کبھی ایسا زمانہ بھی تھا جب ماضی کے تجربات کو تاریخ کہہ کر ان سے سبق حاصل کیا جاتا تھا‘ اب وقت کی رفتار اور اقوامِ عالم میں معاشی دوڑ کی سپر سپیڈ اس قدر سپر سونک ہے کہ جو پیچھے رہ گیا وہ Irrelevantہو گیا۔ جس کا مطلب ہے غیر متعلقہ‘ غیر اہم بلکہ غیر ضرروی بھی۔ دنیا بھر میں ترقی کی دوڑ ستاروں پر کمندیں ڈالنے سے بہت آگے جا چکی ہے۔ ہر شعبہ ایک علیحدہ سائنس ہے اور ہر سائنس ہر کسی کی سمجھ میں ہرگز نہیں آسکتی۔ مجھے اس کا احساس پہلی بار تب ہوا جب پچھلی صدی کی ساتویں دہائی میں گورنمنٹ کالج سے اکنامکس کے مضمون میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے مجھے کالج ایڈمیشن ملا۔ تب پاکستان میں پہلی بار سالانہ امتحان کے بجائے سمسٹرز سسٹم شروع کیا گیا۔
ہر سمسٹر تین مہینے کا اور ہر سمسٹرمیں چار مضامین پڑھنا پڑے۔ پہلے سمسٹر میں مائیکرو اکنامکس‘ اکانومیٹرکس‘ میکرو اکنامکس اور ڈویلپمنٹ اکنامکس کی کتابوں نے چکرا کے رکھ دیا۔ یہ 1977-79ء کی بات ہے۔ اب دنیا میں جو علوم پڑھائے جا رہے ہیں ہم ان کے نام ہی نہیں جانتے۔ ہر مضمون کے پیچھے تھِنک ٹینکس بیٹھے ہوئے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں ایسی مصنوعی ذہانت پر مبنی لیبارٹریاں بن چکی ہیں جہاں نیکسٹ لیول ریسرچ ہو رہی ہے‘ اس لیے روایتی لیکچر معدوم ہو گئے‘ ان کی جگہ Modulesنے لے لی۔ ITاور Zoomآگئے۔ سارے کرۂ ارض کے تمام براعظم سکڑ کر علم و عرفان کا گلوبل کلاس روم بن چکے ہیں۔
بانیٔ پاکستان حضرتِ قائداعظم ؒ اور ہمارے پہلے شہید وزیراعظم لیاقت علی خان نے جو پاکستان چھوڑا تھا‘ وہ تھا صحیح معنوں میں پرانا پاکستان۔ جس کی ذرا سی جھلک پاکستان کی سب سے پہلی ضرورت آٹو موبائل انڈسٹری کے حوالے سے یہاں پیش کرنا ضروری ہے تا کہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ قیامِ پاکستان کے پہلے دو عشروں والا پرانا پاکستان‘ پوسٹ ضیا الحق جمع باقیاتِ ضیا والا درمیانہ پاکستان‘ دونوں میں کیا فرق ہے۔ ہم بحیثیت قوم اتنے پھٹیچر کبھی نہیں تھے جتنے آج ہمیں بنا دیا گیا۔
1953ء سے پاکستان میں انڈسٹریلائزیشن کا سنہرا دور شروع ہوا۔ جس کی بنیاد شہید قائدِ ملت نے اپنے دور میں رکھی تھی۔ پاکستان کی نیشنل موٹر کارپوریشن نے امریکہ کی سب سے بڑی آٹو موبائل کمپنی یو ایس جنرل موٹر ز کے اشتراک سے ملکی تاریخ کی پہلی Vauxhall گاڑی کی پروڈکشن شروع کردی۔ امریکہ میں یہ گاڑیاں جی ایم موٹرز کے نام سے مشہور ہیں۔ پاکستان کا سب سے پہلے ویٹ کیریئر ٹرک مشہورِ زمانہ بیڈ فورڈ بھی اسی پلانٹ پر تیار کیے گئے تھے۔
1953ء میں ہی Exide بیٹری کے نام سے پاکستان کا پہلا برانڈ شروع ہو گیا۔ اس وقت ہم اپنے ایک دن بعد آزاد ہونے والے پڑوسی ملک بھارت سے بہت آگے تھے۔ 1954ء میں علی موٹرز نے فورڈ موٹرز امریکہ کے ساتھ مل کر پاکستان میں پہلی کار‘ لوڈر ٹرک اور صنعت و تجارت میں استعمال ہونے والا پک اَپ ٹرک بھی ملک کی سڑکوں کے حوالے کر دیا۔ جس کے صرف ڈیڑھ‘ دو سال بعد ہارون انڈسٹریز نے Dodge امریکہ کے برانڈ نیم سے ایک اور سستا ترین پک اَپ ٹرک مارکیٹ کیا۔ ان آٹو موبائلز کی مانگ اتنی زیادہ بڑھ گئی کہ پڑوسی ممالک بھی ہم سے یہ برانڈ خریدنے لگے اور اسی تسلسل میں آل اِن وَن انجینئرنگ کے نام سے ایک کمپنی قائم ہوئی‘ جس نے سرزمین پاک پر گاڑیوں کے سپیئر پارٹس تیار کرنے کا جدید پلانٹ لگا ڈالا۔
پرانا پاکستان‘ دوسری انگڑائی سال 1962ء میں لیتا ہے۔ اب باری تھی سستی فیملی؍ پبلک ٹرانسپورٹ کی جس کے لیے وزیر انڈسٹریز نے اٹالین لمبریٹا سکوٹر کمپنی کے ساتھ جوائنٹ وینچر قائم کر لیا۔ جس کے بینر تلے پاکستان کا پہلا سکوٹر لمبریٹا TV-200کے نام سے سڑکوں پر دوڑنے لگا۔ آٹو موبائلز انڈسٹری کی اس رفتار کو دیکھ کر سال 1962ء میں ہی کندھنوالا انڈسٹریز نے امریکن جیپ کمپنی کے عالمی شہرت یافتہ مختلف جیپ ماڈلز پاکستان میں تیار کرنا شروع کیے۔ اور یوں پاکستان اڑوس پڑوس میں CJ5‘ CJ6 اور CJ7 برانڈ کی جیپس اپنی سرزمین پہ بنانے والا پہلا ملک بن گیا۔ ترقی کے سفر کے چند ماہ کے اندر اندر جرمن کانٹیننٹل کمپنی بھی پاکستان میں انویسٹمنٹ لے کر آگئی اور کراچی میں جنرل ٹائرز کے نام سے لوکل ٹائروں کا پہلا بڑا پلانٹ لگا دیا۔
یہاں ذرا رک جاتے ہیں۔ آپ اندازہ لگائیں کہ وہ نومولود ملک جس کی عمر مشکل سے ایک عشرہ تھی‘ اس کے اندر اتنی بڑی انڈسٹریز کے آنے سے کتنے بڑے پیمانے پر روزگار کھلا۔ کس سائز کی انویسٹمنٹ ہمارے خزانے میں آئی اور پاکستان کا عالمی طور پہ land of opportunitiesوالا تعارف ہو گیا۔ یہ وہ دور تھا جب حکمران نئے یونٹ لگانے کے لیے نہ کِک بیکس مانگتے تھے‘ نہ جبری کمیشن لیتے تھے اور نہ ہی اپنی بیٹیوں اور سالیوں کو غیر ملکی کمپنیوں میں ڈائریکٹرشپ یا سلیپِنگ پارٹنرشپ دلوانے کے لیے ترلے لیتے تھے۔ اس دور کی انڈسٹریز میں سے ایک ہری پور میں راتوں رات پہلے مشینری سے خالی کی گئی اور پھر اس کی زمین بیچ کر پیسے اونٹوں اور گدھوں پہ لاد کر ''باہر‘‘ چلے گئے۔ یہ آج کی بات ہے اور کھلی آنکھوں کے سامنے کی حقیقت ہے‘ کوئی افسانہ نہیں۔
ساٹھ کی دہائی تک پاکستان کی لوکل انڈسٹری عالمی انڈسٹریل سٹینڈرڈز پر پہنچ گئی۔ اصفہانی‘ آدم جی‘ سہگل‘ جعفر بردار‘ رنگون والا‘ افریقہ والا بردارز جیسے ناموں نے پاکستان کو صحیح معنوں میں انڈسٹریلائزیشن میں ڈال دیا تھا۔ تب دنیا پاکستان کو ''انڈسٹریل پیراڈائز‘‘ کہا کرتی تھی۔ عالمی اور علاقائی ماہرین کا کہنا تھا کہ اگر ترقی کی رفتار یہی رہی تو پاکستان ایشین ٹائیگر یعنی منی سپر پاور بن جائے گا۔
صرف چند سال کے عرصے میں 31صنعتی یونٹ‘ 13بینک‘ 14 انشورنس کمپنیاں‘ 10شپنگ کمپنیاں اور 2پٹرولیم کمپنیوں نے جنم لیا۔ انہی کمپنیوں میں سے ایک آئل کمپنی میرے کیبنٹ کولیگ‘ رزاق داؤد کے دادا سیٹھ احمد داؤد نے بنائی جس نے پاکستان میں تیل کے وسیع ذخائر ایکسپلور کیے۔ اندرونی‘ بیرونی‘ عالمی اور علاقائی جن میں کئی دشمن اور دوست ممالک شامل تھے‘ انہیں پاکستان سے نکلنے والے تیل کی بُو آگئی۔ احمد داؤد کو ایک رات گھر سے اٹھا کر جیل میں ڈال دیا گیا اور پھر ان کا نام ای سی ایل میں آگیا۔ یہ 1970ء کا عشرہ تھا۔ سیٹھ احمد داؤد نے ناکردہ گناہ بھگتنے کے بعد شدید مایوسی میں امریکہ کی راہ لی۔ سیٹھ احمد داؤد امریکہ پہنچے اور تیل دریافت کرنے کی کمپنی بنا لی۔ ان کی اس کمپنی نے امریکہ میں تیل کے چھ کنویں کھودے اور کمپنی کی کامیابی کی شرح 100فیصد رہی۔ ان کے بعد صادق داؤد نے بھی ملک چھوڑ دیا اور وہ کینیڈا شفٹ ہو گئے۔ تیل کی دریافت کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ 75 سال کی دوسری بڑی واردات 22مارچ سال 2019ء کو شروع ہوئی اور 19مئی سال 2019ء کو ختم ہو گئی۔ جسے بیان کرتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
ہاں یاد آیا! نیا افغانستان بھی آج کے موضوع کا حصہ ہے۔ صرف ایک خبر سن لیجئے! باقی اگلے کالم میں بیان کروں گا۔ افغانستان کی نئی حکومت نے پونے دو سال کے عرصے میں افغانستان میں تیل دریافت بھی کر لیا اور تیل نکالنا بھی شروع کر دیا۔ ہمارا دریافت شدہ تیل کس نے نہیں نکالنے دیا؟ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved