زندگی صحرا ہے یا گلشن؟ آسانی ہے یا دشواری؟ سفر ہے یا منزل؟ خوشی ہے یا غم؟ مشکل پسندی ہے یا سہل پسندی؟ آپ سوچتے جائیے اور طے نہیں کرپائیں گے کہ زندگی آخر ہے کیا۔ طے اس لیے نہیں کر پائیں گے کہ زندگی یہ بھی ہے اور وہ بھی ہے یعنی سب کچھ ہے۔ زندگی کو کسی ایک خانے میں بند نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کسی ایک درجہ بندی میں فٹ رہنے والا معاملہ ہے ہی نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ زندگی کے بارے میں کچھ نہ سوچئے تو اُسے بسر کرنا ممکن نہ رہے گا۔ آپ اپنے قریبی ماحول ہی کو غور سے دیکھیے۔ اکثریت سوچے اور سمجھے بغیر جی رہی ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ جو لوگ نہیں سوچتے وہ کم از کم ایک معاملے میں تو فائدے میں رہتے ہیں ‘ یہ کہ جی کو کوئی بھی روگ نہیں لگتا، کوئی بھی فکر ہر وقت کھاتی نہیں رہتی۔ جو لوگ سوچتے ہیں اور زندگی کے بارے میں کوئی رائے قائم کرتے ہیں اُنہیں آپ سوچوں میں گم پائیں گے۔ سوچنا اُن کے لیے سوہانِ روح ہوتا جاتا ہے۔ ایسے میں وہ لوگ زیادہ مزے میں دکھائی دیتے ہیں جو سوچتے نہیں اور کسی نہ کسی طور جیے جاتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں بھی ایک عمومی رجحان یا رویہ یہ ہے کہ زیادہ نہیں سوچنا چاہیے اور زندگی کو ہنستے گاتے گزار دینا چاہیے۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ جہاں سوچنا لازم ہو وہاں بھی نہ سوچا جائے تو؟ کیا ایسی حالت میں بھی ہنستے گاتے جینا ممکن ہے؟ مشاہدہ بتاتا ہے کہ لوگ سوچنے سے اس لیے کتراتے ہیں کہ یہ محنت طلب کام ہے۔ ذہن کو جب کسی کام پر لگائیے تو اُس پر دباؤ بڑھتا ہے۔ منصوبہ سازی انسان کے لیے کبھی کبھی بہت بڑا دردِ سر ثابت ہوتی ہے۔ جنہیں بچپن سے تربیت نہ دی گئی ہو وہ زندگی کے بارے میں اپنا رویہ راتوں رات یا بہت کم مدت میں تبدیل نہیں کرسکتے ع
یہ تو اِک عمر کی ریاضت ہے
زندگی کے بارے میں ہمارا عمومی رویہ ہی اس بات کا تعین بھی کرتا ہے کہ ہم کیسے جی پائیں گے۔ اگر ہم زندگی کو سرسری طور پر لیتے رہیں تو گزر بسر ہوتی رہے گی۔ گزر بسر یعنی محض گزارے کی سطح۔ حیوان بھی اِسی سطح پر جیتے ہیں۔ کیا یہ سطح اس قابل ہے کہ خرد و شعور رکھتے ہوئے‘ اپنائی جائے؟ کیا ہمارا مقصدِ تخلیق یہ ہوسکتا ہے کہ جیسے تیسے سانسوں کی گِنتی پوری کرکے دنیا سے چل دیں؟ عقلِ سلیم کہتی ہے کہ ایسا نہیں ہے اور ایسا ہو بھی نہیں سکتا۔ محض گزارے کی سطح پر جینا تو خالص حیوانی عمل ہے۔ یہ عمل انسانوں کو کسی حال میں زیبا نہیں۔ تو پھر کیا سبب ہے کہ لوگ بالعموم سوچے سمجھے بغیر، حیوانی سطح پر جینے کو ترجیح دیتے ہیں؟ سیدھی سی بات ہے کہ ایسا کرنے میں کچھ زیادہ محنت نہیں لگتی۔ لوگ محنت سے جی چراتے ہیں‘ کتراتے ہیں۔ عمومی سطح پر واضح یا غالب اکثریت کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ جیسے تیسے گزر جائے، کچھ خاص سوچنا اور کرنا نہ پڑے۔ یہ تن آسانی کا معاملہ ہے۔
زندگی ہم سے بہت کچھ طلب کرتی ہے۔ اور کیوں نہ کرے؟ وہ ہمیں بہت کچھ دیتی بھی تو ہے۔ اگر ہم سوچ لیں کہ جو کچھ بھی زندگی سے ملا ہے وہ ہمارے استحقاق سے بہت کم ہے تو دل کو ہر وقت قلق ہی رہے گا، آنکھوں میں آنسو ہی رہیں گے۔ ایسا ہوتا بھی ہے یعنی کسی کو اُس کے استحقاق سے کم ملتا ہے مگر جب پوری دیانت اور سنجیدگی سے محنت کرنے پر بھی مطلوب نتائج نہ ملیں تب خدا کی رِضا میں راضی رہنا ہی انسان کے لیے بہترین طرزِ فکر و عمل ہے۔ اگر محنت بھی کی گئی ہو اور استحقاق بھی ہو تو مطلوب نتائج نہ ملنے کا ایک ہی سبب ہوسکتا ہے‘ یہ کہ قدرت نے ہمارے لیے کچھ اور سوچ رکھا ہے۔ جو لوگ خدا کی مرضی اور مشیت پر صابر و شاکر رہتے ہیں وہی کامیاب ہیں کیونکہ اُن کے دل کو اس بات کا اطمینان رہتا ہے کہ قدرت نے بظاہر استحقاق پر بھی کچھ نہیں دیا تو ہمارے لیے بھلے ہی کے لیے ایسا ہوا ہوگا۔ یہ سوچ ذہن اور روح دونوں کو توانا رکھتی ہے۔ صابر و شاکر رہنے سے انسان مزید محنت کرنے کے لیے مطلوب توانائی جُٹانے میں کامیاب ہو پاتا ہے۔
اب آئیے اِس نکتے کی طرف کہ اگر ہمیں استحقاق سے کم ملا ہو تو کیا کرنا چاہیے۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ آج کے سائنس دان کسی اور سیارے پر زندگی کے آثار تلاش کرنے کے لیے کتنی محنت کر رہے ہیں؟ خلائے بسیط میں کئی مشن بھیجے جاچکے ہیں۔ مریخ اور دیگر سیاروں کو کھنگالا جارہا ہے۔ کسی نہ کسی طور کہیں زندگی کے آثار کی تلاش انسان کا ایسا خواب ہے جس کی تعبیر اُسے حقیقی تسکینِ قلب عطا کرے گی۔ ہم ایک ایسے سیارے پر آباد ہیں جہاں زندگی ہی زندگی ہے۔ نظامِ شمسی کی تو بات ہی چھوڑیے، معلوم کائنات میں ایسا کوئی سیارہ یا ستارہ اور کوئی نہیں۔ جس زندگی کو تلاش کیا جارہا ہے وہ تو یہیں ہے اور بھرپور جگمگاہٹ کے ساتھ ہے۔ زندگی کے سارے رنگ یہاں کِھلے ہوئے ہیں۔ ہمیں زندگی جیسی نعمت عطا ہوئی ہے۔ اِس نعمت کو ہم ذرا بھی سنجیدگی سے نہیں لیتے کیونکہ گھر کی مرغی دال برابر ہوتی ہے! جس زندگی کی تلاش میں سائنس دان خلائے بسیط میں مشن پر مشن بھیج رہے ہیں وہ زندگی کرۂ ارض پر اپنی تمام تابانیوں کے ساتھ جلوہ افروز ہے۔ زندگی کے اِن جلووں سے فیض یاب ہونے پر کوئی پابندی نہیں ؎
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلاکے سرِعام رکھ دیا
قدرت قدم قدم پر پکار رہی ہے کہ مجھے دیکھو، سمجھو اور مانو۔ قدرت کا چیلنج ہے کہ جو کچھ اُس نے خلق کیا ہے اُس جیسا کچھ بھی خلق کرکے دکھادو۔ انسان کو قدم قدم پر غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے تاکہ ذہن کسی واضح نتیجے تک پہنچے، کوئی حتمی رائے قائم کرے۔ کیا زندگی میں ایسا کچھ بھی نہیں جو ہماری توجہ کا مستحق ہو؟ آج ہمارے معاشرے میں عمومی رویہ شدید بیزاری پر مبنی ہے۔ بیزاری اور مایوسی اگر مال و دولت سے محروم افراد میں پائی جائے تو زیادہ حیرت انگیز نہیں کیونکہ اچھی زندگی بسر کرنے کے قابل نہ پانے کی صورت میں انسان کا دل بجھ ہی جاتا ہے اور وہ بہت چاہنے پر بھی زیادہ ہنس نہیں سکتا، لوگوں سے زیادہ خوش مزاجی کے ساتھ مل نہیں پاتا۔ مشکل یہ ہے کہ جن کی جیب اور تجوری بھری ہوئی ہے وہ بھی الجھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ بیزاری اُن کے چہرے سے بھی عیاں رہتی ہے۔ وہ بھی کبھی کبھی شدید قنوطیت کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ سب عدمِ تشکر کا نتیجہ ہے۔ جب انسان شکر گزار ہونے کے منصب کو ترک کردیتا ہے تب قدرت کی طرف سے کرم کا معاملہ لپیٹ دیا جاتا ہے۔ لازم نہیں کہ خدا کسی سے ناراض ہو تو اُس سے مال و دولت چھین لے۔ یہ تو قدرت کے طے کرنے کا معاملہ ہے کہ کسے کیا ملنا چاہیے اور کس طرح ملنا چاہیے۔ خدا دے کر بھی آزماتا ہے اور لے کر بھی آزمائش میں ڈالتا ہے۔ یہ سب زندگی کا حصہ ہے۔ جو کچھ عطا ہوا ہے وہ اس قابل ہے کہ اُس کا شکر ادا کیا جائے اور مزید عطا کی استدعا کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کو عجز پسند ہے۔ انسان کو ہر معاملے میں عجز و انکسار پر مبنی طرزِ فکر و عمل اختیار کرنی چاہیے، جو کچھ ملا ہے اُس کا ہر وقت شکر ادا کرنا چاہیے۔ زندگی بجائے خود اِتنی بڑی نعمت ہے کہ اِس کے ہوتے ہوئے دیگر نعمتیں ثانوی درجے میں ہیں۔ کامل ایمان کے ساتھ زندگی بسر کرنا ہی سب سے بڑی نعمت ہے۔ رب راضی رہنا چاہیے۔ دنیا راضی ہوتی ہو تو ہو‘ نہ ہوتی ہو تو نہ ہو۔
زندگی کا سارا حسن اس بات میں ہے کہ آپ اُسے قبول کریں۔ اِس دنیا میں ہمارا قیام یکسر عارضی نوعیت کا ہے۔ جینا بھی ہے، معاملت بھی کرنی ہے، خود کو منوانا بھی ہے اور دوسروں کو ماننا بھی ہے۔ سب کچھ آپ کے چاہنے پر منحصر ہے۔ آپ چاہیں تو زندگی گلزار اور نہ چاہیں تو صحرا۔ زندگی کے دامن میں ہر انسان کے لیے کچھ نہ کچھ ہوتا ہی ہے۔ قدرت کسی کو یکسر محروم نہیں رکھتی۔ یہ اُس کی عطا کا معاملہ ہے۔ اُس کی شانِ عطا کو تسلیم کرتے ہوئے شکر گزار رہنے ہی میں ہمارے لیے خیر کا سامان ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved