یہ کارٹون آپ نے بھی دیکھا ہوگا۔
ایک گوالا دودھ میں پانی ملا رہا ہے اور ساتھ ہی گفتگو کر رہا ہے: 'ان کرپٹ سیاست دانوں سے کب نجات ملے گی؟‘ یہ اس غلط فہمی کا سب سے واضح بیان ہے‘ جس میں ہم بطور سماج مبتلا ہیں۔ کارٹون بنانے والے نے ہمارے اصل مرض کی صحیح تشخیص کی۔ قوم کے ایک بڑے طبقے نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اہلِ سیاست سب سے کر پٹ طبقہ ہے اور یہی اس ملک کو درپیش مسائل کا اصل سبب ہے۔ اگر ہم اقتدار کی سیاست کو روایتی سیاست دانوں سے نجات دلا کر ایک 'دیانت دار‘ آدمی کو منصبِ اقتدار پر بٹھا دیں تو ہمارا مقدر سنور جائے گا۔ سماج اور تاریخ کا علم یہ کہتا ہے کہ جب تک گوالا دودھ میں پانی ملاتا رہے گا‘ اس خواہش کے پورا ہونے کا کوئی امکان نہیں۔
یہ خیال کیسے ایک بیانیے میں ڈھلا؟ غیرسیاسی قوتوں نے‘ بڑی مہارت سے یہ مقدمہ قائم کیا اور ابلاغ کے تمام ممکنہ ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے اس کو عوام کے ذہنوں میں اتار دیا۔ مقصد یہ تھا کہ عوام کی نظر کسی دوسرے طبقے کی طرف نہ اٹھے۔ ان قوتوں کو جب عمران خان صاحب جیسی مقبول آواز مل گئی یا انہوں نے تلاش کر لی‘ جو دراصل انہی کی بات کو دہرا رہی تھی تو ان کا کام بہت آسان ہو گیا۔
خان صاحب اس جال میں الجھتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ خود کرپٹ قرار دیے جانے والوں کی قطار میں کھڑے کر دیے گئے۔ آج ان کا مخمصہ یہ ہے کہ ان پر سب واضح ہو چکا مگر اب وہ اپنے ہی بیانیے کی گرفت سے نہیں نکل پا رہے۔ سیاست دانوں کو کرپٹ ثابت کرنے اور ان کو اپنا اصل حریف سمجھنے کی جو غلطی ان سے سر زد ہوئی ہے‘ اس کی تلافی ان کو مشکل دکھائی دے رہی ہے۔ اس معاملے میں خان صاحب تنہا نہیں۔ سب اہلِ سیاست زندگی میں کم ازکم ایک بار ضرور اس صورتحال سے دوچار ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے حبِ عاجلہ اس کا سبب بنی ہے۔ اقتدار کا لالچ اہلِ سیاست کا جال بنا جو بالآخر انہیں جیل تک لے گیا۔
اہلِ سیاست کی کرپشن کے اس مقدمے میں دو خلا ہیں‘ جنہیں سمجھنا چاہیے۔ پہلا خلا: انسانی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایک طبقہ اخلاقی اعتبار سے دوسرے طبقات سے بہت واضح طور پر مختلف ہو۔ جن میں اخلاقی پاکیزگی کا سب سے زیادہ امکان ہوتا ہے‘ وہ مذہبی طبقہ ہے۔ وہ ان اسباب سے دور رکھے جاتے ہیں جن کو برائی کا منبع کہا جاتا ہے۔ جیسے ٹی وی۔ جیسے سینما۔ جیسے فنونِ لطیفہ۔ وہ کاروبار کرتے ہیں نہ سماجی اختلاط رکھتے ہیں۔ کم ازکم دورِ تعلیم وتربیت میں تو یہی ہوتا ہے۔ اس کے باوصف اہلِ مذہب کی حالت جتنی ناگفتہ بہ ہے‘ شاید ہی کسی طبقے کی ہوگی۔ یہ اس لیے کہ اہلِ مذہب سماج کے دیگر طبقات سے دوری کے باوجود سماج ہی کا ایک طبقہ ہیں۔ ان کے اخلاقی رویے میں بھی سماج کے عمومی اخلاقیات کا پرتو ہوگا۔
اہلِ مذہب کا معاملہ اگر یہ ہے تو اہلِ سیاست سے یہ کیسے توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ دوسروں سے بہتر اخلاقی رویے کا مظاہرہ کریں گے؟ ان کا تو معاملہ ہی صبح و شام امورِ دنیا سے ہے۔ انہیں وہی رویے اپنانا پڑتے ہیں جو سماج کا عمومی چلن ہے۔ مشاہدہ یہ ہے کہ جو لوگ سیاست میں صاف ستھرے پس منظر کے ساتھ داخل ہوتے ہیں‘ ایک دن مروجہ سیاست کا نمونہ بن جاتے ہیں۔
عمران خان اس کی تازہ ترین مثال ہیں۔ ان کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں تھا۔ آج وہ ایک سیاسی ماضی رکھتے ہیں۔ اس لیے ان کے دامن پر ہر وہ داغ موجود ہے جو کسی دوسرے سیاست دان کے دامن پر لوگوں کو دکھائی دے رہا ہے۔ 'کلٹ‘ کی نفسیات دوسری ہے‘ ورنہ کون سا ایسا کام ہے جو دوسرے سیاست دان کرتے ہیں اور خان صاحب نے نہیں کیا؟ طریقۂ واردات میں ممکن ہے کہیں فرق ہو لیکن جوہری فرق کہیں نہیں ہے۔ میرے نزدیک تو وہ دوسروں سے کہیں آگے ہیں۔ انہوں نے سماج کی اخلاقی ساخت کو جو نقصان پہنچایا ہے‘ میں اس کا ذکر نہیں کر رہا۔ میں صرف ان کے سیاسی کردار کا حوالہ دے رہا ہوں۔
سیاست دانوں کو واحد کرپٹ طبقہ قرار دینے کا جو مقدمہ قائم کیا گیا ہے‘ یہ اس میں سب سے بڑا خلا ہے کہ ایک طبقے کو معاشرے سے جدا کرکے پاکیزہ بنایا جا سکتا ہے۔ دوسرا خلا یہ ہے کہ ایمان دار آدمی کو کسی بڑے منصب پر بٹھا دیا جائے تو نظامِ مملکت سنور جائے گا۔ میں اس پر بہت لکھ چکا۔ اس میں بہت سے سوالات ہیں۔ مثال کے طور پر یہ فیصلہ کون کرے گا کہ فلاں دیا نتدار ہے اور فلاں کرپٹ؟ کوئی ریاستی ادارہ؟ کیا کسی ریاستی ادارے کی یہ ساکھ باقی ہے کہ وہ کسی کو دیانت دار قرار دے تو اسے دیانت دار مان لیا جائے؟ کیا عوام؟ عوام اگر کسی کو اقتدار تک پہنچائیں گے تو اس کا کوئی طریقہ ہو گا؛ جیسے انتخابات۔ انتخابات کے نتیجے میں اعلیٰ ترین انتظامی منصب تک پہنچنے کے لیے سماج کے مختلف طبقات کو ساتھ ملا نا لازم ہے۔ الیکشن مہم کے لیے سرمایے کے ساتھ مختلف سماجی عصبیتوں کی تائید لازم ہے۔ سرمایہ جب سیاست میں آتا ہے تو اپنی شرائط کے تحت آتا ہے۔ اے ٹی ایم مشین اگر چلتی ہے تو خالی ہونے کے لیے نہیں‘ دوبارہ بھری جانے کے لیے۔ کسی عصبیت کا نمائندہ آپ کا ہم رکاب ہوتا ہے تو کسی مفاد کے تحت۔ اس کی تائید و نصرت کے ساتھ‘ جب کوئی آدمی اعلیٰ ترین منصب تک پہنچتا ہے تو اس وقت تک اس کی دیانت کا خون ہو چکا ہوتا ہے۔
یہ خلا تو فکری اور عملی ہیں۔ تیسرا مسئلہ وہ ہے جس کی طرف میں نے اشارہ کیا کہ سیاست دانوں کو زیادہ یا واحد کرپٹ طبقہ ثابت کرنے کے لیے غیرسیاسی قوتوں نے ایک مستقل مہم چلائی ہے۔ اگر اتفاق سے کسی دوسرے طبقے کے نمائندہ فرد کی کرپشن سامنے آئی تو لوگوں نے حیرت سے انگلیاں دانتوں میں داب لیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ دوسروں کی کرپشن کا کوئی بیانیہ ابھی تک منظم صورت اختیار نہیں کر سکا۔ اہلِ دانش نے بھی اس کی کوشش نہیں کی۔
واقعہ یہ ہے کہ کرپشن کی سب سے بھیانک صورتوں کو سماج نے ایک کلچر کے طور پر قبول کر لیا ہے۔ جیسے جاگیرداری۔ جیسے پیری مریدی کا کلچر۔ اگر لوگوں کے سرمایے کا کوئی حقیقی سروے ہو تو پاکستان کا سب سے امیر طبقہ پیر ہیں۔ وہ اِلا ماشاء اللہ‘ کوئی کام نہیں کرتے اور ان کا سرمایہ مسلسل بڑھتا رہتا ہے۔ سیاست دان ان کے مقابلے مالی اعتبار سے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ یہ طبقہ لوگوں کے سرمایے ہی کو نہیں‘ ایمان کو بھی برباد کر دیتا ہے۔ علامہ اقبال نے اسی لیے اس طبقے پر سب سے زیادہ تنقید کی اور مسلمانوں کو 'کشتہ پیری و ملائی و سلطانی‘ قرار دیا۔
آج جن معاشرتی تصورات پر نئے سرے سے غور کرنے کی ضرورت ہے‘ ان میں کرپشن کے بارے میں ہمارا تصور سرِ فہرست ہے۔ جاری معاشی عمل میں کرپشن کا شامل ہونا اور سماجی کلچر میں کرپشن کا ہونا‘ دومختلف باتیں ہیں۔ سماج اگر کرپشن کو کلچر کے طور پر قبول کر چکا ہے تو یہ ممکن نہیں کہ اس کے ایک طبقے کو الگ کرکے اسے پاکیزہ بنایا جا سکے۔ اگر گوالا اپنی کرپشن کو جاری رکھتے ہوئے اہلِ سیاست کی کرپشن کو کوستا رہے گا تو اس کے مقدر میں کوسنا ہی لکھا رہے گا۔ یہ گوالے ہی پہ کیا موقوف‘ اربوں روپے کا کاروبار کرنے والا بھی یہی ذہنیت رکھتا ہے۔ اس کا مقدر بھی گوالے سے مختلف نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved