حالات کا اُلٹ پھیر کچھ ایسا ہے کہ ذہن و دل کام کرنے سے انکار کر بیٹھے ہیں۔ ایک طرف سیاست کی خرابی ہے اور دوسری طرف معیشت کی ابتری۔ معاشرتی الجھنوں نے اِن دونوں شعبوں کے پیدا کردہ مسائل کو زندگی اور موت کے معاملات میں تبدیل کردیا ہے۔ کچھ بھی درست معلوم نہیں ہو رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ اب کسی بھی معاملے میں کچھ بھی درست ہونے کی امید نہیں کی جاسکتی۔ عام آدمی کا یہ حال ہے کہ حالات کی خرابی دیکھ دیکھ کر دل بیٹھا جاتا ہے، دماغ سوچنے سے انکار کی روش پر گامزن ہے۔ کوئی کس کس چیز کو دیکھے، کہاں تک سمجھنے کی کوشش کرے، کتنا غور کرے اور کیا لائحہ عمل تیار کرے کہ جس سے معاملات بہتری کی طرف رواں ہوں۔
حکومت کو دیکھیے تو وہ اپنے ہی راگ الاپ رہی ہے۔ اپوزیشن کی طرف نظر دوڑائیے تو وہاں کچھ اور ہی دکھائی دے رہا ہے۔ سب کو صرف اپنی پڑی ہے۔ کوئی کسی دوسرے کے بارے میں نہیں سوچ رہا۔ ایسے میں ملک و قوم کے بارے میں سوچنے کی روش کیونکر عام ہو؟ مفادِ عامہ کے بارے میں سوچنے کا رجحان کیونکر پروان چڑھے۔ اور پروان تو تب چڑھے جب پیدا ہو۔ یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ مفادِ عامہ کیا ہے اِس کے بارے میں بھی اب لوگوں کو کچھ خاص علم یا اندازہ نہیں۔ تمام معاملات خالص انفرادی نوعیت کے ہوکر رہ گئے ہیں۔
ایک سال سے بھی زیادہ مدت ہوئی کہ حکومتی امور سنبھلنے کا نام نہیں لے رہے۔ گزشہ برس کے اوائل میں پی ٹی آئی حکومت کی بساط لپیٹ دی گئی تھی۔ حکومت کو رخصت کرنے کے حوالے سے بہت کچھ کہا گیا تھا، بہت سے دعوے کیے گئے تھے۔ الزامات کا طومار باندھا گیا تھا۔ نئی حکومت نے ہر شعبے میں پیدا ہونے والی خرابی دور کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ وہ دعوے کیا ہوئے؟ معاملات تو بد سے بدتر ہی ہوتے گئے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری ہے۔ معیشت کا تب سے اب تک بُرا حال ہے۔ عام آدمی تو اُسی طرح پس کر رہ گیا ہے جس طرح چکی کے دو پاٹوں میں اناج کا دانہ پس جاتا ہے۔ ایک سال سے بھی زائد مدت کے دوران آئی ایم ایف سے معاملات درست کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ آئی ایم ایف نے اِس دوران ہمارے مفادات کو تہ و بالا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ تین سے پانچ ارب ڈالر کا پیکیج دینے کے نام پر ہماری معیشت کو اب تک کئی ارب ڈالر کا نقصان پہنچادیا گیا ہے۔ کم و بیش ڈیڑھ سال سے سیاست اور معیشت پر بے یقینی کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ معیشت کا حال زیادہ بُرا ہے کیونکہ کورونا کی وبا کے بعد اِسے سہارا دینے کے لیے قرضوں کا کوئی بڑا پیکیج ناگزیر تھا مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ بڑی طاقتوں نے کمزور ممالک کو کمزور تر کرنے کی جتنی بھی کوششیں کی ہیں اُن میں پاکستان کو خصوصی طور پر سامنے رکھا ہے۔ ہمیں بہت سے معاملات کی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ ایک طرف تو افغانستان کے معاملے میں مغربی طاقتوں کے مطابق نہ چلنے کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے اور دوسری طرف جوہری قوت ہونے کی قیمت بھی چکانا پڑی ہے۔ یہ سب چلتا ہی رہے گا کیونکہ مغربی طاقتیں ہمیں سکون کا سانس لینے کا موقع دینا ہی نہیں چاہتیں۔ اُن کی بھرپور کوشش ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو، پاکستان کو کمزور اور اِس کے معاملات کو اٹکاکر رکھا جائے تاکہ یہ اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہوسکے۔ اس کے لیے محض قرضے نہ دینے ہی کا آپشن بروئے کار نہیں لایا گیا بلکہ دیگر طریقوں سے بھی دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے۔
چین اور ترکیہ ہمارے معاملے میں اب تک سنجیدہ اور ملتفت ہیں مگر ہم اپنی اندرونی کشمکش سے ہی فارغ نہیں ہو پارہے۔ چین بہت بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے مگر افغانستان کے حالات بگاڑ کر اور ملک کے دیگر حصوں میں بھی دہشت گردی کے ارتکاب کے ذریعے مغربی طاقتیں چین کو متذبذب رکھنے میں اب تک کامیاب ہیں۔ ترکیہ نے پاکستان کے لیے ہمیشہ نرم گوشہ رکھا ہے۔ آج بھی جن چند ممالک میں پاکستانیوں کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اُن میں ترکیہ نمایاں ہے۔ اِدھر ہم ہیں کہ دوستوں کی دوستی سے فیض یاب ہونے کے قابل بھی نہیں ہو پارہے۔
چین بہت سے منصوبوں میں پاکستان کو آگے رکھنا چاہتا ہے۔ اُس کے اپنے مفادات بھی ہیں اور وہ اپنے مفادات کو مستحکم کرنے کے عمل میں پاکستان کو بھی مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اِدھر ہم ہیں کہ اندرونی خرابیوں ہی کو دور نہیں کر پارہے۔ سیاسی استحکام ہوگا تو کچھ ہوسکے گا۔ ڈیڑھ سال سے پاکستان شدید سیاسی عدمِ استحکام کی زد میں ہے۔ عالمی اداروں کا ہم پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ عالمی بینک اور چند دوسرے ادارے جو کچھ کر رہے ہیں وہ امداد سے زیادہ بھیک کی مد میں ہے اور وہ بھی مخصوص مفادات کے تحت۔ عالمی بینک یا کسی اور عالمی ادارے کو ہمارے اندرونی استحکام سے کیا غرض؟ مغربی طاقتوں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنے ہوئے اِن اداروں سے کسی بھی معاملے میں غیر معمولی موافقت یا خیر کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔
ہمارا معاملہ یہ ہے کہ پورے ملک کی دولت کو سمیٹ کر چند ہاتھوں میں مرتکز رکھنے کا عمل تیز تر ہوگیا ہے۔ اداروں میں بھی سنجیدگی کا فقدان ہے۔ لوگ جن اداروں سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں اُن کی طرف سے بھی کوئی ایسا اشارہ نہیں مل رہا کہ معاملات کو درست کرنے کی خاطر واضح اقدامات کیے جانے ہیں۔ معیشت کو سنبھالنے کی ضرورت ہے مگر اِس معاملے میں سنجیدگی برائے نام بھی دکھائی نہیں دے رہی۔ سندھ کی سطح پر بات کیجیے تو حکومت نے طے کر رکھا ہے کہ خود کچھ نہیں کرنا، سب کچھ نجی شعبے کو دے دینا ہے۔ سرکاری سکول پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چلانے کا عمل جاری ہے۔ کیوں؟ اگر سرکاری سکول بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پارہے تو ذمہ داران کا تعین کرکے معاملات درست کیے جانے چاہئیں۔ نجی اداروں کو ساتھ ملاکر معاملات اُن کے حوالے کرنے کی منطق کیا ہے؟ چند دن قبل خبر آئی کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ سے جاپان کی ایک موٹر سائیکل کمپنی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے وفد کے ہمراہ ملاقات کی اور سندھ میں واٹر سپورٹس کے فروغ کے امکان سے متعلق معاملات زیرِ غور آئے۔ کئی منصوبوں پر تبادلۂ خیالات کیا گیا۔ ایک منصوبہ کراچی کے علاقے دو دریا سے پورٹ قاسم تک فیری سروس چلانے کا بھی ہے۔ اب آپ اندازہ لگائیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ دو دریا سے پورٹ قاسم تک (بیس‘ پچیس کلو میٹر) سمندر میں فیری سروس چلانے کے لیے اگر ہم جاپانی اداروں سے امداد لینے پر مجبور ہوں تو پھر تمام اداروں کی بساط لپیٹ کر ملک کو ٹھیکے پر دے دینا چاہیے! اِس سے زیادہ شرم کی بات کیا ہوگی کہ ہم ایک فیری سروس بھی نہ چلاسکیں؟ کراچی سے گوادر کی بندر گاہ تک فیری سروس چلانا تو خیال و خواب کا معاملہ سمجھیے کہ یہ فاصلہ 500 کلو میٹر سے زائد ہے۔ بیس‘ پچیس کلو میٹر کی فیری سروس چلانے کے لیے بھی بیرونی اداروں سے بات کرنا پڑے گی؟ اِس پر ماتم نہ کیا جائے تو اور بھلا کیا کِیا جائے؟ ہمیں کیا ہوگیا ہے؟ ہم کہاں کھڑے ہیں، کہاں جانا چاہتے ہیں؟ اور کہیں جانا بھی چاہتے ہیں یا نہیں؟ کیا واٹر سپورٹس کے فروغ ایسا معاملہ ہے جس کے لیے بیرونی اداروں سے گفت و شنید کی جائے؟ دنیا ہمارا تمسخر نہ اڑائے تو اور کیا کرے؟ ایک جوہری قوت پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلوانے کے لیے بھی بیرونی امداد کی منتظر؟ واٹر سپورٹس کے فروغ کے لیے بھی باہر کی طرف دیکھنے پر مجبور؟ ع
شرم ہم کو مگر نہیں آتی
بے حسی، بے ذہنی، بے ضمیری اور بے عملی کی کوئی تو حد ہونی ہی چاہیے۔ کوئی مقام تو ایسا ہونا ہی چاہیے جہاں ہماری حمیت کسی نہ کسی طور جاگ اٹھے اور ہم کچھ کرنے کا عزم لے کر میدانِ عمل میں آئیں۔ ناگزیر ہے کہ اب جو کچھ بھی کیا جائے قومی غیرت کے تحت کیا جائے تاکہ قومی مفادات کسی بھی درجے میں متاثر نہ ہوں۔ اگر ذرا ذرا سی باتوں کے لیے بھی بیرونی طاقتوں اور اداروں کی طرف دیکھنا ہے تو پھر وہ وقت دور نہیں جب ریاست کا نظم و نسق ہی اُن کے حوالے کرنے کے آپشن پر بھی غور کیا جانے لگے گا۔ کیا اب بھی سوچنے کا وقت نہیں آیا؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved