بابائے قوم کی روح خلدِ بریں میں بے چین ہوگی کہ مملکتِ خداداد پر کیسے کیسے تجربات ہو رہے ہیں اور یہ کیسوں کیسوں کے ہتھے چڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ایک طرف سندھ میں من پسند نگران وزیراعلیٰ لانے کیلئے جگاڑ اور حربے زیر غور ہیں تو دوسری طرف نگران وزیراعظم کی دوڑ میں شامل ناموں کو دیکھیں تو بے اختیار زبان سے حیرت بھرے الفاظ ہی نکلتے ہیں۔ تختِ پنجاب پر آئینی مدت ختم ہونے کے باوجود مسلسل جاری حکمرانی بھی جواز سے محروم ہے جبکہ اگلے ماہ سے ملک بھر میں نگران سرکار کا سِکہ چلتا نظر آئے گا۔ عوام تو جھوٹے سچے مینڈیٹ اور باریاں لگاتی منتخب حکومتوں سے عاجز اور نالاں تھے کہ اب رہی سہی کسر نگران پوری کرتے نظر آرہے ہیں۔ خدا خیر کرے میرے آشیانے کی۔
پون صدی سے آتے جاتے سبھی حکمران عوام کی خوشحالی سے لے کر ان کی جان و مال کی حفاظت سمیت کیسے کیسے انقلابی بھاشن اور دعوے کرتے چلے آئے ہیں۔ ان سبھی کے چند فیصد وعدے بھی اگر وفا ہوئے ہوتے تو حالات اس قدر مایوس کن نہ ہوتے۔ اس پر ستم یہ کہ صدر ضیاء الحق کی لگائی سیاسی پنیری نے ایک ایسی انتظامی پنیری بھی لگا ڈالی جو کبھی حصولِ اقتدار کے لیے تو کبھی استحکامِ اقتدار کیلئے ان کا دست و بازو بنتی چلی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ پنیری نہ صرف پروان چڑھتی چلی گئی بلکہ اس کی جڑیں بھی اس قدر مضبوط ہو گئیں کہ یہ اقتدار سے باہر بھی ہوئے تو چھاؤں اور پھل سے برابر مستفید ہوتے رہے۔ مملکتِ خداداد دنیا میں شاید واحد ایسی ریاست ہے جہاں انتظامی مشینری سیاسی جماعتوں کے ساتھ اس طرح منسوب اور بٹی ہوئی ہے کہ عام آدمی بھی باآسانی بتا سکتا ہے کہ صوبے میں فلاں پارٹی کی حکومت ہوگی تو چیف سیکرٹری اور آئی جی کے علاوہ دیگر اہم انتظامی عہدوں پر کون کون سے افسران تعینات ہوں گے۔ اسی طرح وفاق میں بھی اہم تقرریاں سر چڑھے اور قریبی سرکاری بابوؤں کیلئے مختص ہوتی ہیں۔ ایسے حالات میں حکومت کسی پارٹی کی بھی ہو‘ ریفارمز کے نام پر کیے جانے والے سبھی اقدامات ڈیفارمز کے ڈھیر بنتے چلے جاتے ہیں اور ڈیفارمز کو ریفارمز ثابت کرنے کی سبھی سرکاری کوششیں ڈیفارمز کے پہاڑ بناتی چلی جاتی ہیں۔
ہر دور میں حکمرانوں کے سر چڑھے سرکاری بابوؤں نے ایسے ایسے چاند چڑھائے ہیں کہ سبھی کچھ گہنا کر رکھ دیا ہے۔ حکمرانوں کی قربت سے لے کر معیارِ زندگی بلند کرنے سے مشروط اہداف کے حصول کے لیے سسٹم میں ایسا ایسا شارٹ کٹ لگایا ہے کہ پورا سسٹم ہی شارٹ ہوتا چلا گیا۔ اب یہ عالم ہے کہ سیاسی اہداف کے حصول سے لے کر مخالفین کو سرنگوں اور زیر عتاب رکھنے کے لیے انتظامی مشینری حکمرانوں کا ہراوّل دستہ بن چکی ہے۔ کس کس کا رونا روئیں‘ امن و امان کی حالت پر ہر طرف الامان الحفیظ کی دہائی ہے۔ شہروں کی صفائی پر مامور ادارے ہاتھ کی صفائی کو نصب العین بنا چکے ہیں۔ محکمہ مال‘ مال بنانے کو ہی مقصدِ حیات بنا چکا ہے۔ شفا خانوں میں بے وسیلہ مریض مرضِ موت میں مبتلا ہیں۔ شہری سہولیات کے منصوبے ذاتی مفادات کا طواف کرتے نظر آتے ہیں۔ سبزہ اور ہریالی تعمیرات کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔ پیدائشی پرچی سے لے کر ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے حصول تک‘ عوام کو ہر طرف دھتکار اور پھٹکار کا سامنا ہے۔ سنگین الزامات کی پنڈ سر پہ اٹھائے سر چڑھے سرکاری بابو خود کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے کے لیے نمائشی گورننس کا سٹیج لگائے ہوئے ہیں۔
صوبائی دارالحکومت میں لاء اینڈ آرڈر کا نیا فارمولا فیلڈ فورس کو نفسیاتی مریض بنانے کے در پے ہے۔ اعلیٰ افسران چین آف کمانڈ کے قائل ہیں تو یہ خیال بھی رکھیں کہ ماتحت افسران کہیں گڈگورننس کے بجائے بیڈ گورننس کا باعث تو نہیں بن رہے۔ ''شبینہ پولیسنگ‘‘ متعارف کروانے والے افسران ایس ایچ اوز کو رات تین بجے تک اپنے دربار میں بٹھائے رکھیں گے تو وہ صبح کیا ڈیوٹی انجام دے گا۔ صبح فجر کی اذانوں کے وقت میٹنگ سے فارغ ہونے والے فیلڈ افسران کس طرح دن گزارتے اور ڈیوٹی پوری کرتے ہیں‘ افسران کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ بڑے صاحبان کے پاس تو معاونین اور ملازمین کی فوج ہے‘ ان کے تو سبھی کام آٹو پر چلتے ہیں جبکہ فیلڈ فورس کو بچوں کی فیس اور بجلی کا بِل بھی خود ہی جمع کروانا ہوتا ہے۔ خانگی مسائل اور گراسری سمیت دیگر ضروریات بھی خود ہی دیکھنی ہوتی ہیں۔ چوبیس گھنٹے گھن چکر بنائے رکھنے سے ایس ایچ اوز گھر تو درکنار تھانے کے معاملات بھی نہیں دیکھ سکتے۔ اعلیٰ افسران کی یہ پرانی عادت ایس ایچ اوز کے لیے وبال بنتی جا رہی ہے۔ سارا دن لاء اینڈ آرڈر کی ڈیوٹی‘ میٹنگ اور پھر رات گئے تک اعلیٰ افسران کے درشن کے لیے گھنٹوں ان کے دفتر کے باہر بیٹھنا اگر پولیسنگ ہے تو خاطر جمع رکھیے! ایسی گورننس ہمیشہ شرمسار ہی رہتی ہے اور ریفارمز کے بجائے ڈیفارمز کے ڈھیر لگتے چلے جاتے ہیں۔ لاء اینڈ آرڈر کی میٹنگز ہوں یا تقرریوں اور تبادلوں کے انٹرویوز‘ کئی کئی گھنٹے باہر بٹھائے رکھنا اور رات گئے درشن دینا ''شبینہ پولیسنگ‘‘ کا روپ بہروپ ہے۔
اسی طرح انسدادِ رشوت ستانی کی روک تھام کے ذمہ داران خود ایسے چاند چڑھا رہے ہیں جو شرمساری کے علاوہ دوست ملک میں بھی بدنامی کا باعث ہیں۔ ہمالیہ سے اونچی‘ شہد سے میٹھی اور سمندر سے گہری پاک چین دوستی کا دم تو بھرتے ہیں لیکن چینی کمپنی کو بلیک میل کرکے دن دیہاڑے کروڑ ہا روپے کا بھتہ وصول کرنے کی ڈرامائی اور چونکا دینے والی واردات کے مرکزی کردار کے حوصلے اور دیدہ دلیری پر داد تو بنتی ہے کہ وہ اپنے مہربانوں کی شرمندگی اور جگ ہنسائی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔ خیر! مہربان شاید ناجانتے ہوں لیکن واقفانِ حال تو سبھی جانتے ہیں۔
یہ سطریں لکھنے کے بعد مجھے تقریباً 29سال پرانا منو بھائی کا ایک کالم اور اس سے متعلق واقعہ یاد آگیا ''آئی جی پنجاب چوہدری سردار محمد ڈی آئی جی کانفرنس کی صدارت کر رہے تھے اور کئی پولیس افسران پولیس کے حوالے سے منو بھائی کے ایک کالم بعنوان ''ایس ایس پی منہ سنگھاؤ‘ ایس ایس پی بوس و کنار‘‘ پر سخت برہم اور انہیں سبق سکھانے کے لیے بے تاب تھے۔ (کالم کی تفصیل کسی آئندہ کالم میں شیئر کروں گا) چند ایک پولیس افسران تو اس پر بھی بضد تھے کہ منو بھائی کو نشانِ عبرت بنا دیا جائے تاکہ آئندہ کسی کو پولیس کے خلاف لکھنے کی جرأت نہ ہو‘ جبکہ پنجاب پولیس کے ترجمان گلزار مشہدی ان افسران کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ایسا کرنا مناسب نہیں ہوگا‘ ہمیں ان کے کالم پر اپنا مؤقف اور وضاحت دینی چاہیے۔ آئی جی چوہدری سردار محمد اپنے افسران کے آگے بے بس دکھائی دیتے تھے جبکہ وہ ذاتی طور پر اس جارحانہ ردِعمل کے بالکل حق میں نہ تھے۔ ایسے میں ایک ڈی آئی جی نے نہ جانے کیسے منوبھائی کو خبر کرا دی کہ آپ کے بارے میں پولیس کے ارادے کچھ ٹھیک نہیں۔ منو بھائی نے اطلاع پاکر اوپر بات کی تو چیف سیکرٹری کا دورانِ کانفرنس آئی جی سردار محمد کو فون آگیا اور انہیں یہ پیغام پہنچایا گیا کہ اگر کسی افسر نے منو بھائی کے حوالے سے کوئی غیر قانونی ہتھکنڈا استعمال کیا تو وہ سیدھا گھر جائے گا اور حکومت کے لیے ایسی حرکت قطعی قابلِ برداشت نہ ہوگی‘‘۔
منو بھائی کو تو ایک ڈی آئی جی نے خبر کروا دی تھی‘ اگر مجھے خبر نہ ہوئی تو آئی جی صاحب سے اس واقعہ کو رپٹ پیش بندی کے طور پر لینے کی استدعا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved