تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     12-07-2023

آئی ایم ایف ہمارا دشمن ہے؟ … (5)

اب وہی ترک کمپنی جو پاکستان سے ڈیڑھ ارب ڈالرز کا جرمانہ وصول کرنے کیلئے مختلف ملکوں میں پاکستان کے اثاثے فروخت کرانے کیلئے عالمی عدالت کے فیصلے کو بنیاد بنا کر مقامی عدالتوں میں مقدمے درج کروا رہی تھی‘ کرپشن سکینڈل میں پھنس گئی‘ کہ اس نے پانچ سو ملین ڈالرز کے قریب بجلی گھر کا کنٹریکٹ دراصل پاکستانی سیاسی حکمرانوں اور بیوروکریٹس کو رشوت دے کر حاصل کیا تھا۔ اسکا مطلب تھا کہ وہ نہ صرف مستقبل میں عالمی کنٹریکٹس حاصل کرنے کیلئے بین کر دی جاتی بلکہ بھاری جرمانہ بھی ہوتا۔ کمپنی کے مالک کو داد دیں جس نے بیانِ حلفی عدالت میں جمع کرا کے پاکستان کے خلاف ڈیڑھ ارب ڈالرز کا جرمانہ کروا لیا کہ انہوں نے وہ کنڑیکٹ رشوت نہیں بلکہ میرٹ پر لیا تھا اور اب ان کا کنٹریکٹ ختم کر کے ضم کر دیا گیا تھا۔ یہ ہمارے دوست ملک کی کمپنی کا حال تھا۔ وہ کمپنی جو کل تک اپنے جرمانوں کی ریکوری کیلئے دنیا بھر میں پاکستانی اثاثوں پر قبضہ کرنے کیلئے مقدمے کررہی تھی‘ اسے اچانک یاد آیا کہ پاکستان تو برادر اسلامی ملک ہے۔ صدر طیب اردوان نے وزیراعظم عمران خان سے رابطہ کیا اور کہا کہ ترک کمپنی اپنا سارا جرمانہ معاف کرنے کو تیار ہے لیکن اسے فیس سیونگ دی جائے۔ عمران خان نے فوراً سارا کریڈٹ طیب اردوان کو دے دیا کہ انہوں نے پاکستان پر جرمانہ معاف کرا دیا ہے اور ہماری ڈیل ہو گئی ہے۔ طیب اردوان جو کچھ دن پہلے تک اس پورے معاملے سے خود کو یہ کہہ کر دور رکھے ہوئے تھے کہ یہ کمپنی کی بزنس ڈیل ہے وہ کچھ نہیں کر سکتے‘ اب جب وہ کمپنی رنگے ہاتھوں پاکستانی مال لوٹتے اور پاکستانی سیاستدانوں میں رشوت کا پیسہ بانٹتے پکڑی گئی تو وہی طیب اردوان فوراً عمران خان کے پاس دوڑے اور الٹا ہم نے سارا کریڈٹ بھی ترکوں کو دے دیا۔ اس مقدمے اور جرمانے سے پاکستان کی عالمی سطح پر جو بدنامی ہوئی اور عالمی سرمایہ کار اس مقدمے اور ہرجانے کے بعد بھاگ گئے کہ پاکستان سرمایہ کاروں کیلئے محفوظ نہیں‘ اس کا نہ عمران خان کو خیال رہا نہ ہمارے دیگر حکمرانوں کو۔ سب خوش ہو گئے کہ چلو ڈیڑھ ارب ڈالر بچ گیا۔ کسی نے نہ سوچا کہ ترکی کی اس کمپنی کو عالمی عدالت میں ایکسپوز کیا جاتا۔ پوری دنیا کو ہم بتاتے کہ ہر دفعہ پاکستان اور پاکستانی غلط نہیں ہوتے‘ ہم بھی victimہو سکتے ہیں‘ ہمارے ساتھ بھی عالمی کمپنیاں فراڈ کرتی ہیں‘ ہم نے الٹا خود کو فقیر ثابت کیا جس پر ترک کمپنی نے فیور کی اور ہمارا ڈیڑھ ارب ڈالرز کا جرمانہ معاف کر دیا۔ مطلب غلطی پاکستان کی تھی جس نے ترک کمپنی کے کرائے کے بجلی گھر کا کنڑیکٹ غلط ختم کیا تھا اور اب وہی ترک کمپنی دل بڑا کرکے پاکستان کا جرمانہ معاف کر رہی تھی۔ ہم نے ایک ترک کمپنی کے امیج کو بچانے کیلئے پاکستان کے امیج کو خراب ہونے دیا کہ کیا فرق پڑتا ہے۔ ہم تو پہلے ہی بدنام ہیں‘ مزید ہوگئے تو کیا فرق پڑتا ہے‘ لیکن ترکوں کی کمپنی کی ساکھ خراب نہ ہو۔ ہماری کون سی ساکھ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر وزیراعظم عمران خان بار بار جرمانے معافی کا کریڈٹ طیب اردوان کو دے رہے تھے تو پھر ان چار آئی بی‘ آئی ایس آئی‘ نیب اور فنانس کے افسران کو کیوں ایک کروڑ روپے کا انعام اور چودہ اگست کو امتیازِ پاکستان کے میڈل دیے گئے کہ انہوں نے اس جرمانے کے بعد جس طرح تحقیقات کرکے ترک کمپنی اور پاکستانی سیاستدانوں اور وزیروں کے گٹھ جوڑ اور کرپشن کی دستاویزات ڈھونڈ نکالی تھیں‘ اس سے پاکستان ڈیڑھ ارب ڈالرز جرمانے سے بچ گیا۔
جب ہمارے وزیراعظم کو اپنے ملک کے امیج سے زیادہ ایک ترک کمپنی کے امیج کی فکر تھی تو پھر ہم کیوں روتے ہیں کہ پاکستان میں فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کیوں نہیں آتی۔ بیرونی سرمایہ کار کیوں پاکستان میں ڈالرز نہیں لاتا‘ لیکن بھارت میں ہر سال اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ اس پر کہا جاتا ہے کہ ان سرمایہ کاروں کو پاکستان کے حکمرانوں اور بیوروکریسی پر اعتماد نہیں‘ اور ڈالرز نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں ہر بار آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے۔ جب ہمارے پاس بڑا اچھا موقع تھا کہ ہم سرمایہ کار کا اعتماد بحال کرتے کہ دراصل سرمایہ کار ہی پاکستان میں دو نمبریاں کرتے ہیں جس سے کنٹریکٹ کینسل ہوتے ہیں‘ ہم ہی دوڑ گئے۔ یوں دھیرے دھیرے ان مقدمات کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کا یہ امیج بن چکا ہے کہ یہاں حکومتیں ان کے کنڑیکٹس غلط کینسل کرتی ہیں‘ یہاں انصاف کا نام تک نہیں لہٰذا سرمایہ کاری مت کرو۔ جب ہم خود اپنے لیے کھڑے ہونے کو تیار نہیں تو پھر دنیا کیوں ہمیں اچھا سمجھے گی؟ اگر آپ صرف اس ترک کمپنی کے معاہدے کی تفصیلات پڑھ لیں تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے کہ کیسے اس ملک کیساتھ کھلواڑ کیا گیا جس میں ہمارے برادر اسلامی ملک کی کمپنی سے لے کر پاکستان کے وزیراعظم آفس اور واٹر اینڈ پاور ڈپارٹمنٹ کی ٹاپ بیوروکریسی ملوث تھی اور سب کو آف شور کمپنی کے نام پر ورجن آئی لینڈ میں کھولے گئے بینک اکاؤنٹ سے دبئی میں اس ترک کمپنی کے پاکستان کے کنٹری ڈائریکٹر کی رشتہ دار خاتون کے بینک اکاؤنٹ میں ڈالرز ٹرانسفر ہوتے تھے۔
دل تو چاہتا ہے کہ اس پر پوری کتاب لکھی جائے کہ جو نزلہ ہم نے آئی ایم ایف پر گرایا ہے‘ اس کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ اربوں روپوں کے قرضے معاف ہوئے کیا وہ آئی ایم ایف سے پوچھ کر ہوئے؟ اب انکشاف ہوا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے تین ارب ڈالرز بڑے بزنس مینوں کو زیرو انٹرسٹ پر دیے جو دنیا بھر سے بھیک مانگ کر اکٹھے کیے گئے تھے۔ کمیٹی اجلاس میں انکشاف ہوا کہ ایک بزنس مین نے تو ان مفت کے ڈالروں سے جیٹ جہاز منگوا لیا۔ ایک سابق اسمبلی سپیکر نے اپنے لیے تاحیات مراعات منظور کرا لیں۔ امریکہ سے اپنے کینسر کا علاج قومی اسمبلی کے بجٹ سے کرا یا اور اپنے خاوند کی شوگر مل کا چوراسی کروڑ بینک قرضہ معاف کرا لیا۔ اسی قوم نے انہیں دوبارہ ایم این اے بنا دیا۔ مونس الٰہی کے خلاف 2013ء میں سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ ایک سکینڈل میں جو پیسہ اس نے مبینہ طور پر محسن وڑائچ سے لیا تھا‘ جو اس وقت لندن کے بارکلے بینک میں پڑا تھا‘ اسے واپس لایا جائے۔ کیا نیب وہ پیسہ لندن سے واپس لایا؟
دوسری طرف شہباز شریف منی لانڈرنگ میں بیٹے سمیت ایک ایسے کیس کا سامنا کر رہے تھے جس میں سزا یقینی تھی‘ مگروہ سب مقدمات ختم کر دیے گئے۔ ان کے بیٹے منی لانڈرنگ پر لندن مفرور تھے‘ وہ بھی واپس آگئے اور مقدمات سے بَری۔ اسحاق ڈار مفرور تھے ان پر بھی مقدمات ختم۔ انہیں نہ صرف نیب سے اپنا لاہور کا گھر واپس مل گیا بلکہ وہ پچاس کروڑ بھی واپس ملے جو نیب نے ضبط کررکھے تھے۔ زرداری اینڈ کمپنی چالیس ارب روپے فیک اکاؤنٹس سکینڈل سے آرام سے نکل گئی۔ زرداری کے فرنٹ مین انور اور غنی مجید کا پھر کبھی نہ سنا ان کا کیا بنا۔ دوسری طرف عمران خان نے بھی وہی رُوٹ لیا۔ ان کے فرنٹ مینوں نے بھی کھل کر مال بنایا۔ لندن سے آئے ایک سو نوے ملین پاؤنڈز ایڈجسٹ کرنے کے بدلے خاتونِ اول نے چار سو کنال سے زائد زمین ایک ٹائیکون سے لے لی‘ کروڑں کا نقد عطیہ لیا‘ تحفے میں ملنے والی گھڑیاں بیچیں‘ ٹرانسفر پوسٹنگ کے نام پر ان کے رشتہ دار ارب پتی بن گئے۔ جو گفتگو شہزاد اکبر اور زلفی بخاری ایک دوسرے کے کرتوتوں کے بارے کرتے ہیں‘ کبھی وہ غور سے سن لیں تو دماغ کی چولیں ہل جائیں کہ عمران خان دور میں وزیراعظم آفس میں کیا چل رہا تھا اور سننے میں آرہا ہے کہ بہت جلد وزیراعظم کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان بہت سے انکشافات کرنے والے ہیں۔ اس قوم کو جتنی نفرت اور غصہ آئی ایم ایف پر ہے‘ کاش اس کا ایک فیصد بھی اپنی اپنی مرضی کے لٹیروں پر ہوتا تو آج آئی ایم ایف کے پاس ہم ناک نہ رگڑ رہے ہوتے۔ (ختم)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved