آزادی کے 75برس بعد بھی ہم کوئی ایسا نظام قائم نہیں کر پائے ہیں جس پر شخصیات کا سایہ نہ ہو۔ گزشتہ سات دہائیوں کی تاریخ کسی مثالی نظام کے بجائے شخصیات پرستی سے عبارت ہے۔ قوم مختلف ادوار میں مختلف سیاسی شخصیات اور افسر شاہوں سے توقعات وابستہ کرتی رہی۔ قوم کے اعتماد کا یہ صلہ تھا کہ وہ شخصیات حصولِ اقتدار کے بعد مسائل کو حل کرکے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتیں‘ مگر ان بیتے 75برسوں میں ہم نے ترقی کی جو منازل طے کی ہیں وہ محتاجِ بیاں نہیں بلکہ افتاد تو یہ ہے کہ اقتدار میں رہنے والی شخصیات ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا رہی ہیں‘ ایسا کیوں ہے؟ اس لیے کہ ہم نے نظام پر توجہ دینے کے بجائے شخصیات سے توقعات وابستہ کر لیں۔ ہمیں ایسے نظام کی ضرورت ہے جو شخصیات کے آنے جانے سے متاثر نہ ہو‘ یہ نظام اسی صورت وجود میں آ سکے گا جب اقتدار کی ہوس سے بالا ہو کر سوچا جائے گا۔ کہنے کو تو ہمارے ہاں جمہوری نظام رائج ہے مگر یہاں مقتدرہ کی چلتی ہے۔ ایک نظام کے اندر کئی نظاموں کی گنجائش کیوں رکھی گئی ہے؟ سیاسی جماعتیں اقتدار کے حصول کیلئے عوام پر اعتماد کرنے کے بجائے مقتدرہ پر انحصار کیوں کرتی ہیں؟ آج تک ہم کوئی ایسا نظام کیوں نہیں قائم کر پائے جو شخصیات کے سحر سے خالی ہو؟
بے شمار ناکام تجربات کے بعد اب ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ اقتدار کے کھیل میں نت نئے تجربات خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ یہاں پہلے ایک شخصیت کو اثاثہ بنایا جاتا ہے اور جو اس کی مخالفت کرے وہ غدار اور وطن فروش قرار پاتا ہے ۔ پھر جب وہی اثاثہ قابو سے باہر ہو جاتا ہے تو پھر اسے خودی منظر سے ہٹاتے ہیں اور جو اس اثاثے کوہٹانے کی مخالفت کرے وہ غدار اور وطن فروش کہلاتا ہے۔ پہلے پوری قوم کو بتایا جاتا ہے کہ یہ مجاہد ہیں‘ پھر بتایا جاتا ہے کہ یہ دہشت گرد ہیں۔ پہلے پوری قوم کوپڑھایا اور بتایا جاتا ہے کہ سب سیاسی جماعتیں کرپٹ ہیں پھر اسے ایک ڈمی لیڈر تیار کرکے دیا جاتا ہے اور جب وہ لیڈر بے قابو ہوتا ہے تو لیڈر کے ساتھ ساتھ قوم کو بھی رگڑا لگایا جا تا ہے۔ یہ صورت حال اچھی تو ہرگز نہیں لیکن جیسے طالبان بنانا غلط تھا مگر انہیں مٹانا بھی کبھی دل سے نہیں کیا گیا اور مقتدرہ کا کوئی نہ کوئی حلقہ اس اثاثے کو برقرار رکھنے کی کوشش بھی کرتا رہتا ہے۔ اسی طرح چند شخصیات کی طرف سے ملک میں جو ہائبرڈ منصوبہ شروع کیا گیا تھا‘وہ ناکامی کے بعد اب منہدم ہو رہا ہے۔ لیکن خطرہ ہے کہ یہ انہدام مکمل طور پہ ہو نہیں پائے گا اور آگ کی چنگاری کہیں نہ کہیں جلتی رہے گی جو کسی معمولی واقعے پہ دوبارہ بھڑک سکتی ہے اور اگر ایسا ہوا تو شاید پہلے سے بھی مہلک ثابت ہو۔ اس لیے اقتدار کے نئے کھیل کے نتائج مقتدرہ کے سیاست سے دوری پر منحصر ہیں لیکن تاحال ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ مقتدرہ کے دو بڑے دھڑے ابھی تک ایک پیج پہ نہیں‘ اس لیے ہائبرڈ منصوبے کا اختتام ضروری ہے لیکن یہ منصوبہ اپنے پیچھے بہت سی ناخوشگوار نشانیاں چھوڑ جائے گا‘ تاہم اگر سبھی مقتدر حلقے سیاست سے مکمل ہاتھ اٹھا لیں تو ملک بہتری کی طرف چلا جائے گا‘ ملک کا مستقبل اس صورت میں بہترین ہے۔
نو مئی کے واقعات کے بعد بظاہر پی ٹی آئی کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں‘ لیکن کیا پی ٹی آئی نے اس سے کچھ سیکھا ہے؟ ہمارے خیال میں پی ٹی آئی کے کرتا دھرتا اب بھی اپنی روش پر قائم ہیں اور وہ اہم حلقوں پر دباؤ ڈال کر مرضی کا فیصلہ کرانا چاہتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر سپہ سالار کے خلاف حالیہ مہم اسی دباؤ کا عملی نمونہ ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو پی ٹی آئی شاید پہلے سے بھی بڑی غلطی کر بیٹھے گی کیونکہ ریاستی اداروں اور حاضر سروس شخصیات پر تنقید کے بعد بھی چیئرمین پی ٹی آئی کے گرد گھیرا تنگ نہیں ہوا تھا‘ وہ انتظار کرتے اور نئی سیاسی حکمت عملی تشکیل دیتے تو جیسا ماضی میں دیگر سیاسی شخصیات کیلئے گنجائش نکلتی رہی ہے ان کیلئے بھی نکل سکتی تھی‘ مگر وہ بظاہر تصادم کا راستہ ترک کرنے کیلئے تیار نہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف سیاسی معاملات میں الجھنے کے بجائے گورننس پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے تاہم اتحادیوں نے اصرار کیا ہے کہ اگر آرمی چیف کے خلاف پروپیگنڈا پھیلانے والوں کو آزاد چھوڑ دیا گیا تو یہ رویہ کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے اہم شخصیات کے حوالے سے افواہوں کی سوشل میڈیا مہم کی مذمت کرتے ہوئے متعلقہ اداروں کوادارے اور اس کے سربراہ کے خلاف مہم چلانے والوں کے خلاف اندرون و بیرون ملک قانونی اقدامات کی ہدایت کر دی ہے۔ وزیراعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق شہباز شریف نے کہا کہ فوج اور اس کے سربراہ کے خلاف میڈیا مہم چلانا آزادیٔ اظہار کے زمرے میں نہیں آتا‘ یہ صرف سازش ہے جسے پوری قوت سے روکنا قانونی فرض ہے۔ اس حکم نامے کے بعد نو مئی کے واقعات میں ملوث جو بیرونی مہرے بچ گئے تھے‘ ان کے گرد بھی گیرا تنگ ہو گا کیونکہ سیاست میں کی جانے والی غلطیوں کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ پی ٹی آئی نے نو مئی کے واقعات کی بھاری قیمت چکائی ہے‘ اب بھی اگر اس کی قیادت کی طرف سے وہی طرزِ عمل اختیار کیا جاتا ہے تو اسے مزید بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔
اتحادی حکومت نے بحرانوں میں ڈولتی معیشت کو سنبھال لیا ہے گو کہ اس کے فوری ثمرات نہیں مل سکیں گے البتہ آنے والا وقت معیشت کے مثبت اعشاریوں کی پیش گوئی کر رہا ہے کیونکہ ہمارے ہاں پہلی مرتبہ چین کی طرز پر طویل المدتی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ چین ہمیں جو راستہ دکھا رہا ہے‘ وہ خود انحصاری کا ہے نہ کہ چین پہ انحصار کا۔ وہ ہمیں ترقی کی راہ بلکہ شاہراہ دکھا رہا ہے کہ آپ اکنامک زونز بنائیں اور ملک کو چاروں طرف بذریعہ اکنامک کوریڈور ملائیں۔ انڈیا اور ایران کی طرف بھی سی پیک پھیلائیں اور گلف اور سعودی عرب سے سرمایہ کاری لائیں جس کی بنیادی شرط ملکی سیاسی استحکام ہے جو ہائبرڈ منصوبے کی مکمل بندش‘ امن و امان اور انرجی سکیورٹی پہ منحصر ہے۔ ہم نہ صرف بیرونی سرمایہ کاروں کو سستی لیبر دے سکتے ہیں بلکہ دس سال کی ٹیکس چھوٹ بھی دی جا سکتی ہے۔ ضروری ہے کہ ہم سستی توانائی کا بندوبست کریں تبھی ملک میں سرمایہ کاری آئے گی اور چین سمیت دیگر ممالک اور عالمی اداروں پہ انحصار ختم ہو گا۔پانچ جولائی کو سی پیک کے دس سال مکمل ہو گئے ہیں۔ یہ دن چین اور پاکستان‘ دونوں نے منایا جس سے یہ بحث بھی ختم ہو گئی کہ سی پیک کس نے شروع کیا تھا‘ دس سال پہلے کس نے سائن کیا تھا۔ بنیادی طور پر یہ منصوبہ چین نے ہی شروع کیا تھا۔ حکومت کے بقول چین نے احسن اقبال کو سی پیک کا ہیرو قرار دیا ہے۔ احسن اقبال کا ایک انٹرویو کے دوران کہنا تھا کہ چین نہیں چاہتا کہ ایک سیاسی جماعت دوبارہ اقتدار میں آ جائے کیونکہ چینی سرمایہ کاروں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ احسن اقبال کا بیان اگرچہ تشویشناک ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کو موجودہ معاشی بحران سے چین نے ہی نکالا ہے۔ وزیراعظم نے اس کا اظہار بھی کیا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کیلئے سیاسی منظر نامے میں کتنے امکانات ہیں۔ پاکستان کا معاشی مستقبل چین کے ساتھ ہے اور جو سیاسی قوتیں ماضی میں چینی سرمایہ کاری کے خلاف رہی ہیں‘ اب وہ پس پردہ ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved