ملکِ عزیز میں آئی ایم ایف کی کہانی پھر سے شروع ہو گئی ہے۔ دنیا میں مقروض حکومتیں بنانے اور بگاڑنے میں اس ادارے کا کردار سب سے اہم ہے اور اس کے پیچھے کون ہے‘ وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ یہ پس پردہ کردار سامنے بھی آتے ہیں اور اس طرح آتے ہیں کہ دنیا انہیں دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے۔ بعض سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے میں 1996ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے میں بھی آئی ایم ایف کا خاصا عمل دخل تھا اور اسی مالیاتی ادارے نے ان کے مخالفین کو برسر اقتدار لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد فاروق لغاری کے مقرر کیے گئے نگران وزیراعظم مرحوم ملک معراج خالد اور اس وقت کے نگران مرکزی وزیر شاہد جاوید برکی نے سینیٹ اجلاس میں بتایا تھا کہ انہوں نے آئی ایم ایف اور عالمی بینک کو بینظیر بھٹو حکومت کے بحال نہ ہونے کی یقین دہانی کرائی تھی‘ اگر اس وقت بینظیر بھٹو کی حکومت بحال ہو جاتی تو عالمی بینک اور آئی ایم ایف پاکستان کی امداد بند کر دیتا۔ بے نظیر بھٹو نے اپنی حکومت کی غیرقانونی برطرفی کو عدالتِ عالیہ میں چیلنج بھی کیا لیکن وہاں سے محترمہ کی حکومت کی برطرفی کو جائز قرار دے دیا گیا جس کے نتیجے میں نواز شریف 1997ء میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئے۔ میاں نواز شریف نے حکومت میں آنے کے بعد اپنے ایک طویل انٹرویو میں عوام کو یہ باور کرانے کی بھرپور کوشش کی کہ صرف وہی ان کے مفادات کے رکھوالے ہیں اور باقی سب ملکی مفادات کے خلاف ہیں۔کچھ پرانی باتیں ہیں جن کا اس انٹرویو کے حوالے سے اوپر ذکر کیا ‘ کچھ تفصیلات اور ہیں جن سے عوام کو آگاہی مل جائے تو وہ ریکارڈ درست کر لیں گے۔
نظامِ انصاف کو زیر کرنا ہمیشہ ہمارے حکمرانوں کا محبوب مشغلہ رہا ہے اور اس کا آغاز پاکستان میں 1950ء کی دہائی سے اس وقت ہوا جب جسٹس محمد منیر کو سینئر جج اے ایس ایم اکرم پر ترجیح دیتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان بنا دیا گیا۔ پھر جب 70ء کی دہائی میں پیپلز پارٹی کی حکومت وجود میں آئی تو اس وقت کے وزیراعظم مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے بھی یہی طرزِ عمل اختیار کیا اور سینئر ججوں کو نظر انداز کرکے چیف جسٹس کیلئے جونیئر ججوں کا انتخاب کیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا کہ جناب بھٹو اس وقت کے سینئر ترین جج مولوی مشتاق حسین سے ناراض تھے۔ بعد میں سب نے دیکھا کہ بلوچستان میں بھی سینئر ججوں کو نظر انداز کرتے ہوئے باہر سے آئے ایک وکیل کو بلوچستان ہائیکورٹ کا چیف جسٹس جج مقرر کر دیا گیا۔
مسلم لیگ (ن) کے دوسرے دورِ حکومت میں سابق چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ جب تک نواز شریف کے خلاف فیصلے دیتے رہے‘ کے پی میں (ن) لیگی حکومت کے وزیراعلیٰ پیر صابر شاہ کی حکومت کو لٹکاتے رہے‘ وہ پیپلز پارٹی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے منظور نظر رہے لیکن چیف جسٹس بننے کے بعد جب انہوں نے عدلیہ کی آزادی کیلئے چند سخت فیصلے کیے تو وہ پیپلز پارٹی کیلئے ناقابلِ برداشت ہو گئے اور جناب نواز شریف کیلئے ہیرو۔ پھر جب سید سجاد علی شاہ نے 20مارچ 1996ء کو اس وقت کی پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف فیصلہ سنایا تو شریف برادران نے سید سجا دعلی شاہ کے اس تاریخی فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کو سلام‘ سپریم کورٹ کی حفاظت کیلئے ہم پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جا ئیں گے۔ لیکن پھر ایک دنیا نے دیکھا کہ مسلم لیگی قیادت جب انہی سید سجاد علی شاہ سے ناراض ہوئی تو لیگی کارکن سپریم کورٹ پر چڑھ دوڑے۔ دراصل فروری 1997ء کے انتخابات میں دو تہائی اکثریت سے کامیابی سمیٹنے کے بعد ہی میاں نواز شریف کے اس وقت کے چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کے ساتھ اختلافات سامنے آنا شروع ہوگئے کیونکہ وہ چند منظورِ نظر افراد کو جج بنانے کی راہ میں کھڑے ہو گئے تھے۔تب نواز شریف شاید بھول گئے تھے کہ اس نظام عدل سے سب سے زیادہ وہی مستفید ہوئے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئیں کہ یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ آٹھویں ترمیم کے استعمال کا نتیجہ ہمیشہ نواز شریف کے حق میں کیوں نکلتا ہے‘ یہ کیسا نظامِ عدل ہے جو 1990ء میں ہماری حکومت کی برطرفی کو جائز اور 1993ء میں نواز شریف کی برطرفی کو ناجائز قرار دیتا ہے؟ اور پھر 1997ء میں ایک بار پھر پیپلز پارٹی کی حکومت کی بر طرفی کو جائز قرادے دیتا ہے۔
سابق چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ 4جون 1994ء کو چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھاتے ہیں اور ساڑھے تین سال تک کسی کو یہ خیال نہیں آتا کہ وہ جونیئر جج تھے لیکن ساڑھے تین سال بعد اچانک سات افراد سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ سید سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس بننے کا کوئی حق نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جسٹس اجمل میاں اور جسٹس فضل الٰہی‘ جنہوں نے سید سجاد علی شاہ کے خلاف فیصلہ دیا‘ وہ چار سال تک خاموش کیوں رہے؟ سینئر وکیل اکرم شیخ صاحب‘ جو میاں نواز شریف کے وکیل تھے اور اب بھی ان کے قریب ہیں‘ ہمیشہ آئین اور قانون کی باتیں کرتے ہیں‘ ان کا لکھا ہوا ایک آرٹیکل11نومبر 1997ء کو ایک اردو جریدے میں شائع ہوا تھا‘ اس کا ایک پیرا میاں نواز شریف کی عدلیہ سے محبت کے حوالے سے پیش خدمت ہے‘ جس میں لکھا تھا ''حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ دو بے حد اہم آئینی ترامیم 13/14 کی گئی ہیں اور یہ دو ترامیم دو گھنٹے سے بھی کم وقت میں قومی اسمبلی سے منظور کرا لی گئیں‘ اگر کوئی شخص پارلیمنٹ کے استحقاق شکنی کی تاریخ لکھے تو مجھے یقین ہے کہ سوائے نوازشریف حکومت کے کسی اور کو موردالزام نہیں ٹھہرایا جائے گا اور یہ اتنا گہرا داغ ہوگا جو حکومت کے ہاتھوں سے سات سمندروں کا پانی بھی نہیں دھو سکے گا‘‘۔ لیکن آج دیکھئے کہ چند منٹوں میں منظور کی گئی آئینی ترامیم کے حق میں کیا کیا دلائل دیے جا رہے ہیں۔ جب پرویز مشرف کے دور میں آزاد عدلیہ کی تحریک چلائی گئی تو ان سے یہ سوال کیا جاتا رہا کہ انہوں نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو آرمی ہائوس کیوں بلایا تھا؟ کیا کسی نے کبھی یہ پوچھنے کی کوشش بھی کی کہ سابق چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کو 8اگست 1997ء کو لاہور میں کہاں اور کیوں بلایا گیا تھا؟ حکومت اور سپریم کورٹ میں یہ رسہ کشی اس وقت تک چلتی رہی جب تک کہ سنیارٹی کی بنیاد پر چیف جسٹس کی تعیناتی کا خودکار نظام سامنے نہیں آ گیا مگر آج کے سیاسی حالات دیکھ کر لگتا ہے وطن عزیز قانون اور آئین کی تمام پابندیوں سے آزاد ہو چلا ہے۔ جس کی بات سنو وہ کہہ رہا ہے کہ ہم کوئی فیصلہ قبول نہیں کریں گے۔ محسوس ہوتا ہے کہ 1997ء سے اب تک کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ شاید اسی لیے ایک انگریزی معاصر نے 18 اگست 1997ء کے اداریے میں لکھا:
''The PPP Govt. stood accused of extra Judicial killings in Karachi. The PML (N) is now bent upon killing the Judicial process itself".
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved