سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی پر عالمِ اسلام سراپا احتجاج ہے۔ افسوس ہے کہ یورپی ممالک میں بے حرمتی اور توہین کی جسارت کے واقعات تسلسل سے جاری ہیں۔ اس سال جنوری میں بھی نیدر لینڈز‘ ڈنمارک اور سویڈن میں اس طرح کے شرمناک واقعات رونما ہو ئے تھے جس پر مسلم دنیا میں شدید غم و غصہ پیدا ہوا۔اﷲ کو ماننے والی پونے دو ارب سے زائد آبادی اگر اﷲ کا حکم ماننا شروع کر دے تو بے حرمتی اور توہین کی جرأت تو درکنار کوئی اس کا تصور بھی نہ کر سکے۔ قرآن پاک کی بے حرمتی اور نبی کریمﷺ کی شان کے منافی حرکات مسلم ممالک کے لیے کڑا سوال ہے۔ سفارتکاروں کی طلبی‘ واپسی اور احتجاج کب مؤثر ثابت ہوئے ہیں؟ ایک طرف عالمِ اسلام کے کم و بیش ایک ارب اَسی کروڑ لوگ ہیں اور دوسری جانب پوری دنیا میں تقریباً دو کروڑ یہودی ہیں جو سبھی کو اس طرح آگے لگائے ہوئے ہیں کہ گزشتہ ایک سو بیس سال میں 214 نوبیل پرائز یہودیوں اور صرف 13مسلمانوں نے جبکہ 727دیگر غیر مسلموں نے حاصل کیے۔ اس تناظر میں اپنی آبادی کو دیکھیں‘ ممالک کی تعداد کو دیکھیں اور فرصت ملے تو اپنی حالتِ زار پر بھی غور کریں‘ معمہ خود بخود حل ہو جائے گا۔
مسلم اُمّہ کے ساتھ ہم آوازپاکستان کا معاملہ بھی کچھ یوں ہے کہ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے‘ جبکہ زمینی حقائق دعووں سے یکسر مختلف ہیں۔ چینی کہاوت ہے کہ ایک تصویر ہزار الفاظ پر بھاری ہوتی ہے‘عالم اسلام کی کیسی کیسی تصاویر تاریخ کا حصہ اور چیخ چیخ کر کہتی چلی آرہی ہیں کہ اسلامی بھائی چارے کا چارہ تو بھارت کب کا چر چکا۔ نریندر مودی کو مدعو کرکے ایوارڈ دیتے ہوئے واری واری جانے کے مناظر ہوں یا مندروں کے افتتاح پر بھجن کی لے پر کلمہ گو مسلم فرمانرواؤں کے لہکنے کے مناظر۔ پاکستان مسلم اُمّہ کا دم بھرتا ہے‘ مگر وہ سبھی وقت پڑنے پر اپنا وزن پاکستان کے پلڑے میں ڈالنے سے گریزاں پائے گئے‘ جبکہ پاکستان کا عالم یہ ہے کہ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے۔ ایسے میں توہین کی ناپاک جسارت ہو یا کوئی اور گستاخانہ حرکت‘ سبھی کے ردعمل میں ہونے والے احتجاج غیر مؤثر ہوں گے‘ کیونکہ ان میں مسلم اخوت اور اتحاد کی تصویر نظر نہیں آتی۔
سویڈن میں قرآن کریم کی بے حرمتی پر عالمِ اسلام کے ردِعمل اور احتجاج کے اثرات کی بات کرتے ہوئے اپنے ہی ایک تقریباً دوسال پرانے کالم سے کچھ حصہ مستعار لے کر باور کراتا چلوں کہ یورپی ممالک کی حرکتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان پر نہ ہمارے غم و غصے کا کوئی اثر ہے اور نہ ہی وہ توہین مذہب کے واقعات پر ہمارے احساسات کو سمجھ رہے ہیں۔ادھر احتجاج کے نام پر اپنی ہی حکومت اور اداروں کو للکارا جاتا ہے۔ توہین اور بے حرمتی کا واقعہ سات سمندر پار رونما ہوتا ہے تو اینٹ سے اینٹ یہاں بجا دی جاتی ہے‘اس رویے اور احتجاج کا کون سا منظر چشمِ فلک نے نہیں دیکھا۔ میں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ''کرئہ ارض پر کس کی مجال جو میرے پیارے نبیﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کی جسارت کر سکے۔ خاکے بنانے والے تو میرے نبیﷺ کے غلاموں کے غلاموں کی خاکِ پا کے بھی قابل نہیں۔مگر تعجب ہے کہ نبیﷺ کو ماننے والے‘ نبیﷺ کی ناموس پر اپنی آل اولاد اور جانیں قربان کرنے کے دعویدار نبیﷺ کی تعلیمات کو کیسے فراموش کر جاتے ہیں۔ رسول عربیﷺ تو اس بڑھیا کی خیریت دریافت کرنے اس کے گھر جا پہنچے تھے جو روز آپؐ پر کوڑا پھینکتی تھی۔ طائف کے بازاروں میں سنگ باری سے لہولہان ہونے کے باوجود نبی رحمتﷺ بد دعا کے بجائے گستاخوں کے لیے اصلاح کی دعا فرماتے رہے۔ فتح مکہ کے موقع پر اس عورت کو بھی معاف فرما دیا جس نے نبی کریمﷺ کے محبوب چچا حضرت حمزہؓ کا کلیجہ نکال کر چبایا تھا۔ اسی طرح فتح مکہ کے موقع پر عفو و درگزر کے کیسے کیسے عظیم الشان مناظر دیکھنے میں آئے۔ حجۃ الوداع کے خطبہ میں دین کی تکمیل کا اعلان کرتے ہوئے آپﷺ نے پورا ضابطہ حیات ترتیب دے دیا۔ہماری رہنمائی اور تقلید کے لیے اسوئہ حسنہ بہت ہے۔ اس کے برعکس طرزِ فکر ہو یا طرزِ عمل‘ دونوں ہی نافرمانی کے زمرے میں آتے ہیں۔دنیا کے 56 مسلم ممالک میں بسنے والے کلمہ گو مسلمانوں کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ آئے روز آزادیٔ اظہار کے نام پرغیر مسلم ہماری دل آزاری کی جرأت کیسے کر لیتے ہیں؟ ان کے حوصلے روز بروز کیوں بڑھتے چلے جا رہے ہیں؟ دل آزاری کرنے والے کوسوں دور بیٹھ کر ہمارا تماشا کیوں دیکھتے ہیں‘ خصوصاً اس وقت جب ہم اپنا غصہ خود پر ہی اتارنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہمارے اپنے لوگ اپنے ہی ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا کر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے دل آزاری کا بدلہ لے لیا۔ اربوں روپے کی سرکاری املاک برباد کرنے کے علاوہ جلائو گھیرائو اور پُر تشدد واقعات کا اسلام کی تعلیمات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ امن و امان قائم رکھنے کی ڈیوٹی پر مامور اہلکاروں اور افسروں کو لہولہان کرنا‘ ان کی وردیاں پھاڑ کر انہیں سڑکوں پر گھسیٹنا کوئی دوسرا مائنڈ سیٹ تو ہو سکتا ہے لیکن شمع رسالت کا کوئی پروانہ ایسا ہرگز نہیں کر سکتا۔ اپنے ہی عوام کی گاڑیوں پر لاٹھیاں برسانا‘ خواتین اور بچوں کو ہراساں کرنا‘ دھرنے دے کر سڑکیں بند کرنا اور ملک بھر میں معمولاتِ زندگی کو مفلوج کرنا‘ خلقِ خدا کو اپنے ہی شہروں میں محصور کر کے رکھ دینا ہرگز اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں۔ اس مریض کا کیا قصور ہے جس نے تازہ تازہ بائی پاس کرایا ہے اور وہ تازہ خون یا ادویات کا ضرورت مند ہے۔ اس کی بقیہ زندگی کا انحصار ان لمحوں میں اس کے علاج کی ضروریات پر ہے۔ اگر جان بچانے والی ادویات‘ خون یا آکسیجن اس مریض تک نہ پہنچ سکیں تو اُس کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ کسی گھر میں نومولود کا کیا قصور کہ اس تک تازہ دودھ نہ پہنچ سکے؟ ہمارے نبی رحمتﷺ نے ایک ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے‘ آپؐ کے امتی سڑکوں پر تشدد کرنے اور خون بہانے سے کیوں نہیں چوکتے؟ہم اس قدر احتجاجی ہو چکے ہیں کہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ احتجاج کس کے خلاف کر ناہے اور کیسے۔ نیز یہ کہ ہماری پُر تشدد کارروائیوں کا ہدف کون بن رہا ہے؟ چنانچہ احتجاجوں میں زندگی اور نسلیں برباد کرنے کے بجائے اصل اہداف کا تعین کرنے کے علاوہ ان کمزوریوں کو بھی دور کیا جائے جن کی وجہ سے اپنے ہی گھر کو نقصان پہنچا تے اور اپنی ہی گلیوں کو میدانِ جنگ بنا لیتے ہیں۔ یہ کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں‘ تمام مسلم ممالک کے کلمہ گو حکمرانوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔‘‘
عالمِ اسلام کہیں بٹا ہوا ہے تو کہیں بھٹکا ہوا۔ اکثریت سراپأ ضرورت اور مستقل محتاج ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے۔پھر دہراتا چلوں کہ اﷲکو ماننے والے اگر اﷲ تعالیٰ کے احکامات کو بھی مانیں تو سب کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ اسلامی تاریخ کا ایک ایک ورق گواہ ہے کہ مٹھی بھر مسلمانوں کی اﷲ اکبر کی صدا نے قیصر و کسریٰ جیسی سلطنتوں کو لرزہ بر اندام کر دیا تھا۔ مسلمانوں کی للکار بڑی بڑی سلطنتوں کیلئے ہیبت کی علامت تھی‘ جوں جوں اﷲ کے احکامات سے دوری ہوتی گئی‘ ہم اپنے مقام سے گرتے ہی چلے گئے۔اقبالؔ نے کہا تھا :
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
اور اب عالم یہ ہے کہ:
شہر گل کے خس و خاشاک سے خوف آتا ہے
جس کا وارث ہوں اسی خاک سے خوف آتا ہے
کبھی افلاک سے نالوں کے جواب آتے تھے
ان دنوں عالم افلاک سے خوف آتا ہے
رحمتِ سید لولاکؐ پہ کامل ایمان
امتِ سید لولاک سے خوف آتا ہے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved