تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     02-07-2023

ب کو الف بنا لیں ڈار صاحب

وہ خبر آہی گئی جس کا انتظا رتھا۔اطمینان ؟ ہاں ایک گونااطمینان بھی ہوا۔ خوشی ؟ خوشی نہیں ہوئی ۔ مہاجن سے قرض ملنے پر ایک غریب کسان کی جو حالت ہوا کرتی ہے ‘بس وہی ہے ۔کچھ دن کی روٹی پانی کے بندوبست کا اطمینان اور کمر پر دھرے بوجھ میں کئی من اضافے کی تکلیف۔یہ امید کہ میں اس بار فصل میں پوری محنت کروں گا اور کافی بوجھ اتار دوں گا۔کچھ قرض خواہوں کی رقم بھی لازمی اتارنی ہے ۔ کریانے والے کے پیسے بھی تو دینے ہیں‘ کھاد والے کی رقم بھی اسی ماہ جانی ہے ۔مکان کی تعمیر کے پیسے ٹھیکیدار کب سے مانگ رہا ہے۔کچھ اسے دے کر بھی راضی کروں ۔ اور ہمسائے سے جو قرض لیا تھا‘وہ بھی سر پر ہے ۔چچا زاد بھائی اگرچہ ہمسایہ نہیں لیکن قرض تو بہرحال قرض ہے ۔ ان دونوں کی رقمیں واپس نہ کیں تو آئندہ آڑے وقتوں میں کیسے ان کا سامنا ہوگا؟لیکن یہ مسئلہ بھی تو ہے کہ فصل سے جتنی آمدنی ہوگی ‘ سال بھر کا خرچ بھی تو درکار ہوگا۔ اس کے بعد کتنا قرض اتارا جاسکے گا؟یہ بوجھ تو کئی نسلوں تک اترنے والا نہیں ۔ تو کیامیں ساری عمر مہاجن کے سامنے گڑگڑاتا رہوں گا اور مزید مانگتا رہوں گا؟ایک خوف سانپ کی طرح سرسراتا ریڑھ کی ہڈی سے گزرتا ہے کہ اگر مہاجن نے یہ رقم نہ دی ہوتی تو پھر کیا ہوتا؟اس خبر کے بعد ہماری سب کیفیات اسی کسان والی ہیں ۔
مہاجن تو مہاجن ہے خواہ عالمی مہاجن آئی ایم ایف سہی ‘اس نے آخری لمحے تک رقم لٹکانے ‘اپنی ہر بات منوانے کے بعدبہرحال رقم کا وعدہ کرلیا ۔ ابھی تو وعدہ آیا ہے ‘ رقم نہیں آئی ۔عراق سے تریاق کب آتا ہے ‘ انتظار کیجیے ۔ بتایا گیا ہے کہ جولائی کے وسط میں بڑی میٹنگ میں حتمی منظوری دی جائے گی ۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اس معاہدے کا کریڈٹ وزیر اعظم شہباز شریف کو دیا ہے جنہوں نے پیرس میں آئی ایم ایف کی سربراہ سے پے در پے ملاقاتیں کیں‘بعد میں فون پر بھی رابطہ کرتے رہے ۔ڈار صاحب کے مطابق اس سفارت کاری کی وجہ سے یہ معاہدہ ہوسکا ہے ۔شہباز شریف اور اسحاق ڈار یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ ہم نے ملک کے لیے اپنے سیاسی فائدے کو چھوڑ کر ‘بلکہ تباہی تک پہنچا کر مشکل فیصلے کیے ہیں ۔ میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ایسا ہے ۔لیکن حضور ! آپ بھول گئے کہ پاکستان کی معاشی تاریخ میں پی ٹی آئی کے پونے چارسال ہی نہیں آ پ کی تین حکومتیں بھی ہیں ۔جن میں آپ کی دو تہائی اکثریت کی حکومت بھی تھی ۔
غیر جانبدار نظر سے دیکھیں تو معاہدہ اس حکومت کی بہرحال کامیابی سمجھی جائے گی اور اس کا سہرا بھی سربراہ کے سر ہی جانا چاہیے‘ سب کو یہ علم ہے کہ مہاجنی شرائط مانے بنا چارہ نہیں تھا۔آپ لاکھ آئی ایم ایف کو برا بھلا کہتے رہیے ‘شرائط کو اندرونی معاملات میں مداخلت کہتے رہیے ‘ سیاسی ہونے کا الزام لگاتے رہیے ۔بالآخر جاتے اسی کے پاس ہیں ۔مانتے اسی کی ہیں ۔ کوئی چارہ جو نہیں ہوتا۔خود عمران خان اپنے زمانۂ اقتدار میں جس طرح اس کی سربراہ سے مانگنے جاتے رہے ‘ سب نے دیکھا ہے ۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس وقت پی ڈی ایم کی ممکنہ حکومت کو مصیبت میں ڈالنے کے لیے انہوں نے اپنے معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی جس کی وجہ سے اس نئے معاہدے میں بہت کڑی شرائط لگائی گئیں اور تاخیر کی گئی ۔ خان صاحب‘شیخ صاحب اور قریشی صاحب کو اب اعتراض کرنے سے پہلے اس کا جواب دینا چاہیے۔
اب کیا ہوگا؟ ابھی ڈالرز کی بارش تو نہیں ہوئی‘ شاید جولائی میں ہوسکے ‘ لیکن اس اطلاع سے ڈالر کے نرخ میں یقینا کمی ہوگی۔ابتدا میں شاید پانچ سے دس روپے تک ۔ بعد میں مزید ۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ڈالر کی اصل قیمت 270 کے لگ بھگ ہے ۔ اور وہ اس پر آجائے گا۔ڈالر نیچے آئے گا تو مہنگائی بھی کچھ کم ہوگی ۔درآمدات کے لیے لوگوں کو ڈالر مل سکیں گے‘چیزیں ملک میں آنی شروع ہوں گی تو ان کی کمیابی بلکہ نایابی ختم ہوگی اور اس بنا پر بڑھے ہوئے نرخ نیچے آسکیں گے۔آئی ایم ایف کی طرف دیکھ کر ہمیں قرض دینے والے کئی دیگرمہاجنوں کے ہاتھ بھی کشادہ ہوں گے ۔ کچھ اطمینان کی صورتیں بہرحال نکلیں گی ۔ کتنی دیر تک ؟ یہ کہنا مشکل ہے ۔لیکن سب کچھ یہی نہیں ہوگا۔ اس قرض کا بڑا حصہ تو پچھلے قرض کے سود میں جائے گا۔سود کی رقم ادا نہ کی گئی تو مزید قرض کیسے ملے گا؟مزید قرض نہ ملا تو لگ بھگ 45 ارب ڈالرز کے قرض کیسے اتاریں گے؟ایک قرض اٹھا کر اس سے پہلا قرض اتارتے ہیں ۔بلکہ قرض بھی نہیں سود کی رقمیں ۔اور پھر اس نئے قرض کے لیے مزید نئے قرض اٹھاتے ہیں ۔ کولہو کا بیل چکر کاٹتا رہتا ہے لیکن راستہ نہیں کٹ سکتا۔
1958ء میں پہلی بار پاکستان نے آئی ایم ایف سے قرض لیا تھا۔کئی نسلوں اور سات عشروں کے بعد ‘65 سال کے بعد بھی ہم اس کے محتاج ہیں ۔مزید کتنی نسلیں ‘کتنے عشرے اس کی نذر ہوں گے۔کچھ کہا نہیں جاسکتا۔خوفناک بات یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمر کے بوجھ میں اضافہ ہوا ہے ‘ کمی نہیں ہوئی ۔اس لیے وقتی اطمینان اپنی جگہ ‘آپ اس معاہدے کا اعزاز لیتے رہیں لیکن میری نظراس بات پر رُکی ہوئی ہے جو اسحاق ڈار نے کل بھی کہی ہے اور اس سے پہلے بھی کہی تھی اور وہ یہ تھی کہ آئی ایم ایف نے پیسے نہ دیے تب بھی پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔پلان بی ہم نے تیار کر رکھا ہے ۔اس سے کچھ دن پہلے فوجی اور سیاسی قیادت سر جوڑ کر بیٹھی تھی اور فائیو ای فریم ورک (5 E framework)سامنے آیا تھا۔اور اسے پاکستان کے لیے معاشی گیم چینجر کا نام بھی دیا گیا تھا۔فوج اور سیاسی قیادت نے اسے پورا کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا تھا۔فائیو ای یعنی ماحول اور ماحولیاتی تبدیلی ‘توانائی اور اس کا نظام ‘مساوات اور اختیار (Environment and climate change,Energy and infrastructure,Equity and empowerment)سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ کیا یہ واقعی گیم چینجر ہوگا؟اس پر عمل کی صورت کیا اور کب ہوگی ؟آئی ایم ایف کے معاہدے سے اگریہ چیزیں پھر پسِ پشت جاپڑیں تو ایک سال کے بعد ہم پھر یہی کاسہ اٹھا کر پھر رہے ہوں گے۔ اگر یہ فریم ورک واقعی گیم چینجر ہے تو اسے بھول جائیں کہ معاہدہ ہوچکا ہے ۔ اسے بھول کر اس پر کام شروع کریں ۔یہی درست راستہ ہے اور اگرچہ آسان نہیں ہوگا لیکن پاکستان نے ساری دنیا کی مخالفت کے باوجودجوہری توانائی کے حصول کا ناممکن کام بھی تو کیا تھا۔یہ اس سے زیادہ مشکل تو نہیں ۔
جناب اسحاق ڈار! میں آپ کی کوششوں کی تعریف تو کروں گا لیکن مہاجنوں سے رقم لینے کی مبارک کیا دوں ؟ میری دلچسپی اس بات میں ہے جسے آپ نے پلان بی کا نام دیا ہے ۔کیا یہ محض آئی ایم ایف کو آخری وقت میں دباؤ میں لانے کی ایک کوشش تھی؟ کیا یہ امریکہ اور یورپ کو یہ باور کرانے کی چال تھی کہ ہم چین اور روس کی طرف مزید جھکنے جارہے ہیں ؟کیا یہ ایک مہاجن کو یقین دلانے کی کوشش تھی کہ آپ نہ سہی ‘کئی اور ہمیں قرض دینے کے لیے راضی ہیں ۔یہ پلان بی ہے کیا ؟اگر یہ ایک ہاتھ سے کاسہ ہٹا کر دوسرے ہاتھ کے سامنے کرنے کا پلان ہے تو ان دونوں ہاتھوں میں فرق کیا ہے ؟ دونوں ہی تو اپنے مطلب کی شرائط عائد کریں گے؟اگر ایسا ہے تو بی سے لے کر زیڈ تک ایسے جتنے بھی پلان ہوں ‘ سب ایک ہی پلان ہیں ۔حتمی فرق کچھ بھی نہیں پڑنے والا۔نام کچھ بھی رکھ لیں۔اور اگر یہ پلان بی ‘ خود انحصاری کی طرف جانے والا راستہ ہے تو اصل یہی پلان ہے ۔ اسے ہی پلان اے ہونا چاہیے۔اگر ایسا ہے تو معاہدے کو بھول جائیں ڈار صاحب۔ب کو الف بنالیں ڈار صاحب ۔ ہم سب ساتھ ہیں ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved