زندگی ہم سے جو کچھ بھی طلب کرتی ہے اُس میں یقین نمایاں ترین مقام پر ہے۔ یقین ہے تو زندگی ہے، یقین ہے تو کامیابی ہے، یقین ہے تو شادمانی ہے، یقین ہے تو خیر و برکت ہے۔ یقین کی دولت سے محروم انسان کم و بیش ہر معاملے میں محرومی ہی کا شکار رہتا ہے۔ بے یقینی انسان سے اعتماد اور اعتبار‘ دونوں نعمتیں چھین لیتی ہے۔ خالص دینی زاویۂ نگاہ سے جائزہ لیجیے تو یقین یعنی ایمان ہی سب کچھ ہے۔ ایمان کی دولت انسان کو عارضی زندگی میں بھی ابدی تسکین کا تھوڑا سا مزہ ضرور چکھادیتی ہے۔ ایمان کامل اور محکم ہو تو انسان ہر طرح کے حالات میں مایوسی کو شکست دینے میں کامیاب ہوتا ہے۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ یقین نہ ہو تو کیا ہو؟ جب یقین باقی نہیں رہتا تو کسی بھی معاملے کا حق ادا کرنے کا حوصلہ باقی رہتا ہے نہ لگن۔ یقین سے محرومی انسان کو شدید نوعیت کے تذبذب سے دوچار رکھتی ہے۔ تذبذب یقینی اٹکاؤ۔ ہچکچاہٹ کو اور کس لفظ سے سمجھایا جاسکتا ہے؟ جو انسان بات بات پر ہچکچاتا ہو، بے یقینی کا شکار رہتا ہو وہ کسی بھی معاملے میں اصلیت یا حقیقت کی تہہ تک پہنچنے میں ناکام رہتا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ وہ اِس حوالے سے فکر و نظر کی گہرائیوں میں اُترنے کا سوچتا بھی نہیں۔
ہر دور میں تشکیک کو پسندیدہ تصور کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ تشکیک یعنی تمام بنیادی معاملات میں صرف اور صرف شک و شبہے کو ذہن میں راہ دینا اور پروان چڑھانا۔ تشکیک فلسفے کی ایک بنیادی شاخ بھی ہے۔ تشکیک کا فلسفہ کم و بیش ہر معاملے میں شک کرنے کی تحریک دیتا ہے تاکہ اصلیت یا حقیقت تک پہنچنے کی تگ و دَو کی جاسکے۔ بات دین کی ہو یا دنیا کی، جب تشکیک کو محض مہمیز کے بجائے فلسفے کی حیثیت سے اپنایا جاتا ہے تو ذہن بند ہونے لگتا ہے۔ فکر و نظر کی راہوں کو مسدود کرنے والے عوامل میں فلسفۂ تشکیک بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ حقیقت ناقابلِ تردید ہے کہ علم کی طرف لے جانے میں تشکیک کلیدی کردار ادا کرتی ہے مگر ایسا صرف اِس صورت میں ہوتا ہے کہ انسان تشکیک کو زندگی کا محور و مقصد قرار نہ دے بلکہ محض حصولِ علم کے ذریعے کے طور پر بہ رُوئے کار لائے۔ اگر ذہن یہ طے کرلے کہ ہر معاملے میں صرف اور صرف شک و شبہے کا سہارا لینا ہے تو پھر یقین کی منزل تک نہیں پہنچا جاسکتا۔ کوئی بھی گمان ہمیں یقین تک لے جاسکتا ہے مگر یقین تک لے جانے والے گمان کو یقین کا درجہ نہیں دیا جاسکتا اور اُس کا نعم البدل قرار دینا بھی ممکن نہیں۔
ہر دور کے انسان نے بیشتر معاملات کو فلسفۂ تشکیک کے آغوش میں بیٹھ کر دیکھا، پرکھا اور برتا ہے۔ اِس عمل میں کبھی کبھی یقین کی منزل آسان بھی ہوئی ہے۔ بیشتر معاملات میں لوگ خسارے کا شکار رہے ہیں اور اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ذہن کو تشکیک کے حوالے کرنے کی روش غیر معمولی حد تک توانا اور مقبول رہی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ تشکیک میں آسانی ہے۔ کسی بھی چیز کو مسترد کردینا بہت آسان ہوتا ہے۔ اصل مسئلہ تو اُس کے وجود کو تسلیم کرنا اور اپنے آپ کو اُس کے موافق بنانا یا اُسے اپنے موافق بنانا ہے۔ جس کام میں زیادہ محنت لگتی ہے اُس سے انسان بھاگتا ہے۔ علم و فن کا بھی یہی معاملہ ہے۔ علم کے معاملے میں تشکیک اور فن کے معاملے میں تقلید پسندیدہ ترین روش رہی ہے۔ زندگی یقین چاہتی ہے یعنی معاملات کی تہہ تک پہنچ کر اصلیت کا سراغ پانا اور اُسے تسلیم بھی کرنا۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان اصلیت تک پہنچ کر بھی اُسے قبول نہیں کر پاتا۔ ذہن میں یہ خرابی اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب کسی بڑے اور نمایاں مفاد پر ضرب پڑ رہی ہو یا ضرب پڑنے کا خدشہ ہو۔ خیر‘ کسی کے ماننے یا نہ ماننے سے حقیقت پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔ وہ حقیقت ہی رہتی ہے، خیال و خواب میں تبدیل نہیں ہوتی۔ یین مارٹل (Yann Martel) نے ''دی لائف آف پائی‘‘ (The Life of Pi) میں لکھا ہے ''شک (یا تشکیک) کو زندگی کے بنیادی فلسفے کے طور پر منتخب کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص محض ساکت و جامد رہنے کو نقل و حمل کے ذریعے کے طور پر اپنائے!‘‘ نقل و حرکت یعنی تحرّک۔ تحرّک ہی نہ ہو تو انسان کہیں جا نہ پائے، ہل بھی نہ پائے۔ یہی حال زندگی کے حوالے سے تشکیک کا ہے۔ تشکیک کا بیج ذہن کی زمین میں بویا ضرور جاتا ہے مگر اِس لیے نہیں کہ اُسے پروان چڑھ کر گھنے درخت میں تبدیل ہونے دیا جائے بلکہ محض اس لیے کہ ذہن کو کچھ تحرّک ملے۔
زندگی کے میلے کی رونق یقین کے دم سے ہے۔ یقین ہی تو انسان کو پیش قدمی کا حوصلہ دیتا ہے۔ یقین ہی تو وہ دروازہ ہے جس سے گزر کر ہم حقیقی عمل پسندی کی دنیا میں داخل ہوتے ہیں۔ تشکیک ماچس کی تیلی کی طرح ہے جس سے آگ جلائی جاتی ہے، چولھا سلگایا جاتا ہے۔ محض تیلیاں جلا جلاکر ہم کچھ پکا نہیں سکتے۔ تشکیک ہمارے لیے ایڑ (مہمیز) کا کام کرتی ہے نہ کہ گھوڑے کا۔ آج کی دنیا میں دوسرے بہت سے رجحانات کے ساتھ تشکیک کا رجحان بھی تیزی سے پنپ رہا ہے۔ اِس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ مذہب سے بیزاری کا اظہار اور تشکیک کے نام پر مذہب اور اہلِ مذہب کا تمسخر اُڑانا اب فیشن کے درجے میں ہے۔ مغرب کی اندھی تقلید کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ غیر ترقی یافتہ خطوں میں کروڑں افراد کسی ٹھوس بنیاد، جواز اور دلیل کے بغیر محض دل پشوری کی خاطر یا پھر اپنے آپ کو لبرلز میں شمار کرانے کے لیے مذہب سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں اور اِس کے لیے وہ تشکیک کا سہارا لیتے ہیں۔ مذہب کے مسلّمات کا تمسخر اڑانا اور اُن کے لیے بھونڈے انداز سے دلائل طلب کرنا اب اِس حد تک فیشن کے درجے میں ہے کہ محض مذمت سے اِس رجحان کا قلع قمع ممکن نہیں۔ اِس کے لیے تو منصوبہ سازی بھی درکار ہے اور بھرپور جوش و جذبۂ عمل بھی۔ تحقیق کے میدان میں ہم تشکیک کے ذریعے قدم تو رکھ سکتے ہیں مگر تشکیک کو پہیہ بناکر تحقیق کی پوری گاڑی اُس کے ذریعے نہیں چلاسکتے۔ تحقیق کے لیے ذہن میں تھوڑے سے شک کا پایا جانا فطری ضرورت ہے مگر یہ بھی اخلاصِ نیت کے ساتھ ہونا چاہیے۔ سوچے سمجھے بغیر کیا جانے والا شک محض چلن یا فیشن ہے، اِس سے زیادہ کچھ نہیں۔
مغرب نے کم و بیش پانچ صدیوں کے دوران مادّی سطح پر یعنی فطری علوم و فنون کے میدان میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ یقینا انتہائی متاثر کن ہیں۔ ہر خطے کی نئی نسل یہ سب کچھ دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی۔ ان پانچ صدیوں کے دوران مغرب نے مجموعی طور پر دنیا کو اپنی مٹھی میں رکھا ہے۔ اِس دوران پیش رفت کا بازار گرم رہا ہے۔ مغرب نے بہت کچھ دیا ہے مگر قباحت یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایک خاص سوچ کے ساتھ دیا ہے۔ مغرب میں فطری علوم و فنون کے حوالے سے پیش رفت کی تحریک مذہب بیزار رجحانات کے بطن سے پیدا ہوئی تھی اور معاملہ اب تک یہی ہے۔ مغربی اہلِ علم و فن نے یہ طے کر رکھا ہے یعنی یہ مان کر چل رہے ہیں کہ جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے اُس کی پشت پر کوئی ذہین منصوبہ ساز نہیں، کوئی خالق نہیں اور کوئی اِس کائنات کو چلانے والا نہیں۔ جو لوگ مغرب کی فقیدالمثال مادّی ترقی سے متاثر ہوتے ہیں وہ اِس بارونق میلے کی پشت پر موجود سیکولر ذہن سے بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ اہلِ مغرب نے یہ تصور دنیا بھر کے ذہنوں میں کیل کی مانند ٹھونک دیا ہے کہ اگر دنیا کو بھرپور مادّی ترقی سے ہم کنار رکھنا ہے تو لازم ہے کہ مذہب کو ہر اعتبار سے خیرباد کہتے ہوئے خالص دہریت پسند ذہن کو پروان چڑھایا جائے یعنی اِس دنیا ہی کو سب کچھ سمجھتے ہوئے اِس میں گزاری جانے والی زندگی کو حتمی معاملہ مانا جائے اور آخرت یا کسی دوسرے جہان کے بارے میں سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی جائے۔
غیر مغربی معاشروں کو بچ بچ کے چلنا ہے۔ تشکیک بُری بات نہیں؛ تاہم اِسے فلسفۂ حیات بناکر تمام معاملات اِس ایک چاک پر گھمانے میں سو قباحتیں ہیں۔ اس حوالے سے نئی نسل کی معقول راہ نمائی ناگزیر ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved