تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     09-07-2023

آئی ایم ایف ہمارا دشمن ہے؟…(4)

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب لوگ بجلی اور گیس کا بل پورا دیتے ہیں تو پھر یہ تین ہزار ارب روپے کا بجلی کا سرکلر ڈیٹ کیسے بن جاتا ہے یا گیس کے تین سو ارب روپے کیسے اکٹھے ہو جاتے ہیں؟ ہم لوگ تو بجلی اور گیس کے بل ہر ماہ دے رہے ہیں بلکہ اب تو ہر ماہ نیا ٹیکس لگا کر ہمیں مہنگی بجلی بیچی جاتی ہے۔ تو ہمارا پیسہ پھر کہاں جارہا ہے اگر وہ سارا بل اکٹھاکر کے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو نہیں دیا جارہا ؟ایک بات ذہن میں رکھیں‘ جو بجلی گھر آپ کو اربوں یونٹس بیچتے ہیں وہ اپنا پورا حساب رکھتے ہیں۔ آپ بجلی گھر سے پورے یونٹس لیتے ہیں تو آپ کو ادائیگی بھی پوری کرنی پڑتی ہے۔ بجلی آپ کو مل گئی تو یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ اسے صارف تک پہنچائیں اور اس کا بل وصول کریں مگر ہوتا یہ ہے کہ سب سے پہلے تو تقریبا ًتیس فیصد بجلی ٹرانسمیشن لائنز کے بوسیدہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہوجاتی ہے‘ جسے لائن لاسز کا نام دیا جاتا ہے۔ان لاسز میں صرف بوسیدہ تاروں کا قصور نہیں‘ بجلی کی چوری بھی شامل ہے جو پنجاب اور سندھ میں کنڈا لگا کر کی جاتی ہے۔ بہت بڑے گھروں‘ دکانوں اور کارخانوں کو واپڈا ملازمین کی ملی بھگت سے بجلی چوری کرائی جاتی ہے‘ جبکہ بلوچستان‘ فاٹا اور خیبرپختونخوا کے کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں لوگ بل نہیں دیتے۔ اب یہ چوری ہو یا لوگ بل نہ دیں لیکن آپ ان سب یونٹس کی قیمت بجلی گھروں کو ادا کر چکے ہیں اور پورے پیسے دے چکے ہیں یا آپ نے ادا کرنے ہیں۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ جناب آپ سے لی گئی بجلی کے لاکھوں یونٹس تو لائن لاسز ‘ چوری یا بل نہ دینے کی وجہ سے ضائع ہوگئے ہیں لہٰذا آپ وہ ہمارے بل سے نکال دیں۔ اس طرح واپڈاملازمین کو بھی ہر ماہ کچھ سو یونٹس فری ملتے ہیں۔ یہ ملازمین کو تو فری ملتے ہیں لیکن ان کا بھی حساب کتاب رکھا جاتا ہے اور ادائیگی بھی کرنی پڑتی ہے۔ پھر حکومت اور اس کے وزرااور دیگر افسران کے مفت یونٹس بھی ہیں۔ بجلی کے یہ یونٹس آخرکار سرکلر ڈیٹ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور جب اربوں کا بل بن جاتا ہے تو پھر آپ بینکوں سے قرضہ لینے پہنچ جاتے ہیں جو کمرشل ریٹ پر آپ کو ملتا ہے۔آپ بجلی کا پرنٹ بل دیکھیں تو آپ کو درجن بھر ٹیکس نظر آئیں گے۔ بجلی کا بل اگر پانچ سو روپے کا ہوگا تو اس پر ٹیکس پندرہ سو روپے سے زائد ہوں گے۔ وجہ یہی ہے کہ ان مفت یونٹس کا بل بھی آپ سے لے رہے ہیں جو واپڈا ملازمین کو‘ بڑے سرکاری افسران کو اور حکمرانوں کو ملتے ہیں‘ لائن لاسز ہوتے ہیں یا خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بل نہیں دیا جاتا یا پنجاب اور سندھ میں کنڈے لگا کر بجلی چوری کر لی جاتی ہے۔ یہ ذہن میں رکھیں اگر آپ نے تین ارب یونٹس کسی بجلی گھر سے خریدے ہیں تو بل پورا دینا ہے۔
جس ملک میں برسوں سے پرانی لائنوں پر کام چل رہا ہو اور لائن لاسز تیس فیصد سے زائد ہوں وہاں آپ خود سوچ لیں ایک ہی حل بچ جاتا ہے کہ بجلی کی قیمت بڑھائی جائے‘ لیکن لائن لاسز یا بجلی چوری روکنے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ یہ مشکل کام ہے۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ 2013ء میں جب نواز شریف تیسری دفعہ وزیراعظم بنے تو وہ جولائی میں سب سے پہلے چین کے دورے پر گئے۔ مجھے دنیا ٹی وی نے دفتر کے خرچے پر دورے کی کوریج کے لیے چین بھیجا۔ نواز شریف اور شہباز شریف کو ایک چینی پاور کمپنی کے دفتر لے جایا گیا جہاں انہیں اس کمپنی نے بریفنگ دی۔ ہم صحافیوں کو بھی اس میٹنگ ہال میں بیٹھنے کی سہولت دی گئی۔اس کمپنی کے سی ای او نے وزیراعظم کے وفد کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ وہ اکیلی کمپنی جو بجلی پیدا کررہی ہے وہ اس وقت چین میں بائیس کروڑ لوگوں کی ضروریات پوری کرتی ہے۔ ہمارے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے کہ صرف ایک کمپنی اتنی بجلی پیدا کررہی ہے جو ہمارے ملک کی کل آبادی کے لیے کافی ہے۔نواز شریف نے پوچھا کہ آپ کی کمپنی جو اتنی بجلی پیدا کرتی ہے اس کے لائن لاسز کتنے فیصد ہیں؟اس کمپنی کے سی ای او کا جواب سن کر یوں لگا جیسے ہم سب کو سانپ سونگھ گیا ہو ۔ اس نے بتایا: سر ہماری کمپنی کے لائن لاسز زیرو ہیں۔ ہمارا ایک یونٹ بھی کہیں ضائع نہیں ہوتا۔ جتنے یونٹس ہم پیدا کر کے سسٹم میں ڈالتے ہیں وہ سب کے سب گھروں یا فیکٹریوں تک پہنچتے ہیں اور سب کا بل ادا کیا جاتا ہے۔پاکستانی وفد کو یقین نہیں آرہا تھا کہ جس ملک سے وہ آئے تھے وہاں تو لائن لاسز تیس فیصد تک ہونا تو نارمل ہے اور اسے ایک حقیقت سمجھ کر قبول کر کیا گیا ہے۔ مطلب صرف ایک کمپنی ہی کافی ہے جو پاکستان جیسے پورے ملک کو بجلی فراہم کرسکتی ہے اور ہم لوگ نیوکلیئر‘ڈیم اور درجن بھر تھرمل بجلی گھر لگا کر بھی لوڈ شیڈنگ کررہے ہیں یا دنیا کی مہنگی ترین بجلی پیدا کررہے ہیں۔
اور سنیں۔ ہم تو وہ ظالم ہیں جو پیپلز پارٹی کے دوسرے دور میں کرائے کے بجلی گھروں پر دو سوارب روپے ضائع کر بیٹھے تھے بلکہ ترکی سے جو کرائے کا جہاز لایا گیا جس پر پاور پلانٹ /جنریٹرز لگا کر بجلی پیدا کی جاتی تھی اسے لاکھوں ڈالرز کی ادائیگی ایڈونس میں کی گئی اور اس نے شاید ہی چند میگا واٹ بجلی پیدا کی اور اس جہاز نے الٹا پاکستان پر مقدمہ کر کے ہم پر ڈالروں میں جرمانہ بھی کرا دیا۔ اس سکینڈل میں اُس وقت کی پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت‘ وزیراعظم سے وزیر تک‘ سب ملوث تھے‘ بلکہ آزادکشمیر کے ایک صدر کا بیٹا بھی اس کھیل میں شامل تھا۔ سابق وفاقی سیکرٹری شاہد رفیع بھی ملوث تھے جنہوں نے بعد میں نیب کے ساتھ پلی بارگین کر کے چند کروڑ واپس کیے ‘ جو رشوت ترکش کمپنی سے لی تھی۔ اس کھیل میں دبئی میں کشمیر کے سابق صدر کے بیٹے کے رشتہ دار اور اس کی بیگم کے پاسپورٹ اور اکاؤنٹس استعمال کیے گئے۔ اس ترکش کمپنی کو وزیرخزانہ شوکت ترین کے دور میں لاکھوں ڈالرز ایڈوانس دیا گیا۔ وہ کمپنی آف شور اکاؤنٹس سے پاکستانی حکمرانوں اور سابق صدر کشمیر کے بیٹے جسے انہوں نے پاکستان میں کنٹری منیجر لگایا تھا‘ کو ان کا حصہ ڈالروں میں دبئی بھیجتے تھے۔جب ترکش کمپنی نے پاکستان کے خلاف مقدمہ جیتا کیونکہ ان کا کنٹریکٹ ختم کر دیا گیا تھا تو اس پر وزیراعظم نواز شریف کے دور میں ایک انکوائری کمیشن بنا کہ پاکستان کو اتنا بڑا جرمانہ کیسے ہوگیا جبکہ ملین آف ڈالرز ایڈوانس لے کر بھی چند میگا واٹ بجلی پیدا نہ کی گئی تھی۔ اس پر آئی ائس آئی‘ آئی بی‘ نیب اور وزارت فنانس کے افسران کی کمیٹی نے کام شروع کیا تو حیران کن کرپشن سامنے آئی۔
عالمی عدالت میں آپ کو لکھ کر دینا ہوتا ہے کہ آپ نے کنڑیکٹ رشوت دے کر نہیں لیا تھا۔ اس کمپنی نے لکھ کر دیا تھا کہ انہیں پاکستان میں بجلی کا کنٹریکٹ میرٹ پر ملا تھا‘ لیکن اس انکوائری ٹیم نے سب ثبوت اکٹھے کیے کہ کیسے ترکش کمپنی آف شور کمپنی کے نام پر بینک اکاؤنٹ کے ذریعے دبئی میں سابق صدر کشمیر کے بیٹے کی رشتہ دار خاتون کے اکاؤنٹس میں ڈالرز ٹرانسفر کراتی رہی جو بعد میں پاکستانی حکمرانوں اور بیوروکریٹس میں تقسیم ہوتے تھے۔حکومت پاکستان نے وہ فائل عالمی عدالت کے لیے تیار کر لی اور ترکش کمپنی کیلئے خطرہ پیداہوگیا کہ نہ صرف وہ بلیک لسٹ ہوگی‘جرمانہ بھی ختم ہوگا اور عالمی سطح پر بدنامی بھی ہوگی۔ اس کمپنی نے اس دوران جرمانہ وصولی کے لیے پاکستان کے دنیا بھر کے اثاثوں کا کنٹرول لینے کے لیے وہاں کی عدالتوں کیس بھی کر دیے تھے۔اس دوران عمران خان وزیراعظم بن چکے تھے۔ترکی کے صدر طیب اردوان نے اپنے ملک کی کمپنی کو خطرے میں پا کر وزیراعظم عمران خان سے فورا ًرابطہ کیا۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved