وگرنہ؟ وگرنہ اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی کراچی آپریشن اگر ادھورا چھوڑ ا گیا تو انجام وزیرستان سے بد تر ہوگا۔ کیا موجودہ کارروائی کامیاب رہے گی اور بالآخر شہر کو امن عطا ہوگا؟ جس کے لیے اٹھائیس سال سے وہ ترس رہا ہے؟ پیر پگارو صبغت اﷲ شاہ راشدی سے ستّرمنٹ کی ملاقات رہی اور کئی دوسرے باخبر لوگوں سے۔ ان کا خیال ہے کہ مسیحی برادری نے، جس انداز میں احتجاج کیا، وہ اُن کے دھیمے انداز سے لگّا نہیں کھاتا‘ اس انداز کے پیچھے ایم کیو ایم کا مشورہ کارفرما ہے۔ دوسرے ذمہ دار ذرائع اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ اولین تاثر یہ تھا کہ جن سیاسی پارٹیوں کو سپریم کورٹ نے بھتہ خوری کا ذمے دار ٹھہرایا تھا ، اب شاید مزاحمت نہ کریں کہ وفاقی حکومت پُر عزم ہے۔ اختیار جس آدمی کے ہاتھ میں ہے، وہ پلک جھپکنے پر آمادہ نہیں اور منصوبہ بندی میں سلیقہ کار فرماہے۔ فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی تائید اسے حاصل ہے۔ پولیس میںضروری تبادلے ہوچکے اور یہ عمل جاری رہے گا۔ اندازہ غلط نکلا۔ ایم کیوایم مزاحمت کررہی ہے اور ایک حد تک صوبائی حکومت بھی۔ وفاقی حکومت کی ایک انتہائی ذمّے دار شخصیت نے کہا کہ کپتان قائم علی شاہ شب ایک وعدہ کرتے ہیں، سحراس کی دوسری تعبیر کرتے ہیں۔ چیف سیکرٹری نے‘ جن کے ملازمت کا بڑا عرصہ کراچی میں گزرا ہے، وزیراعظم کے لیے بریفنگ کے نکات مرتب کیے ۔ وزیر اعلیٰ نے ان میں سے بعض منسوخ کرنے اور بعض کا اضافہ کرنے کا حکم دیا۔ دو ہفتے قبل اطلاع تھی کہ وہ رخصت پر جانے کے آرزومند ہیں۔ یہ اطلاع بھی غلط نکلی۔ اقتدار ایسی چیز نہیں کہ آسانی سے آدمی دستبردار ہوسکے: ع یہ نشہ وہ نہیں، جسے ترشی اتار دے کیا کارروائی منصفانہ ہے یا کوئی خاص گروپ ہدف ہے؟ پیرپگارو کا کہنا یہ ہے کہ اگر ایک سو آدمی گرفتار کیے جاتے ہیں تو ان میں زیادہ سے زیادہ تین بے گناہ ہوسکتے ہیں۔ عام شہریوں، ٹیکسی ڈرائیورں، دکانداروں، نجی دفاتر کے کلرکوں ، حتیٰ کہ اخبار نویسوں کی اکثریت کا تاثر بھی یہی ہے۔ اس عجیب و غریب معرکے میں اب پولیس کا کردار کیا ہے، جس کے شہسوار ، شہر میں جوئے اور منشیات کے 150اڈّے چلاتے ہیں اور بھتہ وصول کرنے والا پانچواں گروہ ہیں۔ چھٹے طالبان ہیں اور ساتواں فرقہ پرست۔رینجرز کے ایک اعلیٰ افسر نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا: ’’وہ ہم سے زیادہ مستعد ہیں‘ انہوںنے پانچ برس میں اتنے آپریشن نہ کیے تھے،جتنے گزشتہ چند ایام کے دوران۔‘‘ ان سے پوچھا گیا کہ ایم کیو ایم کے ندیم ہاشمی کی گرفتاری کا واقعہ کیسے پیش آیا۔’’علاقے کا تھانیدار، اس کا ذمے دار ہے‘‘ انہوں نے بتایا: تحقیقات جاری ہے کہ غیر ذمے داری کا دخل ہے یا کوئی سازش۔ ظاہر ہے کہ پولیس بری طرح بگڑ چکی ہے اور اس سے زیادہ انوسٹی گیٹر کا صوبائی دفتر جہاں زمام کار اب بھی ایک جیالے کے ہاتھ میں ہے۔ سیکڑوں مجرم کراچی سے فرار ہوچکے ۔ بظاہر یہ رینجرز کی حکمت عملی کے مطابق ہوا۔ ان میں سے چند ایک لاہور اور مری سے گرفتار ہوئے۔ کچھ بیرون ملک بھاگ گئے، کچھ اندرون۔ اُن کی تلاش جاری ہے۔ جیسا کہ وفاقی وزیر داخلہ نے کہا: پولیس کے بدنام افسروں کو ہٹایا جارہا ہے اور بہتر کو ذمے داریاں سونپی جارہی ہیں۔ اگرچہ ساٹھ ستر فیصد کمی آئی مگر اس کے باوجود خون ریزی کے واقعات کیوں برپا ہیں؟اس سوال کا جواب یہ ہے کہ معاملات بہت پیچیدہ ہیں۔ یہ 1995ء نہیں ، جب جون کے آخر میں آپریشن شروع ہوا اور 14؍ اگست کو ڈبل سواری پر پابندی ختم کردی گئی۔ سات ماہ میں ہدف حاصل کرلیاگیاتھا۔ تب ایک گروہ تھا، اب سات ہیں۔ زمینوں پر قبضے کرنے اور منشیات کا دھندا کرنے والے ان کے علاوہ۔ مجرموں کے حوصلے ابھی پوری طرح پست نہیں ہوئے۔ بھتہ خوری کا نظام پیچیدہ ہے اور آسانی سے ختم نہیںکیا جاسکتا۔ تاجروں اور صنعت کاروں کو ابھی یقین نہیں آیا کہ آپریشن بہرحال دہشت گردی کے خاتمے تک جاری رہے گا۔ عام لوگ خوش ہیں مگر ابھی تک بے یقینی کا شکار۔ شہر کے پانچ حصوں (Towns) میں پانچ تھانے رینجرز کے سپرد کیے جاچکے، جن میں افسروں کا تقرر رینجرز کی مرضی سے ہوگا۔ اگر کارروائی عدل اور سلیقہ مندی کے ساتھ جاری رہ سکی تو عوامی اعتماد میں اضافہ ہوگا، چنانچہ زیادہ تعاون مل سکے گا۔ انٹیلی جنس کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، اگرچہ کچھ ترقی ہوئی ہے مگر خفیہ کاروں میں آہنگ بڑھانا ہوگا۔ ممکن ہے کہ اسلام آباد سے ان اعلیٰ افسروں کو کراچی لایا جائے ، جو 1995ء کے آپریشن میںشریک ہوئے۔ وہی جن کے بارے میں عرض کیا تھاکہ ذمے داری سنبھالنے سے پہلے عمرہ کرنے گئے اور دیر تک مسجد نبویؐ میں دعا مانگتے رہے۔ حیرت ہے اور یہ حیرت برقرار رہے گی کہ برصغیر میں انسدادِ دہشت گردی کے سب سے بڑے ماہر ڈاکٹر شعیب سڈل سے ابھی تک کسی نے مشورہ نہیںکیا۔2008ء کا الیکشن جیتنے کے فوراً بعد وہ سندھ کے آئی جی بنائے گئے۔ بعض تھانوں کے ٹیلی فون کٹ گئے تھے۔ 200 سے زیادہ پولیس افسروں کے قتل نے وردی والوں کے حوصلے کو پست بنا ڈالا تھا۔ رسمی ملاقات کے لیے وہ صوبائی حکومت کی ایک اہم شخصیت سے ملنے گئے، جن پر قتل کے کئی واقعات میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔ سرکاری گفتگو تمام ہوئی تو قانون کے نفاذ کو عبادت سمجھنے والے آدمی نے ، قہرمان لیڈر سے یہ کہا : ’’اگر مجھے حکم دیا گیا تو 1995ء کے مقابلے میں دوگنا قوت سے مجرموں کا صفایا کرنے کی کوشش کروں گا۔‘‘ ڈرے ہوئے آدمی نے، جو اب صوبائی اورمرکزی حکومتوں کے علاوہ فوجی قیادت کو بھی تعاون کا یقین دلانے میں لگا رہتا ہے، خفیف ہوکر کہا: کسی کو اس میں شبہ نہیں۔ چند ہفتے بعد ڈاکٹر صاحب کا تبادلہ کردیا گیا۔ اب وہ انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ مقرر ہوئے۔ چند ماہ ہی گزرے تھے کہ وزیر داخلہ رحمن ملک کی نوازش سے وہ ہٹا دیے گئے۔ ڈاکٹر صاحب برہم تھے۔ نوکری ختم ہونے پر نہیں کہ جاپانی پولیس سمیت، بیرون ملک کتنی ہی پرکشش ملازمتوں کی پیش کش موجود تھی، بلکہ حکمرانوں کی بے حسی پر۔ شاید وہ پردہ چاک کردیتے۔ میرا خیال ہے کہ خوف زدہ ہوکر انہیں وفاقی ٹیکس کا محتسب بنایا گیا۔ حکومت کا خیال یہ تھا کہ اپنے پیش رئووں کی طرح وہ بھی مکھیاں مارا کریں گے۔ تین برس میں لیکن انہوںنے اسے یورپ اور امریکہ کے معیار کا ادارہ بنادیا۔ اپریل میں جب ان کی مدت ملازمت ختم ہونے میں دو ماہ باقی تھے، انہیں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کا ریکٹر بنانے کی پیش کش کی گئی۔ یہ ان کا عمر بھر کا خواب تھا کہ کسی جامعہ میں جرمیات (Criminology)کا شعبہ قائم کریں یا الگ سے یونیورسٹی بنائیں۔ یہ پیش کش انہوںنے ٹھکرادی۔ اگر وہ ایسا کرتے تو آڈیٹر جنرل کی طرح ہزار شکایات کے باوجود جسے شریف حکومت نے ہٹایا نہیں، ان کی جگہ کوئی کارندہ مقرر کردیا جاتا۔ آئین کے تحت تین سال جو برقرار رہتا الّایہ کہ سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا جائے۔ کراچی میں اب تک انجام دیا جانے والا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ دو عشروں میں قتل کیے جانے والے پولیس افسروں کے مقدمات بحال کر دیے گئے ہیں۔ محتاط ترین اندازہ یہ ہے کہ امن اور امید کی مکمل بحالی کے لیے ڈیڑھ دو برس درکار ہیں۔ وگرنہ؟ وگرنہ اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی کراچی آپریشن اگر ادھورا چھوڑا گیا تو انجام وزیرستان سے بدتر ہوگا۔ پسِ تحریر: ٹیلی ویژن کے دوستوں سے معذرت۔ مصروفیت زیادہ ہے۔ کم ازکم اگلے دس روز تک!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved