ہمارے سماجی اور سیاسی مسائل دیگر قوموں سے مختلف ہیں۔ یہ عمومی نہیں‘ ساختی نوعیت کے ہیں۔ ہم ان میں ایسے جکڑے ہوئے ہیں کہ نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ اس کا دوسرا اور انتہائی اذیت ناک پہلو یہ ہے کہ ہم ہر نوع کی نا انصافیوں‘ دھاندلیوں‘ بے ایمانیوں‘ بددیانتیوں اور انتہا پسندیوں کو کسی بزرگ کے دیے ہوئے تعویذ کی طرح گلے میں لٹکائے بازارِ عالم میں سرگرداں ہیں۔ ہم دنیا کی طرف دیکھتے ہیں‘ نہ اس کے مہذب طور طریقوں سے کچھ سبق لینے کی خواہش رکھتے ہیں۔ عالمی معاشرہ ہمارے ان تعویذوں کو دیکھ کر اب تو ترس بھی نہیں کھاتا بلکہ دھتکارتا ہے‘ نفرت آمیز رویہ دکھاتا ہے کہ مذہبی اقلیتوں‘ عورتوں اور کمزور دھڑوں کے خلاف معاشرے کے حکمران اور غالب طبقات نے جو سلوک عشروں سے رو رکھا ہوا ہے‘ وہ مسلمہ عالم گیر انسانی اقدار کے دائرے میں نہیں آتا۔ اچھا ہے کہ عالمی اداروں نے معاشی ترقی کے بین الاقوامی موازنے کی رپورٹوں کے ساتھ سماجی ترقی اور عورتوں کی کسی معاشرے میں حیثیت کے بارے میں انڈیکس ایک عرصے سے شائع کرنا اپنے فرائض میں شامل کررکھا ہے‘ اگرچہ کوئی انہیں پڑھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتا کہ نہ اہلیت ہے‘ نہ ہی کوئی مفاد۔ اور پھر طاقت کا سرچشمہ عورتیں‘ اقلیتیں اور ہم جیسی زمینی مخلوق نہیں بلکہ سیاسی کاروبار اور کچھ دیگر غیر مرئی طاقتیں ہیں۔ جواب دہی کون کرتا ہے اور کہاں ہوتی ہے؟ حکمرانوں کی بے حسی میں عوام کی بے بسی کا راز ہے۔ جب عوام میں شعور‘ ادراک‘ علم کی روشنی اور خود ارادیت کا جذبہ اور طاقت پیدا ہوئی‘ وہاں نہ حکمران بے حس رہے اور نہ معاشروں میں بددیانتی اور ناانصافی کا چلن رہا۔ صدیوں سے قائم فرسودہ رسم و رواج پت جھڑ کے موسم کی طرح گرنے لگے۔ پھر سماج کی تربیت اور ترویج حقوق اور آزادیوں کے ہم رنگ نئے پتوں سے ہونے لگی۔ یہ جو کہتے ہیں کہ ایسے ویسے ملکوں سے ہمارا مقابلہ نہ کریں‘ ہم بالکل نظریاتی ہیں‘ بالکل مختلف‘ یہ ایک ڈھکوسلا ہے کہ ہم معاشرے میں نا ہمواری اور ناانصافیوں کو جائز‘ رسم و رواج اور اخلاق کے بحران کو قبول کر لیں۔ عورتوں کے ساتھ جو کچھ وطنِ عزیز میں ہورہا ہے اور ہوتا آیا ہے‘ سب لوگ کسی نہ کسی طور اس سے واقف ہیں۔ مجھے یہ کہتے ہوئے ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں کہ عورتوں کے حقوق کے زمرے میں تو کوئی باضمیر وکیلِ صفائی بھی عدالتوں میں پیش نہیں ہوتا‘ ان مقدمات کی تفصیل میرے ذہن میں تو اتنی طویل اور گھنائونی ہے کہ اگر ہم دنیا کے سامنے کھول کر رکھیں تو شاید وہ اپنے ملکوں کے دروازے ہم پر ہمیشہ کے لیے بند کردیں۔ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ ہم جس دستاویز کے ساتھ کسی ملک میں سفر کی درخواست دیتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ وہ ناپسندیدگی کی فہرست میں نیچے سے چوتھے نمبر پر ہے۔ واقعات جن کا میں خود شاہد ہوں‘ بے شمار ہیں مگر اگلے روز ہی کسی قریبی دوست کے ہاں ''طلاقِ ثلاثہ‘‘ کا نوٹس ہاتھ میں لیے ایک بے بس خاتون کو آنسو بہاتے دیکھا۔ یہ کہتے ہوئے یقین جانیں دل دکھتا ہے کہ لاکھوں مجبور اور محبوس خواتین کی آہیں اور سسکیاں بند کمروں اور چار دیواروں میں دم توڑتی رہتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم ''تقدیسِ مشرق‘‘ کی ثناخوانی میں خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ کاش کبھی وہ سب واقعات لکھ سکوں‘ لیکن اتنا حوصلہ نہیں پا رہا۔ کئی ایک محقق اور لکھاریوں کو جانتا ہوں جو ظلم و بربریت کی کہانیاں لکھتے ڈپریشن اور غمناکی کا شکار ہوئے۔ ہمارے تو قوانین ہی ایسے ہیں کہ ہر ناانصافی کا جواز نکل آتا ہے اور اسے جائز قرار دینے کا ٹھپہ لگا دیا جاتا ہے‘ جیسے کسی کو جتوانے کے لیے انتخابات میں ٹھپے لگوائے جاتے ہیں۔ اس خاتون کو روتا دیکھ کر اپنی بے بسی‘ معاشرے کی بے حسی اور حکمران طبقات کی شقی القلبی نظر آئی۔ قانون ہے کہ مرد اگر طلاق دے تو بذاتِ خود یا وکیل کے ذریعے ''منکہ مسمی‘‘ سے شروع کرکے عذر کی چند سطروں کے بعد طلاق کا اعلان یکے بعد دیگرے کچھ توقف کے بعد کرکے گلوخلاصی کرے۔ اگر عورت تنگ ہو اور مرد سے آزادی حاصل کرنا چاہے تو اسے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑے گا۔ اس کا جو بھی جواز پیش کیا جائے‘ دورِ حاضر کی اقدار کے مطابق اس میں مرد اور خواتین کی برابری نظر نہیں آتی۔ میرے نزدیک مرد کو بھی عدالت سے رجوع کرنا ضروری قرار دیا جائے اور عدالت مرد کی حیثیت کے مطابق عورت کے نان و نفقہ کا اُسے ذمہ دار قرار دے۔ ایک دن قبل وہ آدمی بھی‘ جسے میں برسوں سے جانتا ہوں‘ اسی دوست کے گھر اپنی روداد سنانے کے لیے آیا تو اس کا بھائی اس انداز سے بات کر رہا تھا کہ اگر اس کی بیوی اس کے ساتھ رہی تو پریشانی میں کہیں وقت سے پہلے لقمۂ اجل نہ بن جائے۔ دل میں تو سوچ رہا تھا کہ اس پریشانی کی وجہ وہ بھائی خود اور دیگر اہلِ خانہ ہیں کہ اس بیچاری عورت کو انہوں نے قبول ہی نہیں کیا تھا کہ کہیں جائیداد میں حصہ دار نہ بن جائے۔ یہ اس کی دوسری شادی تھی۔ پہلی بیگم رحلت کر چکی تھی۔ دونوں کی عمروں میں تقریباً تیس برس کا فرق تھا۔ ہمارا شناسا کھاتا پیتا‘ دولت مند‘ کاروباری جبکہ وہ عورت تعلیم یافتہ لیکن کسی غریب گھرانے کی معلوم ہوتی تھی اور کسی نجی ادارے میں تدریس کرکے اپنا گزارہ کرنے والی تھی۔ ہماری اکثریت کو جائیداد‘ زر و دولت‘ زمینوں کے دھندوں اور لوٹ مار نے انسانیت کی بنیادی اقدار سے ہٹا کر بحرالکاہل کے آخری جزائر میں دفن کر رکھا ہے۔ کہیں کسی کے حقوق کی پامالی کی بات کریں تو بتانے کی ضرورت نہیں کہ آپ اپنے ارد گرد ضرور جانتے ہوں گے کہ زمین دار چھوٹا ہو یا بڑا‘ اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو اس کا شرعی حصہ جائیداد میں سے نہیں دیتا۔ خواتین کی اکثریت خاموش رہتی ہے۔ اور کتنی ہی لڑکیاں جو محض اس لیے سہاگن نہیں ہو پاتیں کہ کہیں بڑے گھر کی بڑی زمینوں کا بٹوارہ نہ ہو جائے۔
کل پرسوں نیویارک شہر کے سابق میئر ڈی بلاسیو اور اس کی بیگم کے درمیان علیحدگی کے بارے میں چند مضامین پڑھے کہ اس شہر کی علمی دنیا اور ثقافت سے پرانا روحانی رشتہ ہے۔ دونوں ایک ہی گھر میں رہیں گے‘ کچن بھی ایک ہوگا۔ سوچیں کہ ایسا کیوں؟ اینڈرسن کوپر جسے آپ سی این این پر ہر روز دیکھتے ہیں‘ وہ بھی اپنی سابقہ بیگم کے ساتھ ایک ہی گھر میں کئی برسوں سے رہ رہے ہیں۔ دنیا میں قانون یہ ہے کہ اگر طلاق ہو تو تمام منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد برابر حصوں میں تقسیم ہوگی۔ کمپنی یا بزنس ہے تو دو حصوں میں بٹے گا۔ اور اگر مرد تنخواہ دار ہے اور طلاق یافتہ بیوی نہیں تو وہ عدالت کے حکم کے مطابق یا باہمی معاہدے کے تحت اپنی آمدنی کا حصہ ادا کرتا رہے گا۔ اور اگر بچے ہیں تو ان کی تعلیم اور تمام اخراجات کا ذمہ دار مرد ہی ہوگا۔ مجھے تو یہ مساوات اچھی لگتی ہے۔ قانون دل کو بھاتا ہے کہ شادی بیاہ کوئی کھیل تماشا نہیں‘ ایک ذمہ داری ہے۔ انصاف اور انسانی اقدار کی پابندی ہے۔ ہم عورتوں کی عزت نہیں کرتے‘ انہیں کوئی مقام دیتے ہوئے اپنا مقام کھونے کے خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری ہمیں ناگوار گزرتی ہے۔ ایسے میں اگر آپ خود دنیا سے عزت اور کسی مقام کی توقع کریں گے‘ تو ہم آپ کی معصومیت اور دیوانگی پر کیا کہہ سکتے ہیں؟ بیواؤں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے‘ خدا کی پناہ۔ کس سے التجا کریں‘ کس سے انصاف کی بھیک مانگیں اور کس سے شکایت کریں کہ دنیا بدل چکی۔ انصاف اور انسانی اقدار پامال کرو گے تو دنیا آپ کے ساتھ وہی سلوک کرے جو ہورہا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved