پاکستانی معیشت کیلئے اچھی خبروں کا سلسلہ جاری ہے۔ جس قومی یکجہتی کی ملک کو ضرورت تھی‘ وہ بھی دکھائی دے رہی ہے۔ وزیراعظم، آرمی چیف اور سیاسی جماعتوں کی محنت رنگ لا رہی ہے۔ سعودی عرب سے دو ارب ڈالرز موصول ہو گئے ہیں جس سے سٹاک ایکسچینج اور ایکسچینج مارکیٹ میں مثبت رجحان دیکھا گیا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کئی ماہ سے یہ یقین دلا رہے تھے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے تین ارب ڈالرز مل جائیں گے۔ عسکری قیادت بھی بزنس کمیونٹی سے ملاقاتوں میں یہ یقین دلاتی رہی ہے کہ دوست ممالک سے مطلوبہ رقم مل جائے گی۔ سعودی عرب ہر مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ پچھلے قرضوں کو رول اوور کیا گیا‘ نیا قرض فراہم کیا گیا اور ادھار تیل کے معاہدے کو بھی آگے بڑھایا گیا۔ پچھلے سات ماہ میں سعودی عرب نے پاکستان کو تقریباً پانچ ارب ڈالرز سے زیادہ کا ریلیف فراہم کیا ہے۔ گزشتہ دسمبر میں تین ارب ڈالر سعودی عرب کو واپس کرنا تھے جو رول اوور کر دیے گئے۔ اس وقت سعودی عرب کے پانچ ارب ڈالرز سیف ڈیپازٹس میں رکھے ہیں۔ دوست ممالک کی مدد کی وجہ سے اب ڈیفالٹ کی افواہیں دم توڑ گئی ہیں۔ اس کی تصدیق فچ نے بھی کر دی ہے۔ عالمی ریٹنگ ایجنسی فچ نے آئی ایم ایف کے ساتھ عملے کی سطح پر سٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدے اور جولائی کے وسط میں قسط کی وصولی کے پیشِ نظر پاکستان کی درجہ بندی بہتر کرتے ہوئے 'سی سی سی مائنس‘ سے 'سی سی سی‘ کردی ہے۔سٹاک ایکسچینج میں زیادہ اتار چڑھاؤ نہیں دیکھا جا رہا‘ جس کا مطلب ہے کہ مارکیٹ صحیح معنوں میں بہتر پرفارم کر رہی ہے اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھا ہے۔ اگر یہ صورتحال برقرار رہی اور انتخابات کے ذریعے سیاسی استحکام آتا ہے تو مارکیٹ جلد ہی 60 ہزار پوائنٹس تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بیرونی کھاتوں کا استحکام بھی بہتر ہو رہا ہے اور ممکنہ قلیل مدتی اتار چڑھائو کے باوجود روپے کی قدر میں بہتری کی گنجائش ہے۔ اقتصادی امور ڈویژن (ای اے ڈی) نے متعلقہ وزارتوں اور حکام کو بتایا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک اور اسلامی ترقیاتی بینک نے بالترتیب 40 کروڑ اور 26 کروڑ 50 لاکھ ڈالر رقم کے ساتھ ایف پی ایس پی کی فنانسنگ پر اتفاق کیا ہے جبکہ چین کی جانب سے 10 کروڑ ڈالر کی گرانٹ بھی متوقع ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ موجودہ حکومت کے خاتمے تک نجی اور سرکاری بینکوں میں زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً چودہ ارب ڈالرز تک پہنچ جائیں گے۔ وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ دسمبر تک کوئی مشکل نہیں ہے کیونکہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط کو پہلے ہی پورا کیا جا چکا ہے۔ اگر نگران حکومت بھی سمجھداری سے مالی اور سیاسی معاملات کو لے کر چلتی رہی اور آئندہ حکومت نے پالیسیوں میں تسلسل کو جاری رکھا تو منزل تک پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ ان حالات میں نگران وزیراعظم اور نگران وزیر خزانہ کا انتخاب بہت اہمیت کا حامل ہے۔اگر نگران حکومت کے آتے ہی معاشی حالات میں اتار چڑھائو آیا تو عوامی سطح پر یہ رائے تقویت اختیار کر سکتی ہے کہ پی ڈی ایم کے معاشی فیصلے عارضی طور پر کیے گئے تھے۔ عمومی طور پر ہر حکومت جب اقتدار منتقل کرتی ہے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بہترین اعدادوشمار چھوڑ کر جائے تا کہ سیاسی میدان میں کچھ فائدہ سمیٹا جا سکے۔ ایسے وقت میں گورنر سٹیٹ بینک کا کردار بہت اہمیت اختیار کر سکتا ہے۔ پاکستان کی معاشی مارکیٹ ایکسچینج ریٹ کے گرد گھومتی ہے۔ پچھلے چند ماہ میں سٹیٹ بینک نے انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ ڈالر کی طلب اور رسد کو پالیسیوں میں تبدیلیاں کر کے مینج کیا گیا۔ صرف اتنے ہی ڈالرز کی ایل سیز کھولی گئیں جتنے ڈالرز موجود تھے۔بنیادی اشیا کی درآمدات کو ترجیح دی گئی۔مشکل حالات میں اس طرح کے فیصلوں کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ ایشیائی ترقیاتی بینک اور اسلامی ترقیاتی بینک نے پاکستان کو 195 ارب روپے کے فلڈ پروٹیکشن سیکٹر پروجیکٹ III (ایف پی ایس پی) کی مالی معاونت کیلئے تقریباً 66 کروڑ 50 لاکھ ڈالر فراہم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس فنڈ سے ملک میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے خلاف لچک پیدا کی جاسکے گی اور سٹرکچرل و نان سٹرکچرل‘ دونوں طریقے سے سیلاب کے حوالے سے جامع انتظامات کیے جاسکیں گے۔موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ہونے والے نقصانات کی مد میں پاکستان کیلئے دس ارب ڈالرز کا اعلان کیا گیا تھا۔ امید ہے کہ اس میں سے بھی کچھ فنڈز جلد ہی وصول ہو جائیں گے اور آئی ایم ایف اس حوالے سے پاکستان کی مدد کرے گا۔
پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک میں سرفہرست ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کے دیگر متاثرہ ممالک کے معاشی مسائل کو عالمی سطح پر صحیح طریقے سے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی ادارہ برائے ماحولیات اور ترقی (آئی آئی ای ڈی) کی رپورٹ کے مطابق قرضوں میں ڈوبے ملک‘ جنہیں اب ماحولیاتی بحران کا بھی بہت زیادہ سامنا ہے‘ کووڈ 19 کی وبا کے بعد سے قرضے دینے والے ملکوں کے گروپ جی 20 کو 50 ارب ڈالر کی بڑی ادائیگی کر چکے ہیں۔ جی 20 کے وزرائے خزانہ اور مرکزی بینکوں کے گورنروں کے بھارت میں ہونے والے آئندہ اجلاس سے پہلے عالمی بینک کی یہ رپورٹ سامنے آئی ہے جس کے مطابق کم ترین ترقی یافتہ 58 ممالک (ایل ڈی سیز) اور سمال آئی لینڈ ڈویلپنگ سٹیٹس (ایس آئی ڈی ایس) کی جانب سے کی گئی ادائیگیاں 2022ء میں 21 ارب ڈالر (16 ارب پاونڈ) تک پہنچ گئی تھیں جبکہ 2021ء میں یہ ادائیگیاں 14 ارب ڈالر (11 ارب پاؤنڈ) اور 2020ء میں 13 ارب ڈالر (10.3 ارب پاؤنڈ) تھیں۔ قرضے کی بڑھتی ہوئی واپسی کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے غریب ترین ممالک‘ جنہیں قدرتی آفات کے بڑے خطرات کا بھی سامنا ہے‘ مالی بوجھ کے گرداب میں پھنس چکے ہیں۔اس سال عالمی سطح پر ریکارڈ توڑ درجہ حرارت، سمندری طوفانوں، سیلابوں اور خشک سالی جیسی بڑھتی شدید قدرتی آفات کے پیش نظر اب موسمیاتی اثرات کو کم کرنے کے منصوبوں پر زیادہ رقم خرچ کرنے کے تقاضے بڑھ رہے ہیں لیکن بڑھتے ہوئے قرضوں کی وجہ سے یہ ممالک انسانی جانوں کے تحفظ کے بجائے قرضوں کی ادائیگی کی مد میں زیادہ رقم خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔ مختلف عوامل کی وجہ سے ان ممالک پر معاشی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ ان عوامل میں یوکرین پر روس کا حملہ، کووِڈ 19 کی وبا اور عالمی سطح پر قیمتوں اور شرحِ سود میں اضافے کے سبب پیدا ہونے والی عالمی اقتصادی سست روی شامل ہیں۔ قرضوں کے اس بڑھتے ہوئے بوجھ نے بہت سے ملکوں کی حالت پتلی کر دی ہے اور بعض نادہندگی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ وہ پیسہ جو لوگوں کے گھروں کو سیلاب سے بچانے یا خشک سالی کے دوران پانی تک لوگوں کی رسائی کو یقینی بنانے سمیت سکولوں اور ہسپتالوں کو چلانے کیلئے خرچ کیا جا سکتا ہے‘ وہ بڑے بینکوں اور آلودگی پھیلانے والے ملکوں کے خزانے کو بھر رہا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والے ملکوں سے موسمیاتی بحران کے بگڑتے ہوئے اثرات کی ذمہ داری قبول کرنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ جی 20 ممالک میں دنیا کی سب سے بڑی معیشتیں شامل ہیں جو یا تو صنعتی انقلاب کے بعد سے سب سے زیادہ آلودگی پھیلا رہی ہیں یا حالیہ دہائیوں میں ایسا کرنے والی ریاست بن گئی ہیں جس کی مثال بھارت اور چین ہیں۔دنیا کے غریب ترین ممالک نے موسمیاتی بحران میں سب سے کم حصہ ڈالا ہے پھر بھی انہیں اس کے سب سے خطرناک نتائج کا سامنا ہے۔ جی 20 میں وہ ممالک شامل ہیں جو اس وقت گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی بلند ترین سطح کے ذمہ دار ہیں۔ بہت سے ملکوں نے سامراجی نظام قائم کر کے معاشی طاقت حاصل کی۔ اس حوالے سے جی 20 ممالک کو معاملے کی نزاکت سمجھنے کی ضرورت ہے۔ قرضوں کی تنسیخ بھی کی جا سکتی ہے۔ ماحول کے حوالے سے موافقت پیدا کرنے کے لیے اقدامات کے بدلے میں یہ قرض معاف کیے جا سکتے ہیں یا ان کی تنظیمِ نو کی جا سکتی ہے۔ عالمی برادری کو اس پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے تا کہ پاکستان سمیت دیگر متاثرہ ممالک پر قرضوں کا بوجھ کم ہو سکے اور وہ ماحولیاتی بہتری میں بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈال سکیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved