سویڈن کی عدلیہ کی ہلّہ شیری پر نمازِ عید کے موقع پر پولیس اور تمام انتظامیہ کی نگرانی میں قرآن پاک کے نسخے کی جس طرح توہین کی گئی‘ یہ عالمی ضابطہ اخلاق اور بقائے باہمی کے قوانین کی بھی بے حرمتی ہے۔ قرآن پاک دنیا کے ہر شخص کیلئے نور و ہدایت کا ذریعہ ہے‘ خواہ اسکا تعلق سائنس سے ہو یا تہذیب و تمدن سے۔ معاشرتی اور سماجی زاویوں کے اطوار ہوں یا ہیومن رائٹس‘ عدل و انصاف اور قانون سازی ہو یا انسانی اخلاقیات‘ ان سب سے متعلق رہنما اصول قرآن پاک میں رب العالمین نے اپنے بندے‘ خاتم الانبیاء سیدنا محمد مصطفیﷺ کی زبان مبارک سے پہنچا دیے ہیں۔ قرآن محض مسلمانوں کی مذہبی کتاب نہیں ہے بلکہ یہ دنیا میں قیامت تک آنیوالے ہر انسان کیلئے قاعدے اور قانون کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ علیحدہ معاملہ ہے کہ کروڑ وں مسلمانوں سمیت دنیا کی ایک غالب اکثریت اسے اپنے لیے ایک ایسی کتاب سمجھتی ہے جو انکے نصاب کا حصہ ہی نہیں۔ وہ گمان کیے بیٹھے ہیں کہ انکی زندگی کے امتحانات اس کورس سے باہر ہیں۔
اسلامو فوبیا اسوقت نہ صرف یورپ اور مغربی دنیا‘ بلکہ بھارت اور میانمار سمیت کئی مشرقی ملکوں کا بھی بڑا ایشو بن چکا ہے۔ اس حوالے سے سابق وزیراعظم نے عالمی فورمز پر جس مؤثر انداز سے آواز بلند کی‘ جس طرح اپنے خطابات میں اس ایشو کو اٹھایا‘ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان نے ہی اقوامِ متحدہ میں انسدادِ اسلامو فوبیا کا عالمی دن منانے کی قرارداد پیش کی‘ جس کی اقوام متحدہ نے منظوری دی اور امسال 15 مارچ کو اسلامو فوبیا کا پہلا عالمی دن منایا گیا۔ حالیہ دنوں میں بھی پاکستان میں سب سے پہلے چیئرمین پی ٹی آئی نے اس ایشو پر آواز اٹھائی‘ وگرنہ یہاں تو ایک سناٹا چھایا ہوا تھا۔ بہت سے لوگوں کو علم ہی نہیں تھا کہ عید کے روز سویڈن میں کیا ہوا۔ مگر چیئرمین پی ٹی آئی نے آگے بڑھ کر‘ مغرب کی ناراضی مول لیتے ہوئے اور خود پر بنیاد پرست ہونے کا الزام لگنے کے باوجود اس ایشو پر آواز اٹھائی اور پوری قوم کو یکجا ہو کر اس پر احتجاج کرنے کی کال دی۔
2014ء میں امریکی سپریم کورٹ کا وڈیو شیئرنگ ویب سائٹ یوٹیوب سے پیغمبرِ اسلامﷺ کے حوالے سے گستاخانہ فلم کو ہٹانے کا فیصلہ اور اس کے خلاف گوگل کی اپیل کا مسترد کیا جانا اس امر کے با وجود قابلِ تعریف تھا کہ یہ فیصلہ مسلمانوں کے کئی سال کے مسلسل احتجاج کے بعد سنایا گیا تھا۔ اس سے قبل پانچ اپریل2011ء کو ایک ایسا واقعہ پیش آیا جسے مسلم دشمنی کی انتہا کہا جا سکتا ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ امریکی ایئر لائن کا طیارہ اوماہا انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے اپنی پرواز کے انتظار میں تھا، مسافر ایک ایک کرکے جہاز میں اپنی مقرر کردہ نشستوں پر بیٹھ رہے تھے، جہاز کا عملہ نشستوں کی نشاندہی اور مسافروں کی مدد میں مصروف تھا۔ جیسے ہی سب مسافر بیٹھ گئے اور پائلٹ نے رَن وے پر ٹیکسی کرنے سے پہلے عملے کو اپنی اپنی جگہ بیٹھنے کو کہا‘ اسی دوران جہاز میں بیٹھی ایک خاتون نے اپنے ساتھ بیٹھی عورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے زور زور سے چلانا شروع کر دیا۔ جہاز کا سینئر عملہ اور سکیورٹی کے ارکان فوراً اس عورت کی طرف لپکے اور اس سے چیخنے اور خوف زدہ ہونے کی وجہ پوچھی تو اس نے اپنے ساتھ بیٹھی ہوئی عورت کی طرف اشارہ کر کے اسے دہشت گرد کہنا شروع کر دیا۔ جہاز کے عملے نے حجاب میں ملبوس اس عورت سے اس کا نام پوچھا اور اسے فوری طور پر جہاز سے اترنے کیلئے کہا گیا لیکن اس عورت نے جہاز سے اترنے سے انکار کرتے ہوئے پوچھا کہ اس کا قصور کیا ہے؟ ساتھ بیٹھی ہوئی عورت‘ جس کی شناخت ایلزبتھ بینٹ کے نام سے ہوئی‘ جہاز کے عملے کو بتانے لگی کہ جونہی جہاز رَن وے کی طرف بڑھنے لگا تو یہ عورت کسی نامعلوم زبان میں کچھ بول رہی تھی۔ حجاب میں ملبوس اس خاتون سے جب میں نے پوچھا کہ وہ کیا پڑھ رہی ہے تو یہ کہنے لگی کہ وہ لاطینی زبان میں دعائیہ کلمات پڑھ رہی ہے۔ مجھے اس سے خوف محسوس ہو رہا ہے، اس کے ہوتے ہوئے میں جہاز میں سفر نہیں کر سکتی۔ اتنا سننا تھا کہ اس سے آگے اور پیچھے والی سیٹوں پہ بیٹھے مسافروں نے بھی اس عورت کو فوراً جہاز سے اتارنے کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا ۔ ایک مسافر‘ جو اس عورت سے چار قطار پیچھے بیٹھا تھا‘ نے سکیورٹی عملے سے کہا کہ اس کا نام سن کر میرا تو رنگ ہی پیلا پڑ گیا ہے۔ جب اس عورت کو جہاز سے اتارنے لگے تو وہ چلاناشروع ہو گئی کہ وہ مسلمان نہیں بلکہ کیتھولک نن ہے۔ جہاز کے مسافر اور عملے کے ارکان کی اکثریت اسے فوراً آف لوڈ کرنے کا مطالبہ کرنے لگی۔ بعد میں ایک انٹرویو میں اس خاتون نے بتایا کہ اس نے اُس وقت یہی مناسب سمجھا کہ ان لوگوں کو مزید پریشان اور خوف زدہ کرنے سے بہتر ہے کہ وہ جہاز سے اتر جائے۔ اس کے اترتے ہی جہاز کے مسافروں نے سکون کا سانس لیا اور جہاز اپنی منزل کی جانب روانہ ہو گیا۔ اس نن کو جہاز سے اتارنے کے بعد سکیورٹی سٹاف کی معیت میں باہر لایا گیا۔ کوئی بھی دوسری ایئر لائن اسے بٹھانے کو تیار نہیں ہو رہی تھی، جس پر اس عورت نے چرچ سے رجوع کرتے ہوئے مدد مانگی۔ چرچ نے اس کے حق میں سرٹیفکیٹ دیتے ہوئے کہا: She is a Catholic nun from the our lady of Grace Monastery in Dayton, Ohio.
نائن الیون کے بعد مغربی ممالک کے پڑھے لکھے اور خود کو لبرل اور انسانی حقوق کا چیمپئن کہلانے والے معاشروں میں ایسے لاتعداد واقعات پیش آئے۔ ان کے ذہنوں میں امریکہ، مغرب اور مسلم دشمن میڈیا کی جانب سے انڈیلی جانے والی مذہبی انتہا پسندی کی یہ ایک واضح مثال تھی کہ جہاز میں بیٹھی ہوئی ایک کرسچن نن‘ جس کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا‘ کو محض اس وجہ سے فلائٹ سے اتار دیا گیا کہ وہ حجاب میں ملبوس تھی اور اس کا نام مسلمانوں سے مشابہ تھا، محض اتنی سی وجہ کے باعث اس پر دہشت گردی کی مہر لگا دی گئی۔ آج بدبخت سلوان مومیکا نے سویڈن میں کروڑوں مسلمانوں کی روحوں کو زخم دیے ہیں، کل غلیظ پادری ٹیری جونز نے امریکہ میں ایسی ہی نفرت کا اظہار کیا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ امریکہ کی ہوم لینڈ سکیورٹی اور دفاعی امور کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر گریگ پال نے بھی مسلمان بچوں کی تعلیم و تربیت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسلام اور شریعت کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے اسے بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ محض ایک واقعہ نہیں ایک سوچ ہے‘ جو نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا سے لے کر بھارت اور یورپ و امریکہ سمیت ہر جگہ پنپ رہی ہے۔ نیوزی لینڈ کے اُس سانحے کو کون فراموش کر سکتا ہے کہ جب ایک انتہا پسند شخص نے پچاس سے زائد جیتے جاگتے انسانوں کو چند لمحوں میں موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اسی پر بس نہیں کیا بلکہ اس قتلِ عام کو سوشل میڈیا کے ذریعے لائیو نشر کیا تاکہ اس سے دنیا بھر کے مسلمانوں میں دہشت پیدا ہو۔ بریٹن ٹیرنٹ نامی سفید فام نسل پرست آسٹریلوی شخص واضح طور پر اسلامو فوبیا کا شکار تھا۔ اس نے ایک ذاتی منشور بھی بنا رکھا تھا۔ گویا وہ کوئی نفسیاتی مریض نہیں تھا بلکہ باقاعدہ ایک نظریے کا حامی تھا جس کے تحت مسلمان تارکینِ وطن کو واپس ان کے ملکوں میں دھکیل دینا چاہئے۔ اسلاموفوبیا ایسا خوف ہے جو دنیا کی لگ بھگ دو ارب آبادی کے حوالے سے باقی دنیا کے دل میں پیدا کیا گیا ہے۔ یورپ بالخصوص فرانس، اسرائیل، بھارت اور امریکہ میں دائیں بازو کے انتہا پسند جان بوجھ کر اس سوچ کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ جرمنی جسے یورپ کی ترقی میں ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے‘ میں اسلامو فوبیا کا مرض انتہائوں کو چھو رہا ہے۔ ایک ریسرچ میں جرمنی میں مسلم کمیونٹی کی اکثریت نے تسلیم کیا کہ انہیں آئے دن مذہب و رنگت کی وجہ سے سماجی نفرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جرمن وزارتِ داخلہ نے تین سال کی تحقیق کے بعد حالیہ دنوں میں جو رپورٹ پیش کی ہے‘ اس میں تسلیم کیا ہے کہ جرمنی میں ہر دوسرا شخص مسلم مخالف بیانات سے اتفاق کرتا ہے، یعنی جرمنی کی نصف سے زائد آبادی اسلاموفوبیا کا شکار ہے۔ آئے روز فرانس، میانمار اور بھارت جیسے ملکوں میں اقلیتی گروہوں پر منظم حملے اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ دنیا میں اسلاموفوبیا کا مرض خطرناک شکل اختیارکر چکا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved