تشکر کی دولت کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ دولت کیا‘ اِسے نعمت سمجھیے۔ اللہ تعالیٰ کے احسانات پر اُس کا شکر ادا کرنے کی توفیق سے بڑی نعمت کیا ہوسکتی ہے؟ قدرت کو ہم سے صرف اِتنا ہی تو چاہیے۔ قدرت نے جو کچھ بھی ہمیں عطا کیا ہے وہ اُس کا اعتراف چاہتی ہے۔ جب ہم اپنے خالق و مالک کے احسانات کو سمجھتے اور مانتے ہیں‘ تبھی اس کا شکر ادا کرتے ہیں اور اُس کی رِضا میں راضی رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کوئی اِس بے بنیاد گمان میں مبتلا نہ رہے کہ اِس زندگی نے اُسے کچھ بھی نہیں دیا یا کچھ خاص نہیں دیا۔ ہمیں اِس دنیا نے‘ اِس زندگی نے بہت کچھ دیا ہے۔ آج ہماری زندگی میں جو کچھ بھی ہے وہ صرف ہماری محنت کا نتیجہ نہیں۔ بہت کچھ ایسا ہے جو دوسروں کا بنایا اور کیا ہوا ہے مگر ہماری زندگی میں معنویت پیدا کر رہا ہے۔ بہت کچھ ایسا ہے جو قدم قدم پر ہماری مدد کرتا ہے، معاملات سلجھانے میں ہمارا ساتھ دیتا ہے۔ کیا ہم اِس حقیقت سے انکار کرسکتے ہیں کہ اشتراکِ عمل ہی سے زندگی سنورتی ہے؟ کیا دوسروں کی محنت ہماری زندگی میں کوئی اضافہ نہیں کرتی؟ کیا ہم دوسروں کی محنت کے نتائج سے اپنی زندگی کو زیادہ بامقصد بنانے میں کامیاب نہیں ہوتے؟ ایسا ہی ہے! آج ہر طرف جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے وہ کسی ایک یا چند انسانوں کا پیدا کردہ نہیں۔ سب نے مل کر اپنے اپنے مقام پر جو محنت کی ہے اُسی کے نتیجے میں آج دنیا کی رونق برقرار ہے۔
اگر آپ پوری دیانت اور سنجیدگی سے اپنے معاملات کا جائزہ لیجیے تو اِس نتیجے پر پہنچیں گے کہ آپ نے زندگی بھر دوسروں کی محنت کے نتائج سے استفادہ کیا ہے۔ آپ کی محنت کے نتائج سے دوسرے بھی مستفید ہوئے ہیں۔ آپ جو کچھ بھی کرتے ہیں اُس کے لیے درکار عوامل دوسروں کے پیدا کردہ ہیں۔ ڈھائی‘ تین ہزار سال کے دوران انسانوں نے جو کچھ بھی کیا ہے اُس کے مجموعی نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔ آج ہم کئی زمانوں کی کاوشوں کے نتائج سے بہرہ مند ہیں۔ ڈھائی‘ تین ہزار سال میں جو کچھ بھی ایجاد یا دریافت کیا جاتا رہا ہے وہ سب اپنے مجموعی نتائج کے ساتھ آج ہمارے سامنے ہے۔ یہ اِتنی بڑی حقیقت ہے کہ ہم اگر اِس کا حقیقی ادراک رکھتے ہوں تو ہر وقت اپنے خالق و مالک کا شکر ادا کرتے رہیں۔
جو کچھ دوسروں نے کیا وہ آپ کے کام آرہا ہے۔ یہ سب کچھ معمول کی زندگی سے ہٹ کر تھا۔ معمول کی زندگی بسر کرنے والوں کو دنیا نہیں جانتی۔ ہزار‘ ڈیڑھ ہزار سال پہلے کسی بھی چھوٹے یا بڑے شہر میں یا پھر کسی بستی میں معمولی نوعیت کے کام کرنے والے بھی بڑی تعداد میں رہے ہوں گے۔ آپ انہیں جانتے ہیں؟ نہیں! کیوں؟ اس لیے کہ کوئی بھی اُسی وقت یاد رہتا ہے جب وہ معمول کی سطح سے بلند ہوکر کچھ ایسا کرتا ہے جو لوگوں کی زندگی آسان بنائے۔ محض خرید و فروخت کے دھندے سے وابستہ رہنے والے، کھیتوں میں کام کرنے والے، بستیوں میں ریڑھی یا ٹھِیا لگاکر کچھ بیچنے والے، معمولی نوعیت کی محنت و مشقت کے ذریعے گزر بسر کرنے والے محنت تو بہت کرتے ہیں مگر اُن کی محنت سے کسی کو کچھ زیادہ ملتا نہیں، دُنیائے علم و فن کے سرمائے میں کچھ اضافہ نہیں ہوتا۔ کوئی بھی انسان دنیا کو اُسی وقت یاد رہتا ہے جب وہ کچھ ایسا کرے جس سے دنیا کے سرمایۂ علم و فن میں کچھ اضافہ ہو۔ معمولات کی سطح سے بلند ہوکر زندگی بسر کرنے والے ہی کچھ نیا سوچ پاتے ہیں‘ کچھ نیا دے پاتے ہیں۔
آپ نے کیا سوچا ہے؟ اور کچھ سوچا بھی ہے یا نہیں؟ عام آدمی کا یہ حال ہے کہ دن رات صرف پیٹ بھرنے کے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔ زندگی صرف پیٹ بھرنے کا نام نہیں۔ یہ اِس سے بہت آگے کا معاملہ ہے۔ معمول چاہے جتنا بڑا ہو‘ معمول ہی ہوتا ہے۔ معمولات سے بلند ہوکر جینے والے ہی کچھ ایسا کر پاتے ہیں جو اُنہیں حافظوں میں تادیر محفوظ رکھے۔ آپ کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ کو بھی زندگی نے بہت کچھ دیا ہے۔ دوسروں کی محنت سے مستفید ہوتے ہوئے آپ نے بھی کچھ نہ کچھ تو پایا ہے۔ زندگی بسر کرنے کے لیے یہ عمل ناگزیر ہے۔ بے عمل انسان محض جی سکتا ہے اور وہ بھی تذلیل کے ساتھ‘ وہ محض گزارا کر سکتا ہے‘ زندگی بسر نہیں کرسکتا۔ باعمل زندگی ہی زندگی کہلانے کی مستحق ہے۔ ہر انسان گزر بسر کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرتا ہی ہے۔ یہ معمول بھی ایسا نہیں کہ نظر انداز کردیا جائے۔ جب ہم اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لاکر کچھ کرتے ہیں تبھی کچھ پاتے ہیں۔ یوں زندگی لین دین کا معاملہ لگتا ہے مگر وہی لوگ عظیم قرار پاتے ہیں جو لین دین کی سطح سے بلند ہوکر سوچتے اور کچھ کرتے ہیں۔ زندگی کا ہر معاملہ کاروباری سطح یا مادی نوعیت کا نہیں ہوتا۔ محبت اور اخلاص کا بھی زندگی ہی کا معاملہ ہے۔ کسی سے محبت کسی غرض کی تکمیل کے لیے نہیں ہوتی۔ اخلاص بے لوث ہوتا ہے۔ مقصود صرف یہ ہونا چاہیے کہ کسی کا بھلا ہو۔
ہر دور کے انسان نے اپنے وجود کو بروئے کار لاتے ہوئے دنیا کو کچھ دینے کی کوشش کی ہے، آنیوالی نسلوں کے مفاد کے بارے میں سوچا ہے۔ جب بھی کوئی انسان معمول کی سطح سے بلند ہوکر کچھ کرنے کے عزم کے ساتھ محنت پر مائل ہوتا ہے تبھی دنیا کو کچھ نہ کچھ مل پاتا ہے۔ یہی طریقۂ عمل کچھ نہ کچھ دنیا کے سرمایۂ علم و فن میں اضافے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ ہر دور کے منتخب انسانوں نے دنیا کو بہت کچھ دینے کی نیت کے ساتھ غیر معمولی محنت کی اور کچھ ایسا ایجاد اور دریافت کیا جس نے زندگی کو آسان بنانے میں قابلِ ذکر کردار ادا کیا۔
آپ نے کبھی اِس دنیا کو کچھ دینے کے بارے میں سوچا ہے؟ فی زمانہ کچھ نیا سوچنا اور کرنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے مگر ناممکن نہیں ہے۔ جو لوگ واقعی سوچتے ہیں، کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں وہ کچھ نہ کچھ نیا کرنے کے قابل ہو ہی جاتے ہیں۔ اگر آپ بھی چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کو یاد رکھیں تو آپ کو بھی کچھ نہ کچھ نیا دے کر جانا ہے۔ ایجادات اور دریافتوں کا زمانہ اب گزر چکا ہے۔ جو کچھ ہے اُسی کا معیار بلند تر کرنے کا کام اب باقی رہ گیا ہے۔ خیر‘ یہ بھی کوئی آسان کام نہیں۔ ندرت اور جدت کا بازار سوچنے ہی سے گرم رہتا ہے۔ دنیا بھر میں جدت پسندی کو اہم ترین رجحان کی حیثیت حاصل ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں کچھ نہ کچھ نیا کرتے رہنے کی لگن برقرار رہتی ہے کیونکہ وہاں اِس کے عوض ملتا بھی بہت کچھ ہے۔ ہاں‘ پسماندہ معاشروں کا معاملہ رُلا ہوا ہے۔ اِن معاشروں میں کچھ نیا کرنے کی لگن مشکل سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ لوگ یہی سوچتے ہیں کہ کچھ خاص ملے گا نہیں۔ اس حقیقت سے انکار حماقت کے سوا کچھ نہیں کہ انسان میں کچھ نیا اور زیادہ کرنے کی لگن اُسی وقت پیدا ہوتی ہے جب غیر معمولی صلہ ملنے کا امکان ہو۔ انسان کو کسی بھی کام کا معاوضہ ضرور ملنا چاہیے مگر کبھی کبھی کچھ ایسا بھی کرنا پڑتا ہے جو محض معاوضے کے لیے نہ ہو بلکہ انسانیت کے لیے ہو، جو مجموعی بھلائی کی خاطر ہو۔
آپ کو زندگی نے جو کچھ دیا ہے اُس کا تقاضا ہے کہ آپ بھی دنیا کو کچھ نہ کچھ دے کر جائیں۔ آپ کو جدت اور ندرت کے محاذ پر کچھ نہ کچھ ایسا کرنا ہی چاہیے جو زندگی کے میلے کی رونق میں اضافے کا ذریعہ ثابت ہو۔ دنیا کا نظام اِسی طور چلتا آیا ہے۔ ہمیں بہت کچھ ملتا ہے اور ہم بھی کچھ نہ کچھ دیتے ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم دنیا سے لیتے کیا ہیں اور بدلے میں اسے دیتے کیا ہیں۔ محض معمول کے مطابق یا اُس سے ہٹ کر‘ کچھ زیادہ؟ اپنے خالق کا شکر اور اس زندگی کا حق ادا کرنے کی بہترین صورت یہ ہے کہ ہم قدرت کی عطا کردہ زندگی کو زیادہ بامقصد بنائیں، دنیا کو زیادہ بارونق بنانے میں اپنا کردار پوری دیانت اور سنجیدگی سے ادا کریں۔ یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ آپ کو دوسروں سے بہت کچھ ملا ہے۔ آپ کی طرف سے بھی دوسروں کو کچھ نہ کچھ نیا ملنا ہی چاہیے۔ آپ جو کچھ بھی کر رہے ہیں اُس میں کچھ نہ کچھ نیا ضرور کیجیے تاکہ جدت کا بازار گرم رکھنے میں آپ کا کردار بھی تسلیم کیا جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved