چودھری خلیق الزمان کی کتاب ''پاتھ وے ٹو پاکستان‘‘ نہایت عمدہ تصنیف ہے‘ تحریکِ پاکستان کے ہر طالب علم کو پڑھنی چاہیے۔ پاکستان کا ذکر پہلی مرتبہ چودھری رحمت علی نے کیا تھا جو اس زمانے میں کیمبرج یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔ خطبہ الہ آباد میں علامہ اقبال نے بھی شمال مغربی ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک اکائی کا ذکر کیا تھا لیکن حیرانی کی بات ہے کہ مسلم لیگ کے اس اجلاس میں اس مطالبے کا کوئی خاص نوٹس نہ لیا گیا اور نہ ہی اس کی بنیاد پر کوئی قرارداد مرتب ہوئی۔ تب کے حالات کا جائزہ لیں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ 1934-35ء میں مسلم لیگ میں جو ایک نئی جان پڑی‘ یہ سارا کچھ یو پی میں ہوا تھا۔ یعنی تحریکِ پاکستان کا کوئی ہیڈ کوارٹر تھا تو وہ یو پی تھا نہ کہ پنجاب یا بنگال۔ بعد میں ضرور پنجاب اور بنگال کی وجہ سے مسلم لیگ کو بہت تقویت ملی اور اس ضمن میں سر سکندر حیات خان کا کردار بھی بہت اہم ہے لیکن آج ہم اسے بھول چکے ہیں اور سر سکندر کو ایک یونینسٹ کے طور پر ہی یاد کیا جاتا ہے۔
یو پی کے اکابرین‘ جن میں چودھری خلیق الزمان نمایاں تھے‘ چاہتے کیا تھے؟ ان کا مدعا تھا کہ یو پی اور دہلی میں مسلمانوں کا ایک تہذیبی اور سیاسی مقام رہا ہے اور اگرہندوستان آزاد ہوتا ہے تو مسلمانوں کی بقا اور نشوونما کیلئے کچھ سیاسی تحفظ ضروری ہے۔ لہٰذا جو بھی سیاسی بندوبست بنے‘ اس میں ایسا تحفظ واضح طور پر ہونا چاہیے۔ یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں نے مذہب کی بنیاد پر جداگانہ طرزِ انتخابات کا مطالبہ کیا اور انگریز راج نے یہ مطالبہ مانا بھی۔ 1946ء تک جو انتخابات ہوئے جداگانہ طرز پر ہوئے۔ لیکن سوچنے کا مقام یہ ہے کہ جب پاکستان کی منزل قریب پہنچی تو ہندوستان کے مسلمانوں کو حاصل کیا ہوا۔ پنجاب‘ سندھ‘ فرنٹیئر اور بلوچستان میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ وہاں تو کوئی ڈر نہ تھا کہ ہندو ہم پر چھا جائیں گے۔ وسوسے تو ہندوستان کے ان علاقوں کے مسلمانوں کو تھے جہاں وہ اقلیتی حیثیت رکھتے تھے۔ لیکن جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا اور دونوں اطراف سے ہجرت بڑے پیمانے پر ہونے لگی تو جنہوں نے پاکستان کا مطالبہ پہلے اٹھایا تھا ان کو سب کچھ چھوڑنا پڑا۔ ہزار سالہ تہذیب اور حکمرانی کی نشانیاں پیچھے چھوڑنی پڑیں۔ تقسیمِ ہند سے پہلے دہلی اردو ثقافت کا ایک مرکز تھا۔ بڑی تعداد میں سکھوں کے آنے سے اب یوں لگتا ہے کہ وہ پنجابی شہر ہے لیکن تب ایسا نہ تھا۔ یوپی سے مسلمانوں نے ہجرت کی‘ بھوپال سے آئے‘ حیدرآباد دکن کی مسلم اشرافیہ نے بہت حد تک نقل مکانی کی اور دہلی کی اشرافیہ نے کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ یہ سب لوگ جو آئے اپنی بے چینیاں بھی ساتھ لائے۔ ان کی بے چینیاں یہاں کے لوگوں کی سوچ کا حصہ بن گئیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ جب یوپی وغیرہ میں مسلمان کمیونٹی کے سیاسی اور تمدنی تحفظ کی بات ہوتی تو کوئی ایسا ذکر نہ آتا کہ ہم نے اسلامی ریاست بنانی ہے اور وہ ریاست اسلام کے ان خطوط پر استوار ہوگی۔ ایسا کوئی ذکر آپ کو نہیں ملے گا۔ وہ سارے لوگ بڑے باعمل قسم کے لوگ تھے اور ہوائی قسم کی باتیں نہیں کرتے تھے۔ ان کے سامنے ایک خیالی نہیں بلکہ اصل مسئلہ تھا کہ کوئی آل انڈیا آئینی سکیم بنے گی تو ہم ہندو اکثریت کے نیچے آ جائیں گے۔ ایسے میں ہمارے مفادات کا تحفظ کیسے ہوگا۔ یہ ساری نظریاتی ریاست کی باتیں یہاں کی پیداوار ہیں۔ پاکستان بنتا گیا اور جن عناصر کا پاکستان بننے میں کوئی ہاتھ نہ تھا‘ اسے یرغمال بنانے کی کوششوں میں لگ گئے۔ ایک قوم بن نہ سکی‘ بنگالیوں کو راضی رکھا نہ جا سکا‘ ایک فیڈریشن کے تقاضے کیا ہوتے ہیں‘ وہ یہاں پورے نہ ہو سکے لیکن نظریات کے ڈھول بڑے زور سے پیٹے گئے۔ ہندوستان دشمنی کے بیج بھی ایسے بوئے گئے کہ جو وسائل ملک کی ترقی کیلئے صرف ہونے چاہیے تھے وہ اور مقاصد کیلئے استعمال ہونے لگے۔ یہ آج جو ہم پاکستان کا حال دیکھ رہے ہیں‘ یہ ویسے ہی نہیں ہو گیا بلکہ آج کی خرابی کی بنیادیں تنگ نظری اور کم سمجھی کی بنا پر بہت پہلے ڈال دی گئی تھیں۔ ہمارا کیا کام تھا‘ مغربی طاقتوں کا دم چھلا بننے کا؟ امریکی دفاعی معاہدوں میں جاکر ہم نے کیا حاصل کیا؟ بنانا آئین تھا وہ تو جلد نہ بن سکا لیکن اس کی جگہ ریاست کے مقاصد بیان ہوتے رہے۔ ڈیورنڈ لائن کی وجہ سے ہمارے تعلقات افغانستان سے کچھ زیادہ اچھے نہ تھے لیکن جب وہاں کے حالات میں شورش پیدا ہوئی تو افغانستان کے مسائل میں ہم کود پڑے۔ فائدہ ہمارا کیا ہونا تھا‘ افغانستان کے مسائل کو ہم نے اپنے مسائل بنا لیا۔ آج ہم بارڈر پر خاردار تاریں لگا رہے ہیں‘ فوج ہماری وہاں تعینات ہے‘ ایک پوری جنگ وہاں جاری ہے اور کوئی یہ پوچھنے والا نہیں کہ جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے لے کر آج تک ہم افغانستان لینے کیا گئے تھے؟
چودھری خلیق الزمان لکھتے ہیں کہ گاندھی جی نے انہیں بلا کر کہا کہ سندھ کے ہندوؤں کو سمجھانے کی کوشش کرو کہ وہ نقل مکانی نہ کریں۔ قائداعظم نے چودھری خلیق الزمان کو ہندوستان آئین ساز اسمبلی میں مسلم ممبران کا لیڈر چنا تھا اور اسی حوالے سے گاندھی جی نے ان سے بات کی تھی۔ چودھری خلیق الزمان پاکستان آئے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے کیونکہ جب جناح صاحب سے ملاقات ہوئی تو جناح صاحب نے ان کے کسی اخباری بیان پر اعتراض اٹھایا جس سے چودھری صاحب دلبرداشتہ ہو گئے۔ بہرحال لاڑکانہ وغیرہ چودھری صاحب گئے لیکن تب کے حالات ہی ایسے تھے کہ کس نے ان کی بات سننی تھی۔ گاندھی جی کا اصرار اس بات کی عکاسی ہے کہ کوئی بھی ہجرت اور نقل مکانی پر خوش نہ تھا۔ پھر جو قتل و غارت شروع ہوئی اس سے سب لیڈروں کے ذہن چکرا گئے‘ پر کیا کرتے کیونکہ حالات کسی کے کنٹرول میں نہ تھے۔
علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد کے حوالے سے ہم ایک بات بھول جاتے ہیں کہ جب علامہ نے ہندوستان کے شمال مغرب میں ایک مسلم اکائی کی بات کی تو پنجاب کو وہ ایک وحدت کے طور پر دیکھتے تھے۔ چودھری رحمت علی نے جو پاکستان سکیم پیش کی اس میں کشمیر اور متحدہ پنجاب اور مشرق میں پورا آسام اور پورا بنگال پاکستان کے حصے تھے۔ لیکن تقسیمِ ہند جب ہوئی تو پنجاب دو ٹکڑے ہو گیا اور بنگال بھی دو حصوں میں بٹ گیا۔ چودھری خلیق الزمان کی تصنیف سے صاف پتا چلتا ہے کہ مسلم لیگ اور اس کے زعما نے زیادہ غور اس بات پر نہیں کیا کہ تقسیمِ ہند کا منطقی نتیجہ تقسیمِ پنجاب اور بنگال بھی ہوگا۔ پنجاب ایک رہتا تو کشمیر کا مسئلہ پیدا ہی نہ ہوتا۔ دریاؤں کی تقسیم کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ دفاع پر جو ہم اتنا خرچہ کرتے ہیں‘ وہ بھی ایک لحاظ سے تقسیمِ پنجاب کا نتیجہ ہے۔
تحریک پاکستان کی گہرائی میں جتنا کوئی طالب علم جائے ایسے سوال ابھرنے لگتے ہیں۔ ایسے سوال بے معنی ہو جاتے اور تاریخ کے کوڑا دان میں پڑے رہتے اگر پاکستان ایک مضبوط اور خوشحال ملک کے طور پر ابھرتا۔ پاکستان جب معرضِ وجود میں آیا‘ بیشتر ایشیا کی حالت خراب تھی۔ کئی ممالک سامراج کے تسلط سے آزاد نہیں ہوئے تھے۔ چین میں خانہ جنگی جاری تھی۔ کوریا کا برا حال تھا۔ کوئی وجہ نہ تھی کہ پاکستان ایک مضبوط ملک کے طور پر ترقی کی راہ پر گامزن نہ ہوتا۔ لیکن آج کے حالات دیکھ کر تو یہی کہنا پڑتا ہے کہ ہم سے یہ ملک سنبھالا نہ گیا۔ برطانوی سامراج کی جگہ ایک دیسی سامراج نے ملک کے وسائل پر قبضہ کر لیا۔ ریاست کی جو پالیسیاں بنیں ان میں اسلامی مساوات کا دور سے بھی شائبہ نہیں ملتا۔
پھر کیا کریں؟ رونا دھونا ہی رہ جاتا ہے۔ پاکستان حاصل کرنے والے بڑے لوگ تھے۔ آج پاکستان پتا نہیں کن ہاتھوں میں آ گیا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved