انسان کی خوش نصیبی ہے کہ جس نے خلق کیا ہے وہ تمام معاملات پر مکمل قدرت رکھنے کے باوجود کوئی جبر نہیں کرتا بلکہ انسان کو آزماتا ہے۔ ہم کہاں اور آزمائش کہاں؟ ہم تو صرف اس قابل ہیں کہ ہمیں ہمارے کیے کی سزا دی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کسی بھی درجے میں اس قابل نہیں کہ سزا سے بلند ہوکر اُسے آزمائش کے مرحلے سے گزارا جائے۔ یہ قدرت کا خاص کرم ہے کہ ہم پر مصائب کے نزول کو آزمائش کے درجے میں رکھ کر ہماری حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ عمومی سطح پر انسان جو کچھ بھی کرتا ہے اُس کے نتیجے میں جو پریشانی پیدا ہوتی ہے اُسے تو صرف سزا ہی تصور کیا جانا چاہیے مگر ہمارا خالق اُسے آزمائش کے درجے میں رکھ کر ہمارے درجے کو تھوڑا بلند کردیتا ہے۔ اِسے کرم کی انتہا سمجھیے۔
انسان کے حصے میں آنے والی کوئی بھی مصیبت کیا ہے؟ یا تو سزا یا پھر آزمائش۔ اگر سزا سمجھئے تب بھی اطمینان کی بات ہے کہ چلئے، بوجھ کچھ تو کم ہوا۔ ہم سر سے پاؤں تک خطاؤں میں لتھڑے ہوئے ہیں۔ قدم قدم پر خالق و مالک کی نافرمانی ہے، احکامِ شریعت کی عدمِ تعمیل ہے۔ جس طرز کی زندگی ہم بسر کر رہے ہیں وہ صرف اِس قابل ہے کہ اُسے سزا کے مرحلے سے گزارا جائے۔ پھر بھی ہمارے خالق کا احسان ہے کہ ہماری چھوٹی موٹی خطائیں معاف کرکے ہمیں صرف بڑے معاملات میں قابلِ احتساب قرار دیتا ہے۔ وہ ہمیں توبہ کی بھی تحریک و توفیق دیتا ہے۔ توبہ صدقِ دل سے کی جائے تو قبولیت کے مرحلے سے گزرتی ہے اور ہمارے لیے نجات کا سامان کرتی ہے۔ ہر مصیبت صرف اِس لیے ہوتی ہے کہ اُس سے نمٹنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد کا سوال کیا جائے۔ ہر پریشانی اللہ تعالیٰ ہی کے کرم و فضل سے دور ہوتی ہے۔ ہمیں آزمایا جاتا ہے کہ کس پریشانی کو سامنے پاکر ہم کس نوعیت کی طرزِ فکر و عمل اختیار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم جن کے شاملِ حال ہو وہ قدم قدم پر شکر ادا کرتے ہیں۔ کوئی مصیبت سر پر آ پڑے تو وہ بدحواس نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہیں۔ پہلا مرحلہ صبر کرنے کا ہے یعنی اپنی جگہ ڈٹے رہنا، پیچھے نہ ہٹنا اور اللہ تعالیٰ سے مدد چاہنا۔ جو لوگ مصیبت میں ڈٹے رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم کے حوالے سے مایوس نہیں ہوتے اُنہی کے لیے عظیم ترین کامیابیاں لکھی گئی ہیں۔ ہمیں بارہا ٹھوکر لگتی ہے۔ ٹھوکر لگنے پر انسان لڑکھڑاتا ہے اور گر بھی جاتا ہے۔ ٹھوکر تو محض استعارہ ہے۔ بات مصائب کی ہو رہی ہے۔ کوئی بھی پریشانی یا مصیبت اول و آخر اِس لیے ہوتی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم کے طالب رہتے ہوئے اُس کا خندہ پیشانی سے سامنا کریں۔ قدرت کو ہم سے صرف یہ مطلوب ہے کہ ہم اُس کی رضا میں راضی رہیں، اُس کے احسان مند اور شکر گزار رہیں، اُس کے کرم سے مایوس نہ ہوں، اپنے خالق سے مدد چاہتے رہیں، اُس کے ہر فرمان کو سر آنکھوں پر رکھتے ہوئے زندگی بسر کریں اور اِس زندگی کو سب کچھ تصور نہ کرتے ہوئے اُخروی زندگی کے بارے میں سوچتے رہیں، اُس کا معیار بلند تر کرنے کی فکر میں غلطاں رہیں۔
زندگی دھوپ چھاؤں کا کھیل ہے۔ کبھی بہت کچھ ہاتھ آجاتا ہے اور کبھی سب کچھ جاتا رہتا ہے۔ انسان کو مرتے دم تک مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ آزمائش ہر انسان کے لیے ہے۔ کوئی ایک بھی انسان ایسا نہیں جس کے لیے کسی نہ کسی طرز کی آزمائش نہ رکھی گئی ہو۔ زندگی کے دامن میں ہمارے لیے بہت کچھ ہے مگر وہ ہم سے بھی بہت کچھ چاہتی ہے۔ یہ کھیل اِسی طور جاری رہتا ہے۔ قدرت نے یہ پورا نظام اِس طور خلق کیا ہے کہ کسی کے بناؤ میں کسی کا بگاڑ ہوتا ہے۔ کوئی اُجڑتا ہے تو کسی کے بسنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ کسی کو ہم سے فیض پہنچتا ہے، کسی سے ہم فیض پاتے ہیں۔ کبھی ہمارے کسی عمل سے کسی کے لیے الجھنیں پیدا ہوتی ہیں جبکہ ہماری ایسی کوئی نیت نہیں ہوتی۔ یہی حال دوسروں کا بھی ہے یعنی وہ ہمیں کسی بھی سطح پر نقصان نہیں پہنچانا چاہتے مگر اُن کے فکر و عمل سے ہمیں کچھ نہ کچھ نقصان پہنچتا ہے، مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔
ٹھوکر کسے نہیں لگتی؟ ہر انسان کو ٹھوکروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سب کچھ ہاتھ سے جاتا محسوس ہوتا ہے۔ ایسے میں حواس مختل ہو جاتے ہیں، کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کریں تو کیا کریں۔ یہ معاملہ سبھی کے ساتھ ہے۔ کسی ایک انسان کو بھی اس معاملے میں رعایت نصیب نہیں ہوتی۔ کیا کسی بھی پریشان کن صورتِ حال کا سامنا کرتے ہوئے ہمیں صرف بدحواسی کا مظاہرہ کرنا چاہیے؟ کیا ایسا کرنے سے مصیبت دور ہوتی جاتی ہے، پریشانی ختم ہو جاتی ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ عمومی سطح پر ایسا نہیں ہوتا۔ محض بدحواس ہو رہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ہر ٹھوکر ایک پیغام ہے۔ یہ پیغام رب کی طرف سے ہے یعنی ہمارے رب کی منشا ہے کہ جب بھی ٹھوکر لگے اور ہم لڑکھڑائیں اور گریں تب اول تو اِس کائنات کے خالق اور پروردگار کو یاد کریں، اُس سے مدد چاہیں اور پھر اصلاحِ احوال کے لیے کوشاں ہوں یعنی اپنی پریشانی کا محض تماشا نہ دیکھیں بلکہ دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کریں۔ ایسا کرنے ہی پر ہم اپنے آپ کو منوانے کے قابل ہوسکیں گے۔ کوئی بھی ٹھوکر محض اس لیے نہیں ہوتی کہ آپ گھبراکر، مایوس ہوکر چلنا ہی چھوڑ دیں۔ اگر ٹھوکر کھاکر گرنے کی صورت میں کھڑے نہ ہونے کو اصول کے طور پر اپنالیا جائے تو ہم جی چکے۔ ہر ٹھوکر کے پیغام کو سمجھنا ہوتا ہے۔ ہماری طرزِ فکر و عمل پر حالات اثر انداز ہوتے ہیں کیونکہ ہر صورتِ حال کا تقاضا مختلف ہوتا ہے۔ ٹھوکر معمولی ہو تو ہم نظر انداز کردیتے ہیں۔ بڑی ہو تو ہمیں متوجہ ہونا پڑتا ہے۔
زندگی ہم سے قدم قدم پر فکر و عمل کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ فطری امر ہے اور ناگزیر ہے۔ فکر و عمل کے معاملے میں کسی کے لیے رعایت کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ ہر انسان کو بدلتی ہوئی صورتِ حال کے مطابق نئی سوچ اپنانا پڑتی ہے، نئے عمل کی راہ پر گامزن ہونا ہی پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ ناگزیر ہے کیونکہ اِس کے بغیر زندگی پنپتی نہیں، اُس کا حُسن نکھرتا نہیں۔ مسائل اور مصائب اِس لیے نہیں ہوتے کہ اُن کے سامنے ہتھیار ڈال دیے جائیں۔ ہمیں ہر پریشان کن صورتِ حال کو ایک چیلنج کے طور پر لینا ہوتا ہے تاکہ ہماری بھرپور آزمائش ہو، ہم اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے معاملات کو درست کریں اور زندگی کو آسان تر بنانے پر مائل ہوں۔ یہ عمل یا معمول زندگی بھر کا ہے۔ ہمیں زندگی بھر مشکلات کا سامنا رہے گا اور ہر بار ہمیں ڈٹ کر دکھانا ہے۔ اِسی میں تو سارا مزہ ہے۔ اگر ہمت ہار بیٹھیں، شکست تسلیم کرلیں تو پھر فخر کرنے کو کیا رہ جائے گا؟
اپنے ماحول کا جائزہ لیجیے۔ غور کیجیے کہ پریشانیوں کے معاملے میں صرف آپ نشانے پر ہیں۔ کیا ایسا ہے کہ آپ کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہے جبکہ دوسروں کی 'موجیں ای موجیں‘ ہیں؟ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ آپ کو یا چند دوسروں کو قدرت نشانے پر لے اور باقی سب کو مزے کی زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم کرتی رہے؟ دانش کہتی ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ قدرت نے جو نظام وضع کیا ہے اُس میں کسی کے لیے کوئی رعایت نہیں۔ سب کو اپنے اپنے حصے کے مسائل کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ انسان کی عظمت اِس بات میں ہے کہ وہ کسی بھی مصیبت سے نہ گھبرائے، ڈٹ کر اُس کا سامنا کرے اور اپنے وجود کو بروئے کار لاتے ہوئے معاملات درست کرنے کی تگ و دَو میں مصروف ہو۔ ہر پریشان کن صورتِ حال کو قدرت کی طرف سے آزمائش کے درجے میں رکھ کر سوچئے گا تو اندازہ ہوگا کہ ہمارے لیے توقیر کا سامان ہوا ہے اور آزمائش سے کامیاب گزرنے ہی میں زندگی کا مزہ ہے۔ اِس دنیا میں مسائل چونکہ سب کے لیے ہیں اِس لیے آپ کو دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں۔ مسائل صرف اس لیے ہوتے ہیں کہ حل کیے جائیں۔ مسائل کو حل کرنے کی سعی ہی میں ہمارے لیے حقیقی طمانیتِ قلب کا سامان ہے۔ مصیبت کو آزمائش سمجھنے کی سوچ اپنائیے گا تو بہت کچھ آسان ہوتا چلا جائے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved