دینی مقدَّسات میں سب سے اہم ذاتِ باری تعالیٰ، ذاتِ رسالت مآبﷺ اور قرآنِ کریم ہے۔ مزید تفصیل کا یہ مقام نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ عالی صفات کے ساتھ ساتھ ذاتِ رسالت مآبﷺ کی عظمتِ شان اور آداب خود قرآنِ کریم میں بھی بیان کیے گئے ہیں۔ مسلمان عملی اعتبار سے کتنا ہی کمزور ہو، دینی مقدَّسات کی بے حرمتی پر مشتعل ہو جاتا ہے، اپنے جذبات پر قابو رکھنا اس کے لیے دشوار ہو جاتا ہے اور وہ اپنی جان، مال، آبرو حتیٰ کہ اپنا سب کچھ ان مقدّسات پر قربان کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور مغرب میں جب بھی اس طرح کے واقعات ہوئے، دنیا بھر کے مسلمانوں نے بے اختیار اپنے ردِّعمل کا اظہار کیا، اس میں وہ مسلمان تارکینِ وطن بھی شامل ہیں جو اُن ممالک کی شہریت اختیار کر چکے ہیں یا قانونی طور پر وہاں مقیم ہیں۔
اب سوال یہ ہے: ''مسلمان اپنے دینی مقدَّسات کی حرمتوں کا تحفظ کیسے کریں، ان دیدہ دانستہ مذموم ابلیسی تحریکات کا سدِّباب کیسے کریں‘‘، یہ مسئلہ مسلمانوں کے اہلِ فکر و نظر کے لیے سنجیدہ اور گہرے غور و فکر کا تقاضا کرتا ہے۔ ہمارے سمجھنے کی پہلی بات یہ ہے: بعض اوقات مسلم ممالک میں عوام جذبات میں آکر مظاہرے کرتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں، اپنے جذبات اور ردِّعمل کا اظہار کرتے ہیں، اس حد تک یہ بات درست، قابلِ فہم بلکہ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے۔ لیکن جذبات سے مغلوب ہو کر اپنے ہی ملک میں قومی اور نجی املاک کو تباہ کرنا یا خدانخواستہ جانی نقصان ہو جانا، درست نہیں ہے۔ جب ہم ایک غلطی کے ازالے کے لیے نکلیں تو ردِّعمل میں ہمیں دوسری غلطی کا ارتکاب کرنا زیب نہیں دیتا اور ویسے بھی یہ ''گھر پھونک تماشا دیکھ‘‘ کامصداق ہے۔ اسی طرح خدانخواستہ ملک کے اندر یا باہر‘ دوسروں کے مذہبی اداروں، اشخاص اور سفارت خانوں پر حملہ کرنا بھی مناسب نہیں ہے۔ اگرچہ وقتی طور پر جذباتی لوگوں کو اس سے تسکین ملتی ہے، لیکن اس طرح کے عوامل آخرِ کار منفی نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔
ہماری سوچی سمجھی رائے ہے: ''مغربی ممالک میں وقتاً فوقتاً اس طرح کی مذموم حرکات (مثلاً: توہین آمیز کارٹون چھاپنا، کتابِ مقدس کو جلانا، ہمارے دیگر دینی مقدَّسات کی بے حرمتی کرنا) دیدہ ودانستہ کی جاتی ہیں‘‘، کیونکہ انہیں معلوم ہے: ''مسلمان اس پر بے اختیار ردِّعمل کا مظاہرہ کریں گے اور وہ بعض مواقع پر حدود سے تجاوز بھی کر سکتے ہیں‘‘، اس طرح وہ دنیا پر یہ ثابت کریں گے اور پُرزور پروپیگنڈا کریں گے: ''مسلمان انتہا پسند ہیں، عسکریت پسند ہیں، دوسروں کے خلاف نفرت انگیزی کرتے ہیں، دہشت گرد ہیں، ان سے امنِ عالَم کو خطرہ ہے اور ہمارے لبرل حضرات اُن سے بھی چار ہاتھ آگے ہوں گے‘‘۔ یہی ''اسلاموفوبیا‘‘ ہے۔ وہاں کی حکومتیں ان مذموم ابلیسی کارروائیوں پر رسمی طور پر اظہارِ مذمت یا اظہارِ افسوس کر دیتی ہیں اور بس۔ جب اُن سے ایسے بدبختوں کو سزا دینے کی بات کی جائے، توکہتے ہیں: اظہارِ رائے کی آزادی اور پریس کی آزادی ہمارے تمدّن، نظام یا لائف سٹائل کے لوازمات میں سے ہے، یعنی یہ چیزیں اُن کے لیے عقیدے کا درجہ رکھتی ہیں اور ان پر وہ کسی طرح کی روک ٹوک عائد کرنے اور قدغن لگانے کے لیے تیار نہیں ہوتیں، وہ ا سی مادر پدر آزاد ی پر مشتمل تہذیب کو دوسری اقوام پر مسلّط کرنا چاہتی ہیں اور اس کے لیے وہ یک زبان، یک جان اور یک سو ہو جاتی ہیں۔ چونکہ انہیں حربی، مادّی، اقتصادی اور سیاسی اعتبار سے باقی دنیا پر غلبہ حاصل ہے، نیز عالمی اداروں کی پالیسی سازی پر بھی انہی کا غلبہ ہے، اس لیے اُن کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، وہ ممالک تجارتی اور سفارتی پابندیاں لگا دیتے ہیں، ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کا ناطقہ بند کر دیتے ہیں اور اس کا کوئی مؤثر توڑ تاحال دوسری اور تیسری دنیا کے پاس نہیں ہے۔
وہی مغربی اقوام جن کی حکومتیں مسلمانوں کی دل آزاری اور اذیت رسانی کے جرم کو پریس کی آزادی اور اظہارِ رائے کی آزادی کے پُرفریب نعروں کی آڑ میں تحفظ دیتی ہیں، وہاں اگر ہولو کاسٹ کا کوئی انکار کرے یا اسے محض پروپیگنڈا قرار دے تو یہ اہلِ مغرب کے نزدیک قابلِ تعزیر جرم ہے، کیونکہ اُن کے نزدیک اس کے ذریعے یہودیوں کی دل آزاری ہوتی ہے۔ الغرض اُن کے نزدیک کم و بیش سولہ ملین یہود کی دل آزاری جرم ہے، مگر دو‘ پونے دو ارب مسلمانوں کی دل آزاری سرے سے جرم نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ ایک قابلِ مذمت یا قابلِ تاسّف فعل ہے۔ اس سے مسلمانوں کو اپنی قدر و منزلت کا بھی اندازہ لگا لینا چاہیے کہ دنیا محض تعداد کو نہیں دیکھتی، عالمی سیاست، عالمی معیشت اور عالمی امور میں کسی کی اہمیت کو دیکھتی ہے، ستاون مسلم ممالک کے حکمرانوں کو اور خود عام مسلمانوں کو بھی اس پر غور کرنا چاہیے۔
مسلم ممالک کے حکمرانوں کا ردِّعمل نیم دلانہ، پست ہمتی اور کمزوری پر مبنی ہوتا ہے، علامتی طور پر مسلم ممالک کا ایک فورم او آئی سی ہے، اسے عربی میں ''مُنَظِّمَۃُ التَّعَاوُنِ الْاِسْلَامی‘‘ کہا جاتا ہے، لیکن اس میں تنظیم، تعاون، اتحاد اور تحریک کی حقیقی روح موجود نہیں ہے، بس دفع الوقتی اور اپنے عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے وہ ایک آدھ اجلاس کر لیتے ہیں، کوئی قرارداد پاس کر لیتے ہیں اور بس!۔ اس کا پہلا اور آخری حل یہی ہے کہ جس ملک میں اسلام کے دینی مقدّسات کی اہانت ہو، اُس کا اقتصادی، سفارتی اور تجارتی بائیکاٹ کیا جائے، اقوامِ متحدہ اور حقوقِ انسانی کے عالَمی اداروں پر دبائو ڈالا جائے کہ اقوامِ عالَم اپنے اپنے ممالک میں دینی مقدسات کی اہانت کے بارے میں سخت قوانین بنائیں، اسے قابلِ تعزیر جرم قرار دیں اور اس کے سدِّباب کے لیے سنگین سزائیں مقرر کرکے انہیں نافذ کریں۔ اقوامِ متحدہ سے بھی مطالبہ کیا جائے کہ ''دہشت گردی‘‘ کی ایک جامع مانع اور اجماعی تعریف کی جائے، کیونکہ ایک یا چند افراد کو زبان، مذہب یا رنگ ونسل کی بنیاد پر جسمانی اذیت پہنچانا اگردہشت گردی ہے تو ایک یا چند افراد کا ابلیسی حرکت کے ذریعے دو ارب کے لگ بھگ مسلمانوں کو ذہنی، روحانی اور قلبی اذیت پہنچانے کو بھی دہشت گردی اور قابلِ تعزیر جرم قرار دیا جائے، اس مسئلے کا یہی ایک حل ہے، کیونکہ درحقیقت یہ سب سے بڑی دہشت گردی ہے۔
یہاں یہ بات بھی ریکارڈ پر لانا ضروری ہے کہ خود پاکستان کے اندر سوشل میڈیا پر دینی مقدّسات کی توہین کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ دنوں ''لیگل کمیشن آن بلاسفیمی پاکستان‘‘ کے چیئرمین جناب رائو عبدالرحیم ایڈووکیٹ اسلام آباد سے تشریف لائے اور ہمیں شواہد دکھائے کہ سوشل میڈیا پر اسلام کے دینی مقدّسات کے بارے میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔ یہ آڈیو؍ وڈیو مناظر سن کر اور دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، جھرجھری طاری ہو جاتی ہے، دل دہل جاتا ہے، انسان سوچتا ہے: زمین پھٹ کیوں نہ گئی، آسمان کیوں نہ ٹوٹ پڑا، کوئی مسلمان نہ ان مناظر کو بیان کر سکتا ہے اور نہ دیکھنے کی جسارت کر سکتا ہے۔ لیکن مقامِ افسوس یہ ہے کہ جو لوگ سوشل میڈیا پر یہ کام کر رہے ہیں، ان کے نام مسلمانوں جیسے ہیں۔ رائو صاحب نے بتایا: انہوں نے سینکڑوں افراد کی نشاندہی کرکے حکام تک پہنچایا، لیکن قانون حرکت میں آتا ہے اور نہ عدالتیں بروقت فیصلے کرتی ہیں۔ ہماری اعلیٰ عدالتوں کو سیاسی مقدمات سے فرصت ہی نہیں کہ وہ دینی مقدّسات کی حرمتوں کے تحفظ کے لیے اپنے منصبی اختیارات کو استعمال کریں، وہ اپنی ناموس کے لیے تو بہت حساس ہوتی ہیں، توہینِ عدالت کی دھمکی دیتی ہیں، لیکن انہیں سوچنا چاہیے کہ کیا وہ دینی مقدسات کی حرمتوں کو اپنے منصب کی حرمت کے برابر بھی نہیں سمجھتیں۔ اسی طرح اگر کوئی بااختیار اور طاقتور شخصیت کی توہین کرے اور وہ شخص ملک کے اندر موجود ہے تو اُسے پاتال یعنی تحت الثریٰ سے بھی باہر نکال کر لے آتے ہیں، لیکن یہ پھرتی دینی مقدّسات کی حرمتوں کے تحفظ کے لیے نہیں دکھائی جاتی۔
جب ہم ان مذموم ابلیسی حرکات کی نشاندہی کرتے ہیں اور ان کا شرعی حکم بیان کرتے ہیں، تو ہمارے لبرلز کو تکلیف ہوتی ہے اور یہ بحث کرنے لگتے ہیں: فتویٰ دینا کس کا کام ہے، اُن کی خدمت میں گزارش ہے: فتوے اور قضا میں فرق ہے، اس تحقیق میں جائے بغیر کہ بیان کردہ صورتِ مسئلہ درست ہے یا غلط، حقیقتِ حال کے مطابق ہے یا نہیں، مفتی کا کام فقط یہ ہے کہ بالفرض اگر بیان کردہ صورتِ مسئلہ درست ہے تو اس کا حکمِ شرعی یہ ہے۔ الزام کی تحقیق کرنا، ثبوت و شواہد کی جانچ پڑتال کرنا اور الزام کو ثابت یا ردّ کرنا یہ قاضی کا کام ہے، دونوں باتوں کو خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔ انہی حکومتوں اور میڈیا کو جب ضرورت پڑتی ہے تو پھر فتوے کے لیے علما سے رجوع کرتے ہیں۔ '' پیغامِ پاکستان‘‘ اس پر شاہد ہے۔ اگر حکومت کا اپنا قائم کردہ آئینی ادارہ ''اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان‘‘ یا ہماری عدالتیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انتظامیہ اپنے فرائض ٹھیک ٹھیک انجام دیں تو علمائے کرام کو ان امور میں دخل اندازی کا شوق نہیں ہے، لیکن جب دینی مقدّسات کی حرمتوں کو پامال کیا جائے اور ہماری انتظامیہ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ہر سطح کی عدالتوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگے، تو پھر اللہ کی زمین پر اللہ کے بندوں پر اللہ کی حجت کو قائم کرنا علمائے حق کی ذمہ داری ہے اور اگر وہ اس سے گریز کریں یا چشم پوشی کریں یا گوشۂ عافیت تلاش کریں، تو یہ اُن کی طرف سے دینی ذمہ داری سے غفلت اور پہلوتہی قرار پائے گا۔ 9 مئی کے سانحے پر من حیث القوم ہم اتنے حساس کیوں ہیں، اس کا سبب اس کے سوا اور کیا ہے کہ ریاستی اداروں کی حرمت پامال ہوئی، حالانکہ ہم سب کی حرمتیں دینی مقدسات کی حرمتوں پر قربان ہو جائیں تو بھی کم ہے۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved