قرآنِ مجید اللہ تبارک وتعالیٰ کی آخری الہامی کتاب ہے جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے نازل فرمایا۔ قرآنِ مجید کے حوالے سے مغربی ممالک میں کئی مرتبہ معاندانہ رویے کا اظہار کیاجا چکا ہے۔ اس معاندانہ رویے کو دیکھ کر بہت سے لوگوں کے دلوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآنِ مجیدکے ساتھ وابستگی کا اظہار کرنے کے لیے ہمیں کن ذرائع کو اختیار کرنا چاہیے تاکہ ہم اللہ تبارک وتعالیٰ کی کتاب سے صحیح طور پر وابستہ ہو سکیں۔ اس حوالے سے جب کتاب وسنت کامطالعہ کیا جاتا ہے تو بہت سی قیمتی اور اہم باتیں سامنے آتی ہیں‘ جن کو بالترتیب بیان کیا جارہا ہے۔
1۔ قرآنِ مجید پر کامل ایمان: قرآنِ مجید پر کامل ایمان رکھنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔ قرآنِ مجید پر کامل ایمان رکھنے کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کے دل میں اس حوالے سے کسی بھی قسم کا شبہ یا تردّد نہ ہو کہ قرآنِ مجید اللہ تبارک وتعالیٰ کی نازل کردہ آخری کتاب ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 4 میں اہلِ تقویٰ کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ''اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر جو آپ کی طرف اتارا گیا اور جو آپ سے پہلے اتارا گیا اور وہ آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں‘‘۔ قرآنِ مجید پر کامل ایمان رکھنے کے لیے بعض باتوں پر غور کرنا ضروری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جب تک رسول اللہﷺ پر قرآنِ مجید کو نازل نہیں کیا تھا‘ اس سے پہلے آپﷺ نے کسی کے سامنے بھی زانوئے تلمذ کو تہ نہیں کیا تھا۔ اس کتاب کا نزول اس اعتبار سے حیرت انگیز واقعہ تھا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس میں علم وحکمت کے جن موتیوں کو سمویا تھا‘ ان کا اظہار اس انداز میں ہوا کہ بڑے بڑے فصیح وبلیغ لوگ بھی حیران وششدر رہ گئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو سورۃ العنکبوت کی آیت نمبر48 میں کچھ یوں بیان فرمایا: ''اس سے پہلے تو آپ کوئی کتاب پڑھتے تھے نہ کسی کتاب کو اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے کہ یہ باطل پرست لوگ شک وشبہ میں پڑتے‘‘۔
اسی طرح قرآنِ مجیدکے مضامین میں کسی قسم کاتضاد نہیں پایا جاتا۔ سورۂ نساء کی آیت نمبر 82 میں ارشاد ہوا: ''کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اگریہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقینا اس میں بہت سے اختلافات پاتے‘‘۔ اسی طرح یہ بات بھی حقیقت ہے کہ 14 سو برس کی طویل تاریخ کے دوران قرآنِ مجید کی کسی نظیر کو پیش نہیں کیا جا سکا۔ سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 88 میں ارشاد ہوا : ''کہہ دیجئے کہ اگر تمام انسان اور کل جنات مل کر بھی اس قرآن کے مثل لانا چاہیں تو ان سب سے اس کے مثل لانا نا ممکن ہے‘ گو وہ (آپس میں) ایک دوسرے کے مدد گار ہی بن جائیں‘‘۔ پورا قرآنِ مجید تو ایک طرف رہا‘ اس کی ایک آیت کی نظیر بھی پیش نہیں کی جا سکتی۔ جب انسان کا قرآنِ مجید پر پختہ ایمان ہوتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف کر دیتے اور اس کے معاملات کی اصلاح کر دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ محمد کی آیت نمبر 2 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور اس پر بھی ایمان لائے جو محمد (ﷺ) پر اتاری گئی ہے اور دراصل ان کے رب کی طرف سے سچا (دین) بھی وہی ہے، اللہ نے ان کے گناہ دور کر دیے اور ان کے حال کی اصلاح کر دی‘‘۔
2۔ تلاوتِ قرآن کرنا: قرآنِ مجید پر ایمان رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی تلاوت کرنا بھی ازحد ضروری ہے۔ اس بات کا مشاہدہ کیا گیا ہے کہ لوگ بالعموم رـمضان المبارک میں قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے یا سنتے ہیں اور رمضان المبارک گزر جانے کے بعد اس کی تلاوت کو فراموش کر دیتے ہیں۔ حالانکہ اس کی تلاوت کا کرنا باعث اجر و ثواب ہے۔کلام اللہ کی تلاوت کرنے کے حوالے سے سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 121میں ارشاد ہوا: ''جنہیں ہم نے کتاب دی اور وہ اسے پڑھنے کے حق کے ساتھ پڑھتے ہیں وہ اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور جو اس کے ساتھ کفر کرے وہ نقصان والا ہے‘‘۔
3۔ قرآنِ مجید پر غوروفکر کرنا: قرآنِ مجید کا ہمارے اوپر یہ بھی حق ہے کہ جہاں اس کی تلاوت کی جائے‘ وہیں اس کے معانی اور مفاہیم کو بھی سمجھا جائے۔ اس کے معانی اور مفاہیم کو سمجھ کر ہی انسان کو اعتقادات اور عمل کی درست راہوں کے بارے میں رہنمائی ہو سکتی ہے۔ سورۂ محمد کی آیت نمبر 24میں ارشاد ہوا: ''کیا یہ قرآن میں غوروفکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر ان کے تالے لگ گئے ہیں؟‘‘۔
4۔قرآنِ مجید پر عمل کرنا: جہاں قرآن مجید کے معانی ومفاہیم کو سمجھنا ضروری ہے وہیں اس پر عمل کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 44 میں ارشاد فرمایا: ''کیا لوگوں کو بھلائیوں کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو‘ باوجود یہ کہ تم کتاب پڑھتے ہو، کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں؟‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآ نِ مجید میں علمائے یہود کا ذکر کیا جو تورات کو سمجھتے تھے لیکن عمل نہیں کرتے تھے۔ سورۂ جمعہ کی آیت نمبر 5 میں ارشاد ہوا: ''جن لوگوں کو تورات پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا پھر انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر بہت سی کتابیں لادی ہوں‘‘۔
4۔ قرآنِ مجید کا ابلاغ: جہاں قرآنِ مجید پر عمل کرنا ضروری ہے‘ وہیں اس کا ابلاغ کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ بعض لوگ خود تو کتاب اللہ اور سنت نبوی شریف پر عمل کرتے ہیں لیکن اپنے اہلِ خانہ اور گردونواح کو اس کے احکامات سے آگاہ نہیں کرتے۔سورۃ الشعراء کی آیت نمبر 214میں ارشاد ہوا: ''اپنے قریبی رشتہ والوں کو ڈرائیے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہلِ ایمان کو اس بات کا بھی حکم دیا ہے کہ اپنے آپ اور اہلِ خانہ کو آگ کے عذاب سے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سورۃ التحریم کی آیت نمبر 6میں ارشاد ہوا: ''اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر‘‘۔ جہاں اپنے آپ اور گھروں والوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے اوامر سے آگاہ کرنا ضروری ہے وہیں دیگر انسانوں کو بھی حق سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو قرآنِ مجید کے مختلف مقامات پر بیان کیا ہے۔ سورۃ الشوریٰ کی آیت نمبر 7 میں ارشاد ہوا: ''اسی طرح ہم نے آپ کی طرف عربی قرآن کی وحی کی ہے تاکہ آپ مکہ والوں کو اور اس کے آس پاس کے لوگوں کو خبردار کر دیں اور جمع ہونے کے دن‘ جس کے آنے میں کوئی شک نہیں‘ سے ڈرا دیں‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو جمیع انسانیت کے لیے بشیر ونذیر بنا کر بھیجا اور اس کے ساتھ ساتھ امت محمدیہ پر بھی یہ ذمہ داری عائد کی کہ وہ دعوتِ دین کو لوگوں تک پہنچائیں۔ سورۂ آلِ عمران کی آیت نمبر 110میں ارشاد ہوا: ''تم بہترین اُمت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم دیتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو‘‘۔
5۔ قرآنِ مجید کا نفاذ: اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں قرآنِ مجید کی تبلیغ کو ضروری قرار دیا ہے‘ وہیں اس حقیقت کو بھی قرآنِ مجید میں بیان فرمایا ہے کہ اہلِ اسلام کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے قوانین کا نفا ذ کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ المائدہ میں ان لوگوں کو ظالم، فاسق اور منکر قرار دیا جو اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلے نہیں کرتے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے قوانین کے نفاذ سے معاشی حالات کا بہتر ہوجانا ایک ایسی حقیقت ہے جس کو قرآنِ مجید میں واضح طور پر فرما دیاگیا ہے۔ سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 66 میں ارشاد فرمایا: ''اور اگر یہ لوگ تورات وانجیل اور ان کی جانب جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل فرمایا گیا ہے‘ ان پر پوری طرح پابند رہتے تو یہ لوگ اپنے اوپر سے اور نیچے سے روزیاں پاتے اور کھاتے، ایک جماعت تو ان میں سے درمیانہ روش کی ہے، باقی ان میں سے بہت سے لوگوں کے برے اعمال ہیں‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے جرائم کی روک تھام کے لیے قرآنِ مجید میں مختلف حدود کا ذکر کیا۔ اگر ان حدود کو صحیح طور پر قائم کر دیا جائے تو انسانوں کی جان، مال، عزت کا تحفظ بہترین طریقے سے ہو سکتا ہے۔ چنانچہ ہمیں قرآنِ مجید کے نفاذ کے لیے پُرامن طریقے سے جدوجہد کرتے رہنا چاہیے۔ اگر قرآنِ مجید کے ان حقوق کو ادا کرنے کے لیے مسلمان کوشاں رہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم حقیقی طور پر ایک ایسی اُمت کی شکل اختیار نہ کر جائیں جس کی قرآنِ مجید سے صحیح طور پر وابستگی ہو۔ اس نسبت اور تعلق کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے ہم ایک ایسے طبقے کی شکل اختیار کر سکتے ہیں جو قرآنِ مجید اور نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس کے حوالے سے کفار کے معاندانہ رویے کا بطریق احسن مقابلہ کر سکتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved