سوچنے والوں نے زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں سوچا اور لکھا ہے۔ انسان نے جب سے تہذیبی سفر شروع کیا ہے تب سے اب تک وہ سوچتا آیا ہے اور جو کچھ اس نے سوچا ہے‘ اس سے دوسروں کو بھی مستفید کرنے کے بارے میں ضرور سوچا ہے۔ کسی بھی انسان کو زیبا نہیں کہ اپنے وجود کی اچھائیوں سے دوسروں کو بہرہ مند نہ کرے اور اپنی برائیوں سے انہیں ناخوش کرے‘ تکلیف پہنچائے۔ ہر انسان کا ایک بنیادی فریضہ یہ ہے کہ دوسروں سے مدد لے کر اپنی زندگی کا معیار بلند کرے اور پھر اپنی زندگی کے بلند معیار سے دوسروں کی زندگی کا معیار بلند کرنے کی بھی کوشش کرے۔ زندگی کو سہل اور زیادہ متوازن و مسرّت آگیں بنانے کا اس سے زیادہ معقول طریقہ کوئی نہیں۔
ہر دور کے انسان نے جو کچھ بھی کیا ہے اس کا بنیادی مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ جیسے بھی ہو‘ زندگی بھرپور مسرّت سے ہم کنار رہے۔ خوش رہنا انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ اسے حق اور فرض دونوں ہی درجوں میں رکھا جانا چاہیے۔ ہر انسان کو خوش رہنا چاہیے اور دوسروں کو بھی خوش رکھنا چاہیے۔ جب کوئی انسان خوش رہنے کی شعوری کوشش کرتا ہے تب اپنے ماحول کے لیے زیادہ بارآور ثابت ہوتا ہے۔ خوش رہنا ہم سب کی ضرورت ہے مگر یہ کوئی آسان کام نہیں۔ حالات ہم پر مختلف حوالوں اور زاویوں سے اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ حالات کا جبر ہمیں سکونِ قلب کی منزل سے دور کرتا رہتا ہے۔ جب ہم سکونِ قلب کی منزل سے دور ہوتے ہیں تب زندگی غیر متوازن ہو رہتی ہے۔ ایسے میں بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی ہم پریشان رہتے ہیں۔ کسی بھی انسان کو خوش رکھنے میں بنیادی کردار دل کا سکون ادا کرتا ہے۔ اگر دل مطمئن اور پرسکون رہتا ہو تو انسان کسی بھی طرح کی صورتِ حال میں اپنے آپ کو متوازن اور مستحکم رکھتا ہے۔ دل کو سکون میسر نہ ہو تو بات مشکل سے بنتی ہے۔
1936ء میں بیرن وُلف نے ''How To Be Happy Though Human‘‘ کے زیرِ عنوان ایک کتاب لکھی۔ اس کتاب کی اشاعت نے بہت سوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا۔ معاشرتی نفسیات کے موضوع پر لکھی گئی اس کتاب میں بیرن وُلف نے ایک خاص نکتے پر سیر حاصل بحث کی۔ کتاب کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ انسان ہوتے ہوئے بھی خوش رہنا ناگزیر ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے کوشاں رہنا ہی چاہیے۔ بیرن وُلف نے لکھا کہ ہم زندگی بھر حالات کے جبر کا سامنا کرتے رہتے ہیں۔ جو کچھ ہماری زندگی میں اور اس کے آس پاس یعنی ماحول میں رونما ہوتا رہتا ہے وہ ہمیں سکون اور راحت کی منزل سے دور کرتا رہتا ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے نفسی پیچیدگیوں اور الجھنوں سے یکسر محفوظ رہنا ممکن نہیں۔ کوئی بھی یہ دعوٰی نہیں کرسکتا کہ اس نے اپنے حالات کی تمام خرابیوں پر قابو پا لیا ہے اور اب زندگی صرف مسرّت ہی مسرّت ہے۔ پریشانیاں کہیں نہیں جاتیں۔ وہ ہمارے ساتھ ساتھ رہتی ہیں۔ ہمیں ان کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے جینا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی کوئی الجھن بڑی ہوکر ہمیں پچھاڑنے کی کوشش کرتی ہے۔ تب ہمیں اپنے آپ کو بچاتے ہوئے اسے قابو میں رکھنے کی کوشش کرنا پڑتی ہے۔ یہی زندگی ہے۔ جب ہم کسی کمرے میں بلب کا سوئچ آن کرتے ہیں تو روشنی ہو جاتی ہے اور اندھیرا بظاہر غائب ہو جاتا ہے مگر سچ یہ ہے کہ وہ کہیں نہیں جاتا۔ وہ وہیں کمرے میں ہوتا ہے۔ جب تک بلب روشن رہتا ہے‘ اندھیرا اپنے آپ کو منوانے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ جیسے ہی بلب کو سوئچ آف کیا جاتا ہے‘ اندھیرا ظاہر ہو جاتا ہے‘ چھا جاتا ہے۔ مسائل‘ الجھنوں‘ پیچیدگیوں اور چیلنجوں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ کوئی بھی مسئلہ حل کر لیے جانے کی صورت میں بھی کہیں نہیں جاتا۔ وہ وہیں کا وہیں رہتا ہے۔ جب تک ہم اپنے معاملات کی درستی کے لیے کوشاں رہتے ہیں تب تک مسائل دبے رہتے ہیں۔ جیسے ہی ہم تھکن کا شکار ہوتے ہیں یا بیزار ہوکر حوصلہ ہارنے لگتے ہیں‘ مسائل عفریت کی طرح منہ کھول کر ہمارے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔
یہ زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ انسان کے لیے مسائل حل کرتے رہنا اور زندگی کو متوازن رکھنا مستقل آزمائش ہے۔ اگر چھوٹی عمر سے بھرپور تربیت فراہم کی گئی ہو تو انسان ایسا مائنڈ سیٹ پروان چڑھانے میں کامیاب رہتا ہے جس میں مسائل کو چیلنج سمجھ کر قبول کرنے اور اپنے آپ کو بہتر حالات کے لیے تیار کرنے کی بھرپور گنجائش رہتی ہے۔ بیرن وُلف نے اپنی کتاب میں اس نکتے پر بار بار زور دیا ہے کہ کسی بھی انسان کے لیے خوش رہنا کسی بھی درجے میں کوئی آسان کام نہیں۔ حالات ہمیں ناخوشی کی طرف دھکیلتے رہتے ہیں۔ ہمیں ہر وقت لڑنا پڑتا ہے۔ ماحول میں سب کچھ ہماری مرضی کا نہیں ہوتا۔ ہو بھی نہیں سکتا۔ دوسروں کے افکار و اعمال ہم پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی کسی کی سوچ ہمیں فائدہ پہنچاتی ہے اور کبھی کسی کے اعمال سے ہم شدید الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ کھٹے میٹھے معاملات چلتے ہی رہتے ہیں۔
''How To Be Happy Though Human‘‘ کا بھرپور سنجیدگی سے مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ کسی بھی انسان کو اگر واقعی خوش رہنا ہے تو زندگی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معقول رویہ اختیار کرنا ہوگا۔ ہر انسان کے لیے معقول رویہ مختلف ہوتا ہے کیونکہ سب کے حالات بھی مختلف ہوتے ہیں اور رجحانات بھی۔ ہر انسان دستیاب وسائل‘ خواہشات‘ ترجیحات‘ میلانات اور حالات کے تناظر میں سوچنے کا عادی ہوتا ہے۔ یہ ایسا دائرہ ہے جس سے باہر نکل کر سوچنا لاکھوں میں کسی ایک کے لیے ممکن ہو پاتا ہے۔ ایسے لوگ نابغے کہے جا سکتے ہیں۔ فی زمانہ ہر وہ انسان اپنے آپ کو نابغوں کے درجے میں رکھتا ہے جو تھوڑا بہت پڑھ لیتا ہے اور کچھ سوچنا بھی جانتا ہے۔ عمومی سطح پر مطالعے اور فکر و نظر سے بیزاری اس قدر ہے کہ اس اندھیرے میں کہیں دور جھلملاتا دیا بھی روشنی کی بہت بڑی علامت دکھائی دیتا ہے! کوئی ایسا بھی ہے جو خوش نہیں رہنا چاہتا؟ آپ سوچیں گے ایسا تو بھری دنیا میں کوئی ایک بھی انسان نہیں۔ آپ بالکل صحیح سوچ رہے ہیں مگر ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ خوش رہنا کسی بھی درجے میں آسان نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ لوگ اپنے حواس اور افکار پر اس قدر قابو پا لیتے ہیں کہ حالات ان پر آسانی سے اثر انداز نہیں ہوتے مگر یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ یہ مہارت راتوں رات یا خود بہ خود حاصل نہیں ہو جاتی بلکہ خاصی محنت اور انہماک کے ذریعے حاصل کرنا پڑتی ہے۔
بیرن وُلف نے رشتوں اور تعلقات کے تفاعل اور نزاکتوں پر خاصی وقیع بحث کی ہے۔ انہوں نے زندگی سے متعلق خاص سوچ یا مائنڈ سیٹ کے حوالے سے بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ ہر انسان اپنے مائنڈ سیٹ کے دائرے میں رہتے ہوئے سوچتا اور زندگی کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کوشش میں اگر خوشی میسر ہو تو کیا کہنے۔ عام آدمی خوشی کو بالعموم ترستا ہی رہتا ہے اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ خوشی کو بنیادی اہداف کے درجے میں نہیں رکھتا۔ وہ ہمیشہ مسائل کا رونا روتا رہتا ہے اور جیسے تیسے انہیں حل کرنے کی تگ و دو کرتا رہتا ہے۔ خوش رہنے کو ہدف کے درجے میں نہ رکھنے کی صورت میں انسان کو کچھ خاص حاصل نہیں ہو پاتا۔
''How To Be Happy Though Human‘‘ کا ایک بنیادی پیغام یہ ہے کہ کسی بھی انسان کے لیے خوش رہنا محض حسنِ اتفاق کا معاملہ نہیں بلکہ شعوری فیصلے اور اس سے جڑی ہوئی مساعی کا نتیجہ ہوا کرتا ہے۔ اگر کسی کو خوش رہنا ہے تو خوش رہنے کا فیصلہ کرنا پڑے گا۔ جب فیصلہ کرلیا تو صلاحیت و سکت کو بہ رُوئے کار لاتے ہوئے کچھ ایسا کرنا ہی پڑتا ہے جو دل و دماغ کو سکون و راحت کی منزل تک پہنچائے اور وہ مسرّت یقینی بنائی جا سکے جس کا خواب دیکھا گیا ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جس میں قدم قدم پر مسائل ہیں‘ الجھنیں ہیں۔ ان سے نمٹنے کے لیے شعوری کوششیں ناگزیر ہیں۔ خوش رہنے کا فیصلہ چھوٹی عمر میں کیا جائے تو اچھا۔ والدین کو بچوں کی تربیت اس نہج پر کرنی چاہیے کہ وہ خوش رہنے کی اہمیت کو سمجھیں اور اس حوالے سے کوشاں رہنا سیکھیں۔ تو پھر آپ کا کیا خیال ہے خوش رہنے کے بارے میں؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved