقصدصرف ادائیگیوں میں توازن نہیں بلکہ اس کی خاص توجہ ملکی معاشی ڈھانچے میں اصلاحات پر بھی ہوتا ہے۔یہ منصوبہ تین سال کاہوتا ہے لیکن اسے ایک سال تک کی توسیع مل سکتی ہے جبکہ رقم کی واپسی چار سے دس سال کے عرصے میں کی جاتی ہے۔یعنی ایس بی اے کی مدت بھی کم ہوتی ہے‘ اس میں شرائط بھی کم ہوتی ہیں اور یہ اس وقت دیا جاتا ہے جب آپ پہلے سے اصلاحاتی پروگرام پر چل رہے ہوتے ہیں لیکن اس کو مکمل کرنے کیلئے آپ کو کچھ مزید مدد چاہیے ۔
اس معاہدے کے طے پانے کو ماہرینِ معیشت خوش آئند کہہ رہے ہیں۔معاشی ماہر اور تجزیہ نگار محمد سہیل سمجھتے ہیں کہ اگرحکومت نے اصلاحات کرلیں تو نئی حکومت کو آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے میں آسانی ہوجائے گی۔لاہور چیمبر آف کامرس کے صدر کاشف انور کی رائے میں معاہدہ ممکنہ ڈیفالٹ کی قیاس آرائیوں کو ختم کردے گا۔بزنس مین گروپ کے چیئرمین زبیر موتی والا کے بقول روپیہ مضبوط ہوگا جس سے مہنگائی کم ہوگی‘ یعنی مجموعی طور پر ماہرین معیشت کی نظر میں آئی ایم ایف معاہدہ اچھی پیش رفت ہے۔وزیر اعظم میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے سے معاشی استحکام لانے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں مدد ملے گی لیکن مفتاح اسماعیل اس پرتھوڑی متضاد رائے رکھتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کیلئے معاہدہ ہونا اچھی خبر ہے‘آئی ایم ایف سے معاہدہ ہی ڈیفالٹ سے بچنے کی بہترین انشورنس ہے‘لیکن ہمیں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ یہ معاہدہ ہمارے لیے ایک اور موقع ہے کہ ہم اپنی معاشی پالیسی میں بنیادی ریفارمز کریں۔ جب تک ہم معاشی ریفارمز نہیں کریں گے پاکستان قرض دینے والوں کے رحم و کرم پررہے گا اور عوام حکومتی اور سٹرکچرل گورننس کی ناکامی کی قیمت ادا کرتے رہیں گے۔ اگر ہم پاکستان کو واقعی قرضوں کے بھنور سے نکالنا چاہتے ہیں تو ہمیں ریفارمز کرنا ہوں گی۔معیشت کوخود مختار بنانے کیلئے ہمیں اپنے ہاں سرمایہ کاری لانا پڑے گی‘ایکسپورٹ کو بڑھانا پڑے گا۔ڈار صاحب پلان بی کی بات کرتے ہیں۔ابھی پاکستان میں دوست ممالک چین‘ سعودی عرب‘ قطر اور دیگرکی جانب سے سرمایہ کاری کے منصوبے پر بات کی گئی‘یہ بھی کہا گیا کہ 2035 ء تک ملک کی جی ڈی پی تین گنا بڑھ کر ایک کھرب ڈالر ہو جائے گی۔یہ بہت اچھی بات ہے اگر ملک میںسرمایہ کاری شروع ہوجائے اور پاکستان کو کشکول پکڑنے کی ضرورت پیش نہ آئے ‘لیکن یہاں کچھ سوال ہیں۔پہلا یہ کہ جب غیریقینی صورتحال کی وجہ سے اندر کے لوگ سرمایہ کاری نہیںکر رہے تو باہر سے آکر کوئی سرمایہ کاری کیوں کرے گا؟دوسرا یہ کہ اگر سرمایہ کاری ہوجاتی ہے اورپاکستان کو پیسہ آنا شروع ہوجاتا ہے تو پھر کیا حکومت کے پاس اس پیسے کو یوٹیلائز کرنے کا پلان ہے یایہ پیسہ بھی ضائع کردیا جائے گا؟لیکن یہ بات طے ہے کہ پاکستان مزید قرض کے سہارے نہیں چل سکتا۔شارٹ کٹ وقتی فائدہ تو دے سکتے ہیں لیکن لانگ ٹرم کیلئے نقصان دہ ہوتے ہیں۔بدقسمتی سے ہماری معیشت کی حالت ایسی ہوگئی ہے کہ یہ قرض کے بغیر چل نہیں سکتی۔ہرحکومت یہ وعدہ اور یہ دعویٰ تو کرتی ہے کہ وہ قرض کے بغیر معیشت کو چلا سکتی ہے لیکن عملی طور پر جب کچھ کرنے کا وقت آتا ہے تو غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے اور پھر سے قرض لے کر سمجھوتہ کرلیا جاتا ہے۔صرف زبانی کلامی باتیں کرلینا ہی کافی نہیں ہوتا‘کشکول کو توڑنا ہے تو معاشی خود مختاری کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ماضی میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے چکروں میں ہمارے حکمرانوں نے معیشت کی ٹانگیں توڑکر اسے مفلوج کردیا۔اب وقت ہے کہ ہمارے رہبر کم ازکم اس اہم ایشو پر مل بیٹھیں اور میثاقِ معیشت کرکے کمزور معیشت کوتوانا اور مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کریں ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved