ہمارے افکار‘ سوچ اور ذہن میں ابھرتے ڈوبتے سوال و جواب معاشرے کے معروضی حالات سے ترتیب پاتے ہیں۔ جتنا بھی بیرونی ماحول سے دامن بچا کر خلوتوں کی دنیا کسی کونے‘ جنگل‘ پیڑوں کے جھنڈ کے درمیان یا دریا کے بہتے پانی کے کنارے آباد کر لیں‘ سماج سے تعلق نہیں ٹوٹ سکتا۔ آج دور وہ بھی نہیں کہ سادھوئوں اور درویشوں کی طرح صحرائوں‘ پہاڑوں کی گھاٹیوں اور غاروں میں برس ہا برس کے لیے گم ہو جائیں اور دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس سے بے خبر رہیں۔ کنارہ کشی تو ہم نے کسی حد تک کر رکھی ہے کہ ضرورت سے زیادہ کہیں آتے جاتے نہیں۔ پیشہ ورانہ مصروفیات کا تقاضا اور نوعیت ہی ایسی ہے کہ سر کھجانے کو فرصت نہیں۔ فرار تو ممکن بھی نہیں کہ دورِ حاضر کی معیشت کا جبر ہے کہ ہم اپنی جامعہ میں شب و روز متحرک رہیں اور گونا گوں فرائض منصبی انجام دیتے رہیں۔ اپنی بات ذرا مختلف ہے کہ عمر کے اس حصے میں بھی ہم کُل وقتی استاد کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ اس سے بڑی خوش قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے۔ اس تمہید کی وجہ اپنے حالاتِ زندگی کا بے وقتی راگ الاپنا نہیں بلکہ پوری نصف صدی پر محیط اس تجربے کی طرف اشارہ کرنا ہے جس میں ہر دور میں آزاد خیالی‘ آزاد روی اور افکارِ تازہ کے ہر در‘ کھڑکی اور روشن دان کو بند دیکھا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جامعات میں زندگی گزارتے ہوئے یہ شکایت بنتی نہیں کیونکہ وہاں خیالات کی آزادی کا ماحول ہوتا ہے۔ اس ذیل میں دو باتیں گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔ پہلی یہ کہ جامعات معاشرے‘ سیاست‘ حکومت اور حکمران طبقات اور نظریات کی عکاس ہوتی ہیں۔ ایک سطحی مثال چند سال میں تین مرتبہ ہائر ایجوکیشن کے قانون کی تبدیلی‘ سندھ اور پنجاب میں صوبائی ہائر ایجوکیشن کی تشکیل‘ تعلیم اور تحقیق کے لیے فنڈز پر کنٹرول کے علاوہ سیاسی مداخلت ہے جو ایک قابلِ قبول روایت بن چکی ہے۔امریکہ میں پانچ جامعات میں اپنی عمر کے اچھے وقتوں کے دس سال گزارے ہیں تو اتنا کہنے کی رعایت ضرور دیں کہ لبرل ازم کی بھی نظریاتی حدیں مقرر ہیں۔ اگر تجاوز کریں گے تو شاید آپ کے تحریر کردہ مواد کی مشہور اور جانے پہچانے مجلوں میں اشاعت ناممکن ہو جائے یا پھر آپ پکی نوکری کا خواب ہی دیکھتے رہ جائیں۔ میں ذاتی طور پر سیاسی نظام میں تنقیدی نظریات کا حامی ہوں‘ تعلیمی تقاضوں کی ترتیب‘ ادارے اور تعلیم کا منڈی کے ساتھ جڑائو سب ایک ہی رشتے کی کڑی ہیں۔
دوسری بات بھی یہی ہے کہ جامعات کوئی علیحدہ سماجی جزیرہ نہیں۔ آج کل کے سیاسی ماحول میں یہ کہنا بھی آسان نہیں کہ کس طرح کے خیالات کی آمریت ہے۔ لیکن جو بھی ہے‘ اس کے آمرانہ ہونے کے بارے میں کوئی شک نہیں۔ آزادی کے بعد سے یہی حالات ہیں۔ ہمارے حکمران طبقے‘ سیاسی کلچر‘ معاشرتی فکر کے دھارے ثقافت کے رنگ اور عمومی سماجی رویے اس نظام کی پیداوار ہیں۔ ٹھیک ہے کہ بہت سی معاشی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں‘ شہر پھیلتے چلے گئے ہیں‘ متوسط طبقہ بھی پیدا ہوا مگر آمرانہ سوچ کی گرفت ابھی تک مضبوط ہے۔ ہماری تاریخ میں ایسے چند موڑ ضرور آئے ہیں کہ اس سوچ کے خلاف تحریکیں اٹھیں۔ روشن خیالی‘ ترقی پسندی‘ جمہوریت‘ انسانی حقوق یا عورتوں اور اقلیتوں کی زبوں حالی‘ سب کے مقابلے میں اس بوسیدہ نظام کے رکھوالے سینہ تان کے کھڑے ہو گئے۔ منظم اجارہ داری کے ذریعے زبان کھولنے کی پاداش میں نہ جانے کس کس انداز میں ان کی زندگیاں برباد ہوئیں۔ نظریات کی بنیاد پر کالجوں اور یونیورسٹیوں سے ملازمتوں سے فارغ کر دیے جانے والوں کی اگر فہرست تیار کی جائے تو ہمارے ملک کا نام ابتدائی چند سطروں میں ہوگا۔ یہ درویش تو چشم دید گواہ ہے۔ ایک استاد ‘ جو اشتراکی نظریات رکھنے کے جرم میں جامعہ سے نکالے گئے تھے‘ ساری زندگی کسمپرسی کے عالم میں رہے۔ کبھی کسی اخبار میں لکھتے تو کبھی کسی ادارے میں نوکری کرکے کچھ گزارا چلاتے۔ عزتِ نفس کا یہ عالم تھا کہ پھر دوبارہ کبھی اس جامعہ میں واپس نہ گئے اور نہ کسی کو کوئی عرضی لکھی کہ ان کے واجبات رہتے ہیں۔ آمرانہ ادوار میں ایسے ہی ہوتا ہے جیسے پرانی جابرانہ بادشاہتوں میں ہوتا تھا تاکہ خوف پیدا ہو جائے اور کوئی مزاحمت کی کوشش نہ کرے۔ مجھے نہیں معلوم کہ حقائق کیا ہیں لیکن لاہور کی عدالت عالیہ نے تقریباً تیسری بار آئی جی پنجاب کو ہدایت کی ہے کہ صحافی عمران ریاض کا پتا لگائیں کہ وہ کہاں ہیں۔ میں نے ان کی باتیں نہ سنی ہیں اور نہ مجھے کچھ زیادہ ان کے بارے میں معلوم ہے‘ لیکن لوگوں سے یہ سنتا ہوں کہ وہ ایسی باتیں کرتے تھے جس سے مزاحمت کی بو آتی تھی۔ خیالات وقت کے جبر سے متصادم ہوں‘ آمرانہ سوچ غالب‘ عدالتیں بے بس اور سیاسی کاروباری ہم رکاب ہوں تو پھر کون سے خیالات کی گنجائش نکلے گی۔ پھر سے عرض ہے کہ یہ آج کا قصہ نہیں‘ بہت پرانا ہے۔ سائنس اور فطرت کا ایک اصول تو یہی ہے کہ طاقتور کے جبر اور مزاحمت کے درمیان توازن نہ ہو تو پھر شہسوار ہی میدان ماریں گے۔
اوپر سے قبائلی جاگیردارنہ نظام اور حکمران طبقات کی یکجہتی اور گرفت کی بات تو کردی ہے مگر زیادہ تشریح نہیں کی کہ کیسے ایک مخصوص سوچ کو ایک قومی رنگ اور موافقت کا نام دے کر ناقدوں کو خاموش کردیا جاتا ہے۔ یہ کوئی راز کی باتیں نہیں کہ ہم خیال اکٹھے کیے جاتے ہیں۔ ہر میدان کے حکومتی اور ریاستی عہدے ان میں بانٹے جاتے ہیں اور آج کل تو سنا ہے کہ اب صرف ایک ہی نظریے سے تعلق جوڑنے کے خواہش مند فیض یاب ہو سکیں گے۔ کچھ کے لیے وہ دروازے کھلے اور دوسروں کے لیے بند کر دیے جائیں گے کہ کہیں کوئی ایسی بات نہ کرگزرے کہ موجودہ اتحادی نظام کی ساکھ پر گراں گزرے۔ ہم دیکھتے تو نہیں‘ اب سنتے ہی رہتے ہیں کہ کون پھر سے چھا گیا ہے اور کون اپنا بوریا بستر گول کرکے چلّہ کاٹ رہا ہے۔ اور وہ جو تین جملے تحریک انصاف کے سابق اراکین اسمبلی اور نامزد امیدوار دہرارہے تھے‘ کس روشن خیالی کی نوید سناتے ہیں۔ حیران ہیں‘ پریشان تو ہر گز نہیں کہ ہم پچھتر سال آزادیٔ موہوم کے بعد کس سحرِ پُرامید کی آس میں رہیں۔ ایسی زور آزمائی اور سمندروں سے گہری‘ پہاڑوں کی چوٹیوں سے اونچی اور افریقہ کے جنگلوں سے وسیع تر اتحادی حکمرانی اور سیاسی کاروبار کی شراکت داری نہ کسی نے دیکھی‘ نہ سنی تھی۔ اس سے تنقیدی سوچ رکھنے والے یہ اندازہ تو بخوبی لگا سکتے ہیں کہ اس مرتبہ خطرہ حکمرانوں کو کچھ زیادہ ہی تھا۔ مکھی کو مارنے کے لیے کون توپ خانے کا منہ کھولے گا۔ خطرے سے نمٹنے کے لیے ظاہر ہے کہ شراکت داری کی ضرورت تھی اور سیاسی ضرورت مندوں کی اس اجڑے دیار میں بھلا کوئی کمی ہے؟ ہم صرف مبارک باد ہی پیش کر سکتے ہیں کہ ملک میں اٹھنے والی شرپسندی‘ بے حیائی‘ بدتمیزی‘ کرپشن اور فردِ واحد کی شخصی آمریت کا خاتمہ کردیا گیا۔ ولایت میں یہ کہتے ہیں کہ بادشاہ گیا‘ بادشاہ زندہ باد۔ اب نواز شریف صاحب واپس آئیں گے‘ ملک کو دوبارہ ترقی کی موٹر وے پرگامزن کریں گے۔ اسحاق ڈار صاحب کا ہر اول دستہ پہلے ہی معیشت کو سنبھال چکا۔ ملکی سلامتی ہمیشہ کی طرح محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ اور اب شر پسندوں سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ ایک مسئلہ البتہ ہے کہ افکارِ تازہ نہ موسموں کے پابند ہیں‘ نہ سرحدوں کے۔ ہوائیں بھی چلتی ہیں‘ صحرائوں میں بارشیں بھی ہوتی رہتی ہیں اور کچھ نئے خیالات بھی انگڑائی لے کر بیدارہوتے ہیں۔ اس جبر کا کیا کریں؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved