اقوام ِ متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل میں‘امریکہ اور یورپی یونین کے رکن ممالک نے‘پاکستان کی پیش کردہ قرارداد کی حمایت نہیں کی۔ قراردادمیں مذہبی کتب کے احترام کے لیے‘عالمی سطح پر اقدامات کا مطالبہ کیاگیا ہے۔اعتراض یہ اٹھایاگیا کہ یہ قرارداد مذہبی شعائر کے احترام کی بات کرتی ہے‘انسانی حقوق کی نہیں۔
یہ ممالک انفرادی سطح پر سویڈن کے واقعے کی مذمت کر تے ہیں مگر اس اہم فورم پر انہوں نے ایک مختلف موقف اختیار کیا۔بھارت نے پاکستان کی ہم نوائی کی۔یہ قرارداد کثرتِ رائے کے ساتھ منظور ہو گئی مگراس نے تہذیب کے باب میں اس فرق کو نمایاں کر دیا جو دو نظام ہائے حیات(Worldviews) میں موجود ہے۔امریکہ اور یورپی یونین نے لبرل ازم کی ترجمانی کی۔سوال یہ ہے کہ عالمگیریت کے اس دور میں‘ کیا مغرب کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ دنیا سے لبرل ازم کو ایک عالمگیرنظامِ اقدار کے طور پر منوا سکے؟کیا لبرل ازم کومغرب کا واحد ترجمان نظریہ ٔحیات تسلیم کیا جا سکتا ہے؟
اقوام ِ متحدہ میں مغرب کو شکست ہوئی۔یہ اس بات کا اعلان ہے کہ لبرل ازم کو ایک عالمگیر نظامِ فکر کی حیثیت حاصل نہیں۔ وہ جن اقدار کی نمائندگی کر رہا ہے‘ وہ تمام دنیا کے لیے قابلِ قبول نہیں۔یہ ممکن ہے کہ اس کے بعض مظاہر سے لوگ متفق ہوں لیکن ایک نظامِ فکر کے طور‘ اس کو یہ حیثیت حاصل نہیں کہ اس کو عالمگیر مقام دیا جا سکے۔ دنیا میں دوسرے نظام ہائے حیات موجود ہیں اوران کے ماننے والے مغرب سے زیادہ ہیں۔قرارداد کی منظوری یہی بتا رہی ہے۔
یہ مقدمہ بھی محلِ نظر ہے کہ لبرل ازم مغرب کا تنہا فکری نمائندہ ہے۔لبرل ازم دراصل جدیدیت (Modernity) کا نتیجہ ہے۔ جدیدیت نے آہستہ آہستہ ایک مذہب کی صورت اختیار کر لی جس میں دوسرے نقطہ ہائے نظر کے لیے جگہ باقی نہیں رہی۔جس طرح مذہب میں بعض عقائد پر ایمان لانا ضروری ہوتا ہے‘اسی طرح جدیدیت نے بھی بعض اقدار کو یہی حیثیت دے دی۔اس نے اس نظامِ فکر کو ایک 'اِزم‘ میں بدل ڈالا۔اِزم بننے کے بعد لبرل اِزم‘ خود لبرل اقدار کے لیے ایک خطرہ بن گیا۔
میں یہاں تنقید کی بات نہیں کرر ہا۔تنقید دنیا کے ہر نظامِ فکر پر کی جا سکتی ہے اور کی جا تی رہی ہے۔مجھے اس بحث سے کوئی دلچسپی نہیں جو عامیانہ سطح پر ہورہی ہے اور جس میں ایک راسخ العقیدہ مسلمان کو بھی بے تکلفی کے ساتھ‘بلا تحقیق توہینِ مذہب کا مجرم سمجھ لیا جا تا ہے۔علمی سطح پر تنقید کو ہمیشہ گوارا کیا گیا ہے اور اس کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دنیا کا کون سا مہذب آدمی ہو گا جو ایک مقدس کتاب کے جلانے کو 'تنقید‘ قرار دے سکتا ہے؟یہ سر تا پا بیہودگی ہے اور اسے اسی دائرے میں رکھا جا ئے گا۔لبرل اقدار دوسروں کے احترام کا درس دیتی ہیں لیکن جیسے ہی یہ نظامِ اقدار کی صورت اختیار کرتا اورایک ازم میں ڈھلتا ہے‘ایک مذہب کی صورت اپنا لیتا ہے۔
'پوسٹ ماڈرن ازم‘ در اصل اسی جدیدیت کا ردِ عمل ہے۔یہ اسی نظامِ فکر سے پھوٹا ہے‘جدیدیت جس کی دین ہے۔یہ اپنے جوہر میں 'اینٹی ازم‘ ہے۔یہ جدیدیت کو قبول کرتا ہے مگر مذہب کے طور پر نہیں۔ 'ازم‘ کا لاحقہ‘اسے بھی مذہب بنا دے گا مگر اس وقت یہ میرا موضوع نہیں۔جدیدیت کثیر المدنیت کا قائل ہے۔ مغرب اب کوئی مذہبی یا تہذیبی اکائی نہیں ہے۔ اس میں مسلمان بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔اسی طرح مسیحیت بھی ایک بڑی مذہبی اور تہذیبی شناخت کا نام ہے۔لبرل ازم مسیحیت کے لیے بھی اتنا ہی بڑا خطرہ ہے جتنا اسلام کے لیے۔یہی وجہ ہے کہ پوپ فرانسس نے سویڈن کے واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔ایک ایسے سماج میں اگر قرآن مجید یا بائبل کی توہین ہوتی ہے تو یہ خود مغربی معاشرے میں اضطراب پیدا کرے گا۔
پاکستان کی قرارداد صرف قرآن مجید کی بات نہیں کرتی۔اس میں تمام مقدس کتب کے احترام کا مطالبہ کیا گیاہے۔یہ بات کثیر المدنیت (Pluralism) کی قدر کو فروغ دیتی ہے مگرلبرل ازم کو درست نہیں لگتی درآں حالیکہ یہ جدیدیت کے متعارف کردہ نظامِ اقدار میں سے ہے۔اس کی دلیل امریکہ اور یورپی یونین کی طرف سے اس قرارداد کی مخالفت ہے۔ملٹی کلچرازم کا علمبردارمغرب‘ اس قرارداد کی کیسے مخالف کرسکتا ہے؟ یہ حکومتیں اپنے ان شہریوں کے جذبات کو کیسے نظر انداز کر سکتی ہیں جو مسلم اور مسیحی ہیں؟
بھارت نے اس قرارداد کی حمایت کی ہے۔ہمیں معلوم ہے کہ بھارت میں اس وقت ایک ایسے طبقے کی حکومت ہے جو مذہبی برتری کے ا حساس پر مبنی‘انتہا پسندانہ خیالات رکھتا ہے۔اس کے باوجود‘چونکہ وہ اصلاً مذہی روایات کا حامل ملک ہے‘اس لیے بھارت کے لیے یہ ممکن نہیں کہ کسی بین الاقوامی فورم پر ایسا مؤقف اختیار کر سکے جو اس کی تہذیبی اقدار سے متصادم ہو۔
میں اس سے یہ اصول اخذکر تا ہوں کہ لبرل ازم میں عالمگیر نظامِ اقدار بننے کی صلاحیت نہیں ہے۔یہ صلاحیت کسی ازم میں نہیں ہو سکتی۔نیشنلزم‘کمیونزم‘ہر ازم نے عالمِ انسانیت کو تقسیم کیا ہے۔دنیا کو ایک ایسے نظامِ اقدار کی ضرورت ہے جو احترامِ انسانیت کے تصور کو اس کے تمام پہلوؤں کے ساتھ اپنے اندر سمیٹ سکے۔اسلام‘اس میں شبہ نہیں کہ عقائد کا ایک نظام رکھتا ہے جس کی قبولیت‘ اس دین میں داخل ہونے کی بنیادی شرط ہے۔تاہم اس کے ساتھ‘اس میں یہ صلاحیت سب سے زیادہ ہے کہ وہ ایک کثیرالمدنی اور کثیر المذہبی دنیا کے لیے ایک ایسا نظامِ اقدار دے سکے جو عالم گیر نوعیت کا ہو۔
اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی قرارداد اصلاً او آئی سی کی قرارداد ہے۔گویا یہ عالمِ اسلام کی نمائندگی کر رہی ہے۔اس کو بارہ کے مقابلے میں اٹھائیس ممالک کی تائید حاصل ہوئی۔بارہ ممالک نے اس کے خلاف رائے دی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آج بھی دنیا کی اکثریت اس نظامِ اقدار کو ترجیح دے رہی ہے جو مسلمانوں کے نظام ِاقدار سے پھوٹاہے۔ دنیا آج بھی جانتی ہے کہ یہ فرد ہو یا مذہب‘ کسی کی توہین کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ آزادیٔ رائے کی قدر سے اس کا تصادم نہیں۔ امریکہ اور یورپی یونین بھی تکنیکی بنیادوں پر اس کی مخالفت کر رہے تھے۔وہ بھی جانتے ہیں کہ وہ کھل کر اس مقدمے کی تائید نہیں کر سکتے۔
تہذیبوں کے تصادم کی بحث کتنی حقیقی ہے‘اس سے قطع نظر‘یہ واضح ہو گیا ہے کہ مسلمان اس معاملے میں مضبوط جگہ پر کھڑے ہیں۔اگر اس پر عالمی سطح پر مکالمہ ہو تو یقینا اسلام اور مسلمانوں کو ا س کا فائدہ ہو گا۔ علمی سطح پر اگر کسی کو اعتراض ہے تو ہم اس کا سامنا کر سکتے ہیں اور دنیا کے ساتھ علمی مکالمے کے لیے آمادہ ہیں۔اس مکالمے میں مجھے امید ہے کہ عالمِ مسیحیت بھی اہلِ اسلام کے ساتھ ہوگا۔
اس کے لیے ہمیں اپنی صفوں میں موجود انتہا پسند عناصر سے اظہارِ لاتعلقی کرنا ہو گی۔ہمیں دنیا کو یہ بتانا ہوگا کہ اسلام کی نمائندگی قرآن مجید اور نبی کریمﷺ کا اسوۂ حسنہ کرتا ہے۔ایک نظری اساس ہے اور ایک عملی۔ ان کی بنیاد پرہم دنیا کو ایک عالمگیر نظامِ اقدار کی طرف مراجعت کی دعوت دیتے ہیں۔سویڈن کے واقعے نے ایک موقع پیدا کر دیا ہے۔ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved