اب تو یہ سب کچھ میرے پیچھے ہے۔ یہ الفاظ ہیں چیئرمین پی ٹی آئی کے جو انہوں نے ایک غیرملکی چینل کے مشہور میزبان مہدی حسن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہے۔ اس جملے سے ان کا مقصد یہ تھا کہ میں امریکی سازش کے بارے میں یہ بات بھول چکا ہوں ‘باقی لوگ بھی بھول جائیں۔
سوال اس امریکی مداخلت اور سازش سے متعلق تھا جو چیئرمین پی ٹی آئی کے بقول انہیں اقتدار سے ہٹانے کے لیے کی گئی تھی۔ وہ ایک امریکی چینل کو انٹرویو دے رہے تھے اور اس سے چند گھنٹے پہلے ہی ایک امریکی حکومتی نمائندے نے ایک بار پھر اس کی تردید کردی تھی کہ انہوں نے کسی بھی طرح تحریک انصاف کی حکومت گرانے میں مدد کی تھی۔ جواب کے آخری حصے میں چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ اب تو یہ سب میرے پیچھے ہے اور اس جواب کا عروج اس وقت آیا جب اسی سانس میں انہوں نے امریکیوں سے یہ درخواست کی کہ وہ ان کی پارٹی کے خلاف ظلم کا نوٹس لیں اور اسے بند کروائیں۔
''اب تو یہ سب کچھ میرے پیچھے ہے‘‘ میں یہ جملہ سنتا ہوں تو میرے تن بدن میں آگ لگنے لگتی ہے۔ یہ صاحب کیا سمجھتے ہیں قوم کو؟ بیوقوف؟ فاترالعقل؟ بھیڑوں کا ریوڑ؟ بہت ڈھٹائی چاہیے یہ بات بھول جانے کے لیے‘ اس بیانیے کو پس پشت ڈال دینے کے لیے جس کے پیچھے کروڑوں لوگوں کو پاگل بنائے رکھا۔ وہ جو جیب سے کاغذ نکال کر 27مارچ 2022ء کو جلسۂ عام میں لہرایا تھا‘ اسے امریکی سازش کا نام دیا تھا‘ امریکہ کی غلامی سے آزادی کا نعرہ بلند کیا تھا‘ وہ جو کہا تھا کہ روس سے تیل خریدنے پر امریکہ نے سزا دی ہے‘ وہ سب بیان کہاں گئے۔ وہ جو امریکی سازش کے حوالے سے میر جعفر اور میر صادق کے خطاب دیے تھے‘ یہ صدیوں پہلے کی بات نہیں ہے خان صاحب! محض چند مہینے پہلے تک آپ کیا کہہ رہے تھے۔ اب آپ انہی امریکیوں کو مدد کیلئے پکار رہے ہیں تو آپ کا کیا خیال ہے وہ آپ کو کیا سمجھیں گے؟
یہ صاحب ملک کو اور اس کے بین الاقوامی تعلقات کو کیا سمجھتے ہیں؟ اس کی عالمی ساکھ کو کیا سمجھتے ہیں؟ ایک پرانی گھسی ہوئی گیند؟ ایک استعمال شدہ بیٹ؟ ایک ٹوٹا ہوا پیڈ؟ جو کسی بھی طرف پھینک دیے جائیں‘ ان کی کوئی وقعت نہیں ہوتی؟ یہ لوگ کیا ہیں جنہیں آپ امریکہ سے مکمل آزادی کے نام پر ریلیوں اور دھرنوں میں لے جاتے رہے ہیں۔ کرسی تک پہنچنے کی سیڑھیاں؟ کون سا نعرہ ہے جو آپ نے نہیں بیچا؟ امریکہ دشمنی‘ فوج دشمنی‘ کرپشن دشمنی۔ اس پر بس نہیں‘ ریاستِ مدینہ اور حقیقی خود مختاری۔ کون سا خواب ہے جو آپ نے اپنی دکان پر نہیں سجایا اور اس کی آڑ میں اپنے خواب پورے نہیں کیے؟ اور اب جب آپ کو امریکہ سے مدد مانگنی ہے تو یہ سب کچھ آپ کے پیچھے ہے؟ ہر مطلبی سیاست دان نے اپنے مطلب کے لیے یہی کیا ہے اور افسوس یہ ہے کہ آپ بھی ویسے ہی نکلے۔
مہدی حسن صاحب کا یہ انٹرویو ہر حوالے سے مایوس کن نکلا۔ بہت مختصر تھا‘ بہت جانبدار نظر آتا تھا اور زمینی حقائق میزبان کے علم میں نہیں تھے۔ اگر یہ چینل کی پالیسی تھی‘ تب بھی اور اگر میزبان نے اس انٹرویو کے لیے ٹھیک تیاری نہیں کی تھی تب بھی۔ یہ مایوس کن تھا۔ میں مہدی حسن کا معترف رہا ہوں۔ ان کے سابقہ مشہور عربی چینل الجزیرہ پر ان کے بہت سے جارحانہ انٹرویوز دیکھ چکا ہوں۔ وہ مہمان کے بارے میں مکمل تیاری کے ساتھ میدان میں آتے تھے اور اپنے جارحانہ‘ جچے تلے اور نکیلے انداز کے باعث مہمان کے لیے راہِ فرار بند کر دیتے تھے۔ ان کی موضوع پر گرفت ہوتی تھی۔ وہ ان کمزور پہلوؤں کو فراموش نہیں کرتے تھے بلکہ زیادہ توجہ دیتے تھے جن کے بارے میں مہمان کا جواب دینا بہت مشکل ہو جاتا تھا۔ میں حیران تھا کہ یہ سب کچھ چیئرمین پی ٹی آئی کے انٹرویو میں کہاں غائب تھا۔ پھر وہ واضح طور پر ان کے مخالفین اور موجودہ حکومت کے بارے میں منفی تاثر دیتے رہے اور ان کی غیرضروری ستائش اور مقبولیت بیان کرتے رہے۔ یہ انٹرویو زمینی حقائق اور مہدی حسن کے انداز سے بالکل مطابقت نہیں رکھتا۔ مہدی حسن نے جب پوچھا کہ آج آپ مقتدرہ کے مخالف ہیں‘ 2018ء میں اسی کی مدد سے اقتدار میں پہنچے تھے۔ تو چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا میں کسی کی مدد سے نہیں بلکہ اپنی مقبولیت کے بل پر اقتدار میں پہنچا تھا‘ مقتدرہ اس وقت غیرجانبدار رہی تھی۔ یہ بالکل جھوٹ ہے۔ سب جانتے ہیں کہ خان صاحب کی پارٹی میں مختلف لوگوں کی شمولیت‘ چھوٹے چھوٹے گروپوں کی حمایت کے پیچھے کس کی مدد کارفرما تھی۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی اس ملی بھگت کا تانا بانا مخدوم جاوید ہاشمی نے 2014ء ہی میں پی ٹی آئی سے الگ ہوتے ہوئے واضح طور پر بتا دیا تھا۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے اس بات کی تردید کی کہ ان کے دور میں صحافیوں اور میڈیا پر پریشر ڈالنے کے معاملات ہوتے رہے۔ مہدی حسن کو یہ بھی پوچھنا چاہیے تھا کہ ان کے دور میں مخالف سیاست دانوں پر جو مقدمے قائم ہوتے رہے‘ گرفتاریاں ہوتی رہیں اور جس طرح وہ نیب میں رگیدے جاتے رہے‘ ان کا ذمے دار کون تھا؟ خان صاحب کے اس انتقامی پالیسی کو صدیاں نہیں بیت گئیں‘ یہ سب کچھ سب کے سامنے ہوتا رہا ہے۔ اور ابھی دیکھتے جائیے۔ تحریک انصاف چھوڑنے والوں مثلاً اسد عمر اور پرویز خٹک کے خلاف‘ جو پارٹی کا دفتری رد عمل سامنے آرہا ہے‘ اس میں سے کسی ایسے ساتھی کے لیے جو پی ٹی آئی کے سر فہرست ناموں میں سال ہا سال رہا ہو‘ کوئی احترام کا جذبہ‘ نقصان کی تلافی کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ گویا جو پارٹی چیئرمین کو چھوڑ گیا وہ مخالفین کی صف میں شامل ہوگیا اور مخالفین کے لیے چیئرمین پی ٹی آئی کبھی احترامی سلوک نہیں رکھا کرتے۔
اپنی ایک حالیہ تقریر میں چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنے حامیوں کو ایک احتجاجی کال دی ہے اور اس میں خاص طور پر پُرامن احتجاج کی ہدایت کی ہے۔ یہ وہ مُکا ہے جو لڑائی کے بعد یاد آیا ہے۔ یہ پُرامن احتجاج ان کے مزاج میں نہ تھا‘ نہ ہے۔ اب وہ کچھ بھی کہیں‘ سچ یہ ہے کہ خان صاحب کے قول و فعل پر اعتماد ختم ہوگیا ہے اور اس سے بھی بڑا سچ یہ کہ انہوں نے اپنے مزاج اور اپنی پالیسیوں سے سب کو دور ہی نہیں‘ خوف زدہ بھی کردیا ہے۔ ان کے حالیہ یا سابقہ قریبی دوست ہوں‘ سیاسی مخالفین ہوں‘ مقتدرہ ہو‘ عام پاکستانی ہوں یا سوچنے سمجھنے والے قلم کار اور صحافی۔ ہر ایک کے خوف کا رُخ الگ الگ ہے لیکن سبھی ڈرے ہوئے ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو یہ مغالطہ ہے کہ سب ان کی مقبولیت سے خائف ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سب ان کے مزاج سے ڈرے ہوئے ہیں۔ ان کی جماعت کے لوگوں کا دیرینہ خوف تو 9مئی کو مجسم ہوکر سامنے آگیا کہ ٹکراؤ کی یہ پالیسی جماعت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچائے گی۔ کسی کی بات نہ سننے سمجھنے والا آئندہ بھی کسی کی نہیں سنے گا۔ مخالفین کو یقین ہے کہ اگلے ممکنہ اقتدار میں ان کے ساتھ پہلے سے بھی بدتر سلوک ہوگا۔ مقتدرہ اپنے لیے اور مجموعی ملکی سلامتی کے لیے خوف زدہ ہے۔ اور عام یا زیادہ باشعور طبقے خوف زدہ ہیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی اپنی مرضی کے مطابق کچھ بھی کر گزرنے پر قادر ہیں۔ انہیں کوئی سنبھالنے والا نہیں۔ اور یہ خوف سانجھا ہے کہ توہم پرست وزیراعظم دوبارہ آیا تو ملک کا کیا بنے گا؟
خان صاحب کا بہترین دور تو ختم ہو چکا لیکن افسوس ہے کہ ختم نہیں ہوتا۔ ان کے زوال کے ساتھ ہی اس امید کو بھی زوال آچکا کہ کوئی اہل‘ دانشمند‘ پُر خلوص سیاست دان اس ملک کو اپنی پالیسی سے مسائل سے نکال سکے گا۔ خان صاحب! آپ کا سیاسی ورثہ تو بے شمار نئے مسائل ہیں۔ چونکہ آپ ہر چیز سے بری الذمہ ہیں‘ اس لیے کروڑوں لوگوں کو ہی بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ کیوں کہ سب کچھ آپ کے پیچھے رہ گیا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved