تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     11-07-2023

سنار کی ضرب اور لوہار کی ضرب

نیو یارک ٹائمز کا اداریہ تھا یا شاید لندن ٹائمز کا ! آج تک نہیں بھولا۔ ستر کے عشرے میں جب شاہ فیصل کی قیادت میں تیل کی فروخت پر پابندی (Oil Embargo)لگی تو اس اداریے میں لکھا گیا کہ ساتویں صدی عیسوی میں عرب صحرا سے نکلے اور بر اعظموں پر چھا گئے۔ اس کے بعد پہلی مرتبہ انہوں نے ایک اور ضرب لگائی ہے جس کا درد پورا مغرب محسوس کر رہا ہے۔ الفاظ یاد نہیں! مفہوم یہی تھا! شاہ فیصل نے اس ضمن میں جان کی قربانی دے دی مگر مغرب کو احساس ہو گیا کہ وہ ناقابلِ تسخیر نہیں ہے!
افشائے رازِ عشق میں گو مشکلیں پڑیں
لیکن اسے جتا تو دیا‘ جان تو گیا
آپ کا کیا خیال ہے اُس وقت اگر شاہ فیصل تیل کا ہتھیار استعمال نہ کرتے اور اس کے بجائے پوری دنیا کے مسلمانوں سے کہتے کہ جلسے کرو‘ احتجاجی جلوس کرو‘ نعرے لگاؤ ‘مغربی ملکوں کے سفارت خانوں کے سامنے دھرنے دو تو مغربی ملکوں پر‘ بالخصوص امریکہ پر کیا اثر پڑتا؟ یہ تیل کی پابندی تھی جس کی وجہ سے کسنجر کو شرقِ اوسط کے‘ بالخصوص سعودی عرب کے ‘ کئی چکر لگانا پڑے!
سویڈن میں جو اسلام کی توہین ہوئی وہ ناقابلِ برداشت ہے اور ناقابلِ معافی! مگر اس کا رد عمل کیا ہونا چاہیے؟ رد عمل دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک کمزور‘ ضعیفانہ اور عاجزانہ رد عمل اور دوسرا مؤثر اور طاقتور رد عمل! خود اعتمادی سے بھرپور رد عمل ! کمزور انسان کو جب تھپڑ پڑتا ہے اور وہ بدلہ نہیں لے سکتا تو دشنام طرازی کرتا ہے ‘ چیختا ہے ‘ نالہ و فریاد کرتا ہے اور اپنی جگ ہنسائی کراتا ہے۔ سب کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کا زور نہیں چل رہا۔ قہرِ درویش بر جانِ درویش! عید کے حوالے سے اقبال نے کہا تھا:
عیدِ آزادان شکوہِ ملک و دین
عیدِ محکومان ہجومِ مومنین
کہ آزاد اقوام کی عید‘ ملک اور دین کے جاہ و جلال اور شان و شوکت سے ہوتی ہے جبکہ محکوموں کی عید‘ عیدگاہ کی حاضری سے عبارت ہے۔ انگریز کے عہدِ غلامی میں نماز عید پر کون سی پابندی تھی ؟ مگر ذلت کا یہ عالم تھا کہ کیا جاگیر دار اور کیا گدی نشین ‘ سب ملکہ کی غلامی پر فخر کرتے تھے۔ انکی غلامانہ اور عاجزانہ عرضداشتیں تاریخ میں محفوظ ہیں اور ہم میں سے بہت سوں نے پڑھی بھی ہیں! یہ جو کچھ سویڈن میں ہوا ‘ اس کیخلاف ہمارے احتجاج‘ جلسے‘ جلوس‘ نعرے ‘ گیدڑ بھبکیوں کے سوا کیا ہیں؟ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے! کیا یہ ہماری کمزوری کی علامت نہیں؟ ہمارے صدر ‘ وزیر اعظم‘ وزیروں اورپارلیمنٹ نے آخر یہ اعلان کیوں نہیں کیا کہ ہم سویڈن سے تجارت ختم کر رہے ہیں اور سویڈن کی مصنوعات اور درآمدات کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ اور یہ کہ دوسرے مسلمان ممالک بھی ایسا ہی کریں! ہماری برآمدات ‘ جو سویڈن کو جا رہی ہیں‘ درآمدات سے کم ہیں! بائیکاٹ سے زیادہ نقصان سویڈن کا ہونا ہے۔ 2021ء میں سویڈن کی برآمدات ‘ جو پاکستان میں آئیں‘ تین سو گیارہ ملین ڈالر کی تھیں جبکہ پاکستان نے اُسی سال ایک سو چورانوے ملین ڈالر کی ا شیا سویڈن کو بھیجیں!پچپن مسلمان ممالک میں سے صرف یمن کے حوثی گروپ نے غیرت دکھائی اور سویڈش مصنوعات کا بائیکاٹ کیا ہے!حوثی وزیر تجارت محمد شرف المطہر نے اس مقاطعہ کا اعلان چار جولائی کو کیاہے اور تمام مسلمان ملکوں سے ایسا کرنے کی اپیل بھی کی ہے۔ان کے متعلقہ محکمے نے سویڈن کی تیس ایجنسیوں اور سو برانڈز کی فہرست شائع کی ہے جن کا بائیکاٹ کرنا ہے۔ یمن کے نجی شعبے نے ساتھ دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
جنوری میں جب نیدرلینڈز اور سویڈن میں کلام پاک کی بیحرمتی کی گئی تھی تو الازہر نے اسی وقت فتویٰ جاری کر دیا تھا کہ ان دونوں ملکوں کی مصنوعات کو ٹھوکر پر رکھا جائے۔ ابھی 29جون کو الازہر نے یہ فتوی دوبارہ ایشو کیاہے۔ الازہر نے دنیائے اسلام کے دیگر فتویٰ مراکز اور تنظیموں کو ہدایت کی ہے کہ وہ بھی ایسی ہی ہدایات جاری کریں۔ سویڈن کا مشہور ترین برانڈ '' آئکیا ‘‘ (Ikea)ہے۔ یہ اس وقت ‘ عملاً پوری دنیا پر حکمرانی کر رہا ہے۔ یہ سویڈن کا ہے مگر ہیڈ کوارٹر نیدرلینڈز میں ہے۔ دو سال پہلے کے اعدادو شمار کی رُو سے دنیا کے پچاس ملکوں میں اس کی چار سو بائیس برانچیں تھیں۔ ( پاکستان میں ‘ غالباً کوئی برانچ نہیں)۔ دو سال پہلے کے اعداد و شمار کی رو سے آئکیا نے اکتالیس ارب یورو کی ا شیا فروخت کیں۔ منافع اکہتر کروڑ یورو تھا۔ یہ زیادہ تر فرنیچر اور گھر کا سازو سامان فروخت کرتا ہے۔ ہر آئٹم لاکھوں کی تعداد میں بنتا ہے اس لیے لاگت کم آتی ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو ''Ikea‘‘کا بائیکاٹ کرنا چا ہیے۔ اس کے علاوہ ‘ بڑی بڑی کمپنیاں سویڈن کی مندرجہ ذیل ہیں۔
H&M, Volvo, Ericsson, Electrolux, Skanska, Sandvik, Scania, Atlas Copco, Husqvarna, Saab, Orrefors, Kosta Boda, Rörstrand, Gant, Acne Studios, Cheap Monday, Nudie Jeans, Fjällräven, Happy Socks, Tretorn, Björn Borg, Swedish Hasbeens, WeSC, Tiger of Sweden, C/O Gerd, Peak Performance, Our Legacy, Hope
ایچ اینڈ ایم( H&M )بھی بہت بڑی کمپنی ہے۔پچھتر ملکوں میں اس کے تقریباً پانچ ہزار سٹور ہیں۔ یہ دنیا کا دوسرا بڑا ‘ ملبوسات کا پرچون فروش ہے۔ میں نے دنیا کے مختلف ملکوں میں بے شمار مسلمانوں کو اس کمپنی کی مصنوعات پہنے دیکھا ہے۔ گانٹ ( Gant) بھی از حد مشہور اور مقبول برانڈ ہے۔ ستر ممالک میں چار ہزار سے زیادہ برانچیں ہیں۔ یہ کمپنی ملبوسات‘ گھریلو سامان‘ شیشے کی مصنوعات‘ گھڑیاں اور جوتے بناتی اور فروخت کرتی ہے۔ ان تین بہت ہی معروف کمپنیوں کا تعارف اس لیے کرایا ہے کہ ان سے بخوبی واقفیت ہو جائے اور ان کی ساختہ اشیا کا بائیکاٹ کیا جائے۔ باقی کمپنیوں کا بائیکاٹ بھی لازم ہے!
ہمیں یہ بات سمجھنا ہو گی کہ یہ دنیا جذبات کی نہیں! ہوش کی ہے۔ سوچ کی ہے اور حکمت عملی کی ہے۔ صلح حدیبیہ سے لے کر سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کی طرف سے رچرڈ کو گھوڑا دینے تک‘ ہر موقع پر ٹھنڈے مزاج اور گہری حکمت عملی تھی جس نے فتح دلوائی۔ ہم لاکھ جلوس نکالیں اور کروڑ نعرے لگالیں‘ سویڈن اور ہالینڈ پررَتی بھر اثر نہیں ہو گا۔ لیکن اگر پچپن مسلمان ملکوں میں سے آدھے ملک بھی ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں تو انہیں دن میں تارے نظر آ جائیں گے! مغربی ممالک کے نزدیک روحانیت‘ اخلاق اور دوسروں کے جذبات کا احترام دس میں سے تین درجے رکھتا ہے جبکہ پیسہ دس میں سے نو درجے رکھتا ہے۔ منافع ہی ان کی ترجیح ہے۔منافع پر ضرب ہی کاری ضرب ہو گی! جاپان نے فاتح امریکہ کو معاشی زور سے مفتوح کر لیا ہے۔ چین نے ایک گولی نہیں چلائی لیکن پورا کرۂ ارض اس کی مصنوعات سے چھلک رہا ہے۔ وینکوور اور میکسیکو سے لے کر فلپائن تک میں نے چینی مصنوعات کو حکمرانی کرتے دیکھا ہے۔ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کی بغل میں واقع ایک دکان سے جوتے خریدے تو وہ چین کے بنے ہوئے تھے۔ ایک لفظ منہ سے نکالے بغیر مسلمان ممالک ان بد دماغ ملکوں کا اقتصادی بائیکاٹ کریں تو یہ گھٹنے ٹیک دیں گے۔ یہ بائیکاٹ اُس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک ہولوکاسٹ کی طرح مسلمانوں کی مقدس شخصیات‘ کتاب اللہ اور اسلامی شعائر کے حوالے سے قانون سازی نہ کی جائے!
مگر آہ! افسوس صد افسوس! ہیہات! ہیہات! مسلمان ملکوں میں ‘ اس حوالے سے ‘ یکجہتی ایک خواب کے سوا کچھ نہیں! اتفاق ہوتا تو یہ نوبت ہی نہ آتی! دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ مسلمان ملکوں کے حکمران ذاتی اور گروہی مفادات کی سطح سے اوپر اُٹھ کر ‘ متحد ہو جائیں اور یہ کاری ضرب لگائیں !!!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved