زندگی الف سے یے تک فکر و عمل سے عبارت ہے۔ جو کچھ ہم سوچتے ہیں اُس پر عمل کرنے سے زندگی کو کچھ مل پاتا ہے۔ ہر ماحول میں اکثریت اُن کی ہے جو یا تو سوچتے رہتے ہیں یا پھر سوچے بغیر بہت کچھ کر گزرتے ہیں۔ فکر و عمل کے درمیان ممکنہ حد تک ہم آہنگی یقینی بنائے بغیر بھی زندگی گزاری جاسکتی ہے اور گزاری ہی جارہی ہے مگر سوچنا پڑے گا کہ یہ زندگی ہے بھی یا نہیں۔ اکثریت اُن کی ہے جو اِس معمول کو زندگی سمجھ بیٹھتے ہیں اور مرتے دم تک محدود رہتے ہیں۔ ہر عہد کے انسان کو سوچ بچار کے مرحلے سے گزرنا پڑا ہے۔ جب انسان زیادہ سوچتا نہیں تھا تب وہ بہت آسانی سے خاصی محدود زندگی بسر کرتا تھا۔ یہ بات ہے غاروں کے زمانے کی۔ تب پیٹ بھرنے کا نام ہی زندگی تھا۔ صبح سے شام تک صرف ایک فکر لاحق رہتی تھی کہ پیٹ کس طور بھرا جائے۔ یہ کام ہوگیا تو سمجھ لیجیے سب کچھ ہوگیا۔
غاروں کے اندر محدود سطح کی زندگی بسر کرتے کرتے انسان جب بیزار ہوگیا تو کچھ ایسا کرنے کا سوچا جس سے زندگی میں کچھ آسانی پیدا ہو، تھوڑی سی دلکشی کا اہتمام ہو۔ یوں انسان نے ہر روز شکار کرنے کے بجائے گھر بناکر کھیتی باڑی کے ذریعے زندگی بسر کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ تبھی مویشی پالنے کی روایت نے بھی جنم لیا۔ یوں انسان کے لیے آسانیوں کا اہتمام ہوتا گیا۔ انسان سب سے بڑھ کر کیا چاہتا ہے؟ زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانا، اور کیا؟ ہر دور کے انسان نے یہی تو چاہا ہے کہ کچھ زیادہ کرنا نہ پڑے اور زندگی میں رنگینی پیدا ہو۔ یہ خواہش انسان کو ذہن کے استعمال کی طرف لے گئی۔ ذہن کے استعمال ہی سے محنت گھٹتی ہے اور زندگی کی دلکشی بڑھتی ہے۔ جب انسان نے ذہن کو بروئے کار لانا شروع کیا تب جسمانی مشقّت کا دائرہ سکڑتا گیا اور زندگی میں نکھار پیدا ہوتا گیا۔ انسان کے لیے ذہن کو بروئے کار لانا ناگزیر ہے۔ ہمیں آج دنیا میں جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے وہ سب سے پہلے تو ذہن کے پردے ہی پر نمودار ہوا تھا۔ کوئی کچھ سوچتا ہے تو اُس سے متعلق امکانات پر غور کرتا ہے۔ اِس کے نتیجے میں عمل کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ انسان جب اپنے فکری سرمائے کو عملی شکل دیتا ہے تب کسی حقیقی تبدیلی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
ہر عہد میں انسان اُسی وقت کامیاب ہوا ہے جب اُس نے فکر و عمل کی ہم آہنگی ممکن بنائی ہے۔ محض سوچنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ جو کچھ سوچا جائے اُسے عملی جامہ بھی پہنانا ہوتا ہے۔ انسان کے ذہن میں جو کچھ چل رہا ہوتا ہے اُس کا علم کسی کو بھی صرف اُس وقت ہوسکتا ہے جب وہ سب کچھ عمل کے ذریعے دنیا کے سامنے رکھا جائے۔ انسان ذہن میں کتنی ہی کہانیاں پروان چڑھاتا رہے، جب تک وہ لکھنے نہیں بیٹھتا تب تک دنیا کو کچھ علم نہیں ہو پاتا کہ ذہن میں کیا چل رہا ہے۔ یہ معاملہ دیگر تمام شعبوں کا بھی ہے۔ کوئی فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتا ہے تو دنیا کو اُس فنکار کی صلاحیت و سکت کا کچھ اندازہ ہو پاتا ہے۔ اگر سب کچھ ذہن ہی میں چلتا رہے تو کسی کو کیا معلوم ہوسکتا ہے کہ کس کے ذہن میں کیا چلتا رہا ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا کا حصہ ہیں جس میں فکر و عمل کے دھارے ساتھ ساتھ بہتے ہیں۔ یہ ایک دوسرے سے الگ ہیں مگر اِن میں فاصلہ بڑھایا نہیں جاسکتا۔ دونوں دھارے ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔ انسان صرف سوچتا رہے تو کچھ نہیں کرسکتا۔ اور اگر عمل کی راہ پر گامزن رہ کر سوچنے کے عمل کو ترک کر بیٹھے تو بھی کچھ خاص نہیں ہو پاتا۔ یہ حقیقت ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہیے کہ سوچ کے بغیر عمل ادھورا ہے اور عمل کے بغیر سوچ کچھ بھی نہیں۔
ساتھ ہی ساتھ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے تو اچھا کہ اِس دنیا کو اب تک جو کچھ بھی ملا ہے صرف اور صرف وقت کی موزونیت سے ہم آہنگ عمل کی بنیاد پر ہی ملا ہے۔ جو لوگ وقت کی نزاکت اور تقاضوں کو سمجھنے میں کامیاب رہتے ہیں وہی کچھ کر پاتے ہیں۔ عمل وہی کارگر ثابت ہوتا ہے جو بروقت ہو اور بھرپور ہو۔ فی زمانہ عمل کی اہمیت زیادہ ہے۔ فکر و نظر کا معاملہ بھی کم اہم نہیں؛ تاہم یہ سب کچھ ترقی یافتہ معاشروں میں زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ ترقی یافتہ معاشرے فکر و نظر کی بلندی پر جی رہے ہیں۔ وہاں کسی کو آگے بڑھنا ہو، کچھ کرنا ہو تو سوچنا پڑتا ہے، ذہن میں کچھ نیا پیدا کرنا پڑتا ہے۔ نئی سوچ کے بغیر بھرپور ترقی ممکن نہیں ہو پاتی۔ مغربی دنیا میں علم و فن کے حوالے سے بنیادی سوچ کی اہمیت اب بھی بہت زیادہ ہے۔ یہی سبب ہے کہ تعلیم اور متعلقہ تحقیق و ترقی پر وہاں اب بھی بہت کچھ خرچ کیا جارہا ہے۔ جو بچے نئی سوچ رکھتے ہیں اُن پر خاص توجہ دی جاتی ہے، اُن کی ذہنی تربیت کو کسی بھی مرحلے میں نظر انداز نہیں کیا جاتا۔
ہمارے جیسے ترقی پذیر معاشروں میں آج بھی سوچنے کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ اور عمل؟ وہ بھی واماندہ ہے۔ فکر و عمل کی ہم آہنگی ہمارے ہاں خال خال ہے۔ لاکھوں میں کوئی ایک دکھائی دیتا ہے جس میں فکر و عمل کی ہم آہنگی کارفرما نظر آتی ہے۔ عمومی طرزِ زندگی فکر اور عمل‘ دونوں سے عاری ہے۔ اور اس کا نتیجہ بھی سب کے سامنے ہے۔ جو لوگ سوچتے نہیں وہ قدم قدم پر ٹھوکر کھاتے ہیں۔ اور جو سوچے بغیر میدانِ عمل میں کودتے پھرتے ہیں اُن کا معاملہ بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ وہ بھی مجموعی طور پر ناکام ہی رہتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ اگر عمل کی دنیا میں بہت کچھ کرکے اچھی خاصی دولت کمالی جائے تو بھی زندگی میں کچھ خاص تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ یہ تصور ہمارے ہاں ذہنوں سے اب تک چمٹا ہوا ہے کہ دولت ہی سے سب کچھ ہوتا ہے، دولت ہی سے خوشیاں ملتی ہیں اور دولت ہی سے بھرپور طمانیت نصیب ہوتی ہے۔ یہ محض واہمہ ہے، خام خیالی ہے۔ فکر و نظر کے بغیر عمل کی دنیا میں قدم رکھنے سے بہت سی دولت مل بھی جائے تو زندگی کا حسن بڑھتا ہے نہ نکھرتا ہے۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ دولت کو بہتر نتائج ممکن بنانے کے لیے بروئے کار لایا جائے۔ ایسا بالعموم ہوتا نہیں۔
ایک بڑی الجھن یہ ہے کہ جو لوگ کسی نہ کسی طور بہت زیادہ دولت حاصل کرلیں وہ اِس سے آگے نہیں سوچتے۔ وہ کسی بھی ایسے انسان کی بات نہیں سنتے جو دولت سے محروم رہا ہو۔ دولت اُن کے ذہن میں یہ گِرہ لگادیتی ہے کہ جو خود کچھ حاصل نہ کرسکا ہو وہ کسی کو کامیابی کے بارے میں کیا بتائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں بڑے کاروباری اور علمی ادارے ایسے لوگوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں جو خود کچھ زیادہ حاصل نہیں کر پائے مگر دوسروں کو بہت کچھ حاصل کرنے کے بارے میں بہت کچھ سکھاسکتے ہیں اور سکھاتے ہیں۔
آج کی دنیا میں فکر و نظر کی بھی اہمیت کم نہیں اور عمل کی وقعت بھی غیر معمولی ہے۔ ہاں‘ عمل کی وقعت ایک قدم آگے ہے۔ سوچنے کی گنجائش اب کم رہ گئی ہے۔ آج کی دنیا میں زیادہ کامیاب وہ ہیں جو عمل پسند رویے کے حامل ہیں۔ عمل کو حرزِ جاں بناکر زندگی بسر کرنے والوں کو آپ زیادہ کامیاب پائیں گے۔ سوچتے رہنا لازم ہے مگر محض سوچتے رہنے سے کچھ خاص ہوتا نہیں۔ زندگی ہمیں بہت کچھ دینا چاہتی ہے۔ اِس کے لیے فکر و عمل کی ہم آہنگی ناگزیر ہے تاہم فی زمانہ عمل زیادہ بڑی حقیقت ہے۔ محض سوچتے رہنے والے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اُنہیں زندگی کے دامن سے کچھ کم ہی ملتا ہے۔ ایسے میں یہ حقیقت ذہن نشین رہنی چاہیے کہ بہت زیادہ سوچنے سے بہتر ہے کم مگر کارآمد سوچنا۔ بہت بڑی منصوبہ سازی کی ضرورت نہیں۔ انسان کو کم مگر معیاری سوچنا چاہیے اور چھوٹے چھوٹے منصوبوں کے ذریعے عمل کے میدان میں خود کو منوانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
جو کچھ آپ سوچیں گے وہی جب عملی جامہ پہنے گا تب آپ کے لیے مطلوب نتائج پیدا کرے گا۔ ہاں‘ کم سوچ کر بھی اچھے عمل کی طرف جائیے گا تو سوچ میں رہ جانے والی کسر اچھے عمل کے نتائج سے پوری ہوجائے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved